زراعت ہمارے ملک کا اہم ترین شعبہ ہے جو نہ صرف خوراک
بلکہ صنعتوں کے لیے خام مال اور کثیر زرِ مبادلہ بھی فراہم کرتا ہے۔ جب ہم
کہتے ہیں کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم ملکی
ترقی کے لیے مخلص ہیں تو ہمیں زرعی ترقی کو اولین ترجیح دینا ہوگی۔ماضی میں
زراعت کسی حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں رہی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ
زراعت کے حالات بدتر اور ملکی معیشت کی حالت بدترین ہوتی گئی۔ایک زرعی ملک
کے لیے اس سے بڑھ کر بدقسمتی کیا ہوسکتی ہے کہ گزشتہ حکومت میں سالانہ 4ارب
ڈالر کی زرعی درآمدات کی گئیں ۔وزیر اعظم عمران خان نے اقتدار سنبھالنے کے
بعد پہلی تقریر میں ہی زرعی بہتری کے لیے عزم ظاہر کر کے کسانوں کے دل جیت
لیے لیکن اس عزم کو عملی جامہ پہنانے کی ضرورت تھی۔چند روز قبل وفاقی
کابینہ کے اجلاس میں زرعی شعبہ کی بہتری کے لیے" نیشنل ایگریکلچر ایمرجنسی
پروگرام" منظور کیا گیا جس کے مطابق اگلے پانچ سال میں زراعت، فشریز اور
لائیو سٹاک کے فروغ کے لیے 290 ارب روپے کی لاگت سے 18پراجیکٹس مکمل کیے
جائیں گے۔وزارت خوراک و تحقیق کے مطابق یہ منصوبہ تمام صوبوں، زرعی ماہرین
اور سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے مرتب کیا گیا ہے جس میں صوبائی حکومتوں کو 35
سے 38 فیصد ادا کرنے ہوں گے جبکہ باقی فنڈز وفاق فراہم کر ے گا۔
ہمارے کسانوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے پیداواری لاگت
میں اضافہ ہوتا جارہا ہے لیکن اس کے برعکس فصل کی پیداور نہیں بڑھ رہی۔اس
مسئلہ سے نمٹنے کے لیے گندم، کماد ، چاول اور تیل دار فصلوں کے لیے 28ارب
روپے مختص کیے گئے ہیں جس کے تحت کسانوں کو حکومت کی طرف سے تیس سے پچاس
فیصد رعایت پر زرعی مشینری ، منظور شدہ بیج اور کھادیں فراہم کی جائیں
گی۔کسانوں کو جدید زرعی طریقوں سے روشناس کرنے کے لیے میڈیا اور محکمہ
توسیع زراعت کو مزید فعال بھی کیا جائے گا۔ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری کا
دارومدار کپاس کی فصل پر ہے لیکن گزشتہ چند سال سے کپاس کی پیداوار میں کمی
نے ٹیکسٹائل انڈسٹری اور ملکی معیشت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔کپاس کی فصل
کے فروغ کے لیے بہتر کوالٹی کے بیج کی فراہمی اور نئی اقسام پر تحقیق بھی
اس پراجیکٹ کا حصہ ہے۔ہمارے ہاں کپاس کی چنائی عموماً عورتیں اور بچے کرتے
ہیں جس کی وجہ سے کپاس کی کوالٹی اور معیار متاثر ہوتا ہے اور عالمی منڈی
میں اس کے نرخوں پر برا اثر پڑتا ہے۔اس مسئلہ سے نمٹنے کے لیے ارجنٹائن سے
بات چیت کی جارہی ہے تاکہ کپاس کی چنائی میں مشینری کا استعمال کیا جاسکے۔
زراعت کے لیے پانی کو بنیادی اہمیت حاصل ہے جس کی کمی کسی بھی فصل کی
پیداوار کو بری طرح متاثر کرتی ہے۔اس وقت پاکستان دنیا کے ان ممالک میں
شامل ہے جو شدید آبی مسائل کا شکار ہیں ۔عالمی اداروں کے مطابق اگر فوری
طور پر سنجیدہ اقدامات نہ کیے گئے تو 2030 ء تک پاکستان کو شدید آبی بحران
کا سامنا کرنا پڑے گا جس کا سب سے زیادہ اثر ملکی زراعت پر پڑے گا۔موجودہ
حکومت نے آبی مسائل پر قابو پانے کے لیے تین بڑے پراجیکٹس بھی آئندہ پانچ
سالہ منصوبہ میں شامل کیے ہیں ۔صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں کھالے پکے
کرنے کے منصوبہ پر کام کیا گیاجس کے ثمرات کو دیکھتے ہیں موجودہ حکومت نے
بھی اس پراجیکٹ کا دوسرا مرحلہ شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔اس مقصد کے
لیے180 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جو پرانے کھالوں کی مرمت اور نئے کھالے
پکے کرنے کے لیے استعمال ہوں گے۔اعدادو شمار کے مطابق میں پاکستان میں
دستیاب پانی 141ملین ایکڑ فٹ(maf) سالانہ ہے جس میں سے 104mafہمارے نہری
نظام کا حصہ بنتا ہے۔ صورتحال کچھ یوں ہے کہ 22mafپانی نہروں سے کھالوں تک
پہنچنے میں ضائع ہوجاتا ہے جبکہ 25mafپانی کھیت تک پہنچنے سے پہلے ہی
کھالوں میں ضائع ہوجاتا ہے۔ایک اندازے کے مطابق کھالے پکے کرنے سے ہم
9mafپانی بچا سکتے ہیں جو اس وقت تربیلا اور منگلا ڈیم کی کل پانی ذخیرہ
کرنے کی صلاحیت کے برابر ہے۔اس کے علاوہ کسانوں کوسبسڈی دے کر لیزر لیولنگ
کی طرف راغب کیا جائے گا تاکہ کھیتوں میں پانی کا ضیاع کم سے کم ہو۔
پاکستان میں ہر سال 34mafپانی ڈیمز نہ ہونے کی وجہ سے سمندر میں ضائع
ہوجاتا ہے۔اس پانی کو محفوظ کرنے کے لیے پاکستان میں نئے ڈیمز کی اشد ضرورت
ہے لیکن بدقسمتی سے کالاباغ ڈیم سیاست کی نذر ہوچکا ہے اور دیامیر بھاشا
ڈیم کی تکمیل کے لیے بھی کثیر رقم اور طویل عرصہ درکار ہے۔اس صورت میں فوری
طور پر پانی کو ذخیرہ کرنے اور زرعی استعمال میں لانے کے لیے چھوٹے ڈیمز
بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔اس وقت پنجاب میں 58 ، سندھ میں 81، بلوچستا ن
میں 619 اورپختونخواہ میں 14 چھوٹے ڈیمز موجود ہیں جو بڑے زرعی رقبہ کو
سیراب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ان ڈیمز سے فائدہ اٹھانے اور زیادہ سے
زیادہ رقبہ قابل کاشت بنانے کے لیے اس منصوبہ میں 18 ارب روپے مختص کیے گئے
ہیں۔چونکہ بارانی علاقوں میں زراعت کا دارومدار صرف بارشوں پر ہوتا ہے اس
لیے 10.6ارب روپے خصوصی طور پر مختص کیے گئے ہیں کہ بارش کے پانی کو چھوٹے
ڈیمز بنا کر محفوظ کیا جائے تاکہ بعد میں اسے استعمال میں لایا جاسکے۔
لائیو سٹاک زراعت کا اہم حصہ ہے جس کا جی ڈی پی میں 11 فیصد حصہ ہے۔قومی
زرعی پروگرام میں لائیو سٹاک کے فروغ کے لیے دو پراجیکٹس شامل ہیں جن کے
تحت 561 ملین روپے بچھڑوں کے تحفظ کے لیے اور 4.1 ارب روپے بچھڑوں کو موٹا
کرنے کے لیے مختص کیے جائیں گے۔اسی طرح تین فشریز پراجیکٹس بھی منصوبہ بندی
میں شامل ہیں جو نہ صرف اس شعبہ سے تعلق رکھنے والے چار لاکھ لوگوں کا
معیارِ زندگی بلند کریں گے بلکہ ان سے کثیر زرمبادلہ بھی حاصل ہوگا۔ان
پراجیکٹس کے تحت سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں جھینگا فارمنگ کے
لیے 4.4 ارب روپے، کیج فش کے لیے 2.5 ارب روپے اور ٹراؤٹ فش فارمنگ کے لیے
1.7ارب روپے مختص کیے جائیں گے۔ مقامی سطح پر مرغبانی کے فروغ کے لیے بھی
400ملین روپے خرچ کیے جائیں گے جس کے تحت دیہی علاقوں میں خواتین کو
روزگارکے لیے مرغیاں دی جائیں گی۔مجموعی طور پر" قومی زرعی ایمرجنسی
پروگرام "ملکی زراعت کے لیے انقلابی اقدام ثابت ہوسکتا ہے لیکن ماضی میں
زرعی منصوبوں کی ناکامی کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کو جامع پالیسی مرتب
کرنا ہوگی۔اس امر کو یقینی بنانا ہوگا کہ یہ تمام منصوبے دیر پا اثرات کے
حامل ہوں اور عام آدمی تک اس کے ثمرات منتقل کیے جاسکیں۔ |