آغاز اسلام کے بعد مکی زندگی اہل ایمان کے لیے انتہائی
پریشان کُن اور اذیت ناک تھی۔ وہ کون سی ذہنی کوفت و جسمانی اذیت تھی جس کا
سامنا جناب رحمۃ اللعالمین ﷺ، آپ کے اہل بیت و صحا بہ کرام کو نہ کرنا پڑا
ہو۔ ان مشکل حالات میں آپ کے چچا حضرت ابو طالب اور آپ کی زوجہ محترمہ حضرت
خدیجہ الکبری وہ دو ہستیاں تھیں جو نبی کریم ﷺ کی داد رسی اور غم گساری
فرماتیں۔ ہجرت سے ایک سال قبل یکے بعد دیگرے کچھ وقفے سے ان دونوں ہستیوں
کا انتقال ہو گیا ۔ ان کی جدائی کے صدمے میں حضورﷺ پریشان رہتے۔اسی لئے
تاریخ اسلام میں نبوت کے بارویں سال کو’’ عام الحزن‘‘ کہا جاتا ہے یعنی غم
کا سال۔ان حالات میں رب العالمین نے اپنے محبوب ﷺ اوران کے جان نثاروں کی
دل جوئی اور ہمت افزائی کے لیے رجب کی ستائیسویں رات کو ہمارے آقا و مولا
محمد رسول اﷲﷺ کو ’’معراج النبیﷺ‘‘ کی صورت میں ایک فقید المثال انعام سے
نوازا۔ آپﷺ کے تصدق سے تا قیامت عالم انسانی کو حقیقی ترقی اور عروج کی
منزل کا روشن نشان بتا دیا بقول اقبالؒ۔
سبق ملا ہے، یہ معراج مصطفیﷺ سے مجھے کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں
یہ عظیم الشان واقعہ دو مرحلوں پر مشتمل تھا۔ پہلے مرحلے میں نبی کریم ﷺ
رات کے وقت مسجد الحرام (مکہ) سے مسجد الاقصیٰ (بیت المقدس) تک تشریف لے
گئے جسے اسراء کہا گیا اور دوسرا مرحلہ معراج کا ہے جس میں اﷲ کے حبیب ﷺ
مسجد اقصیٰ سے آسمانوں تک تشریف لے گئے اور پھر واپس تشریف لے آئے۔’اسراء‘
کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے: ’’پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو راتوں
رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کی سیر کرائی، جس کے گرد ہم نے برکت رکھی
ہے، تاکہ ہم اسے اپنی نشانیاں دکھلائیں۔ بے شک وہ سننے اور دیکھنے والا
ہے۔‘‘(بنی اسرائیل، آیت1) ۔ اسی وجہ سے اسے واقعہ اسراء کہا جاتا ہے۔مکہ سے
مدینہ طیبہ، مدینہ منورہ سے طور ِ سینا، طور ِ سینا سے بیت اللحم، اور پھر
بیت اللحم سے بیت المقدس تک براق پر سفر ختم ہوتا ہے۔ بیت المقد س میں ہی
آپ ﷺ نے تمام انبیاءؑ کی امامت فرمائی۔ بیت المقدس سے آگے کے سفر کے لیے
حضرت جبرائیل ؑ نے آپ کو ایک نورانی سیڑھی پیش کی جس پرمزید سفر جاری رکھا،
چوں کہ عربی زبان میں سیڑھی کو معراج کہا جاتا ہے لہٰذا پورا واقعہ اسی سے
منسوب کر کے اسے معراج النبی ﷺ کہا گیا ہے۔واقعہ معراج بہت سی احادیث میں
مذکور ہے۔ اس کے راوی صحابہؓ کی تعداد پچیس سے زیادہ ہی ہے۔اگر اس واقعہ کا
ایمان و ایقان اور حسن تدبر کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے نظر
آتی ہے کہ واقعہ معراج کی عظمت موجودہ دور کی انسانیت کو یہ سبق دیتی ہے کہ
اگر ہم نے ہر قسم کے امتیازات کو ختم کر کے انسانیت کو وحدت عطا کرنی ہے،
انسانی معاشروں کو امن، خوش حالی، عدل و انصاف اور جامع ترقی سے ہم کنار
کرنا ہے، قافلہء انسانیت کو بہیمیت اور دہشت گردی سے نجات دلا کر اسے عمدہ
اخلاق و کردار سے روشناس کرانا ہے ۔ انسانی ظاہر و باطن میں توازن اور
یگانگت پیدا کر کے انسانیت کو اس کی حقیقت سے روشناس کرانا ہے، جوکہ اس کی
تمام تر ترقی کی معراج ہے، تو پھر ہمیں اسوہ نبوت ﷺسے راہ نمائی حاصل کر نا
ہوگی۔ خصوصاً امام الانبیاء، خاتم الانبیاء ﷺ کے لائے ہوئے جامع دین کا
مکمل شعور حاصل کرکے حکمت و بصیرت کے ساتھ انسانیت کو درماندگی سے ارتقاء
کی جانب لے جانا ہوگا۔ واقعہء معراج انسانی ارادوں، کاوشوں اور کارناموں کا
رُخ متعین کرتا ہے، تاکہ انسان بھول بھلیوں سے نکل کر ہمہ وقت اپنے مقصد
حیات کو پیش نظر رکھے۔سفر معراج میں سابقہ انبیاء ؑ ورسل ؑ نے حضورﷺ کا
استقبال فرمایا ۔ آپ ﷺ کی امامت میں نماز ادا فرمائی۔گویاخاتم الا انبیاء ﷺ
سفر معراج کی ابتداء میں ہی امام الانبیاء کے اعزاز سے سرفراز ہوئے۔ ایسی
عظیم الشان تقریب کے لیے شایان شان مقام کے حسنِ انتخاب کو صد سلام! کہ جو
اکثر انبیاء کا وطن اور مدفن ہے۔یہاں سے ساتوں آسمانوں کی سیر فرمائی،
آسمانوں پر منتخب اُوالعزم پیغمبروں سے فرداً فرداً ملاقات کا اہتمام
فرمایا گیا۔پہلے آسمان پر سیدنا آدم ؑ موجود تھے، دوسرے آسمان پر یحییٰ ؑ و
عیسیٰ ؑ نے استقبال کیا، تیسرے آسمان پر حسن یوسف ؑ نکھر کر سامنے آیا ہوا
تھا، چوتھے آسمان پر حضرت ادریس ؑ موجود تھے، پانچویں آسمان پر حضرت ہارون
ؑ ملاقات کے منتظر تھے ، چھٹے آسمان پر سیدنا موسیٰ ؑ کا جاہ و جلال جلوے
بکھیر کر مرحبا کہہ رہا تھا اور ساتویں آسمان پر آپ ﷺ کے جد امجد سیدنا
ابراہیم خلیل اﷲ مجسم صورت میں اپنی دعا کی قبولیت کا مشاہدہ فرما رہے
تھے۔بعد ازاں آپ ﷺ کو جنت کے نظاروں اور جہنم کا مشاہدہ کرایا گیا۔ دوران
سفر جب سدرۃ المنتہٰی کے مقام پر پہنچے تو جبریل امین ؑ نے آگے جانے سے
معذرت چاہی۔ سورہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت ہی واقعہء اسراء یا معراج کے
متعلق نہیں بلکہ پوری سورہ مبارکہ اسی واقعہ کے گرد گھومتی ہے اور معراج کے
فلسفہ و مقاصد کو واضح کرتی ہے۔ سورہ بنی اسرائیل میں انسانیت کو ترقی کی
راہ پر گام زن رکھنے کے لیے بارہ احکامات عطا ہوئے، جواس قدرجامع ہیں کہ
انہیں ہر دور کی انسانیت کو اس کی فطرت پر قائم رکھنے کے لیے بنیادی نسخہ
کہا جا سکتا ہے۔ انسانیت کو حکم دیا گیا۔(1) شرک نہ کرو (2) والدین کی عزت
اور اطاعت کرو (3) حق داروں کا حق ادا کرو (4) اسراف، افراط و تفریط سے پر
ہیز کر کے میانہ روی اختیار کرو (5) اپنی اولاد کو قتل نہ کرو (6) زنا کے
قریب نہ جاؤ (7) کسی کو ناحق قتل نہ کرو (8) یتیم سے بہتر سلوک کرو (9) عہد
کی پاس داری کرو (1) ناپ تول اور وزن کرنے میں عدل کرو (11) نامعلوم بات کی
پیروی نہ کرو، یعنی جہالت سے دور رہو (12) غرور اور تکبر سے اجنتاب
کرو۔(بحوالہ: سورۃ بنی اسرائیل آیت 32تا37)۔ علاوہ ازیں معراج نبویﷺ کا
عظیم ترین تحفہ جو آپ ﷺ کو امت کے لیے عطا کیا گیا وہ پنج گانہ نماز ہے۔
نماز معراج مومن ہے۔ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ انسانیت کے سفر ارتقاء
اور عروج کا حاصل اور مطلوب صرف اور صر ف ذات خداوندی کا عرفان ہونا چاہیے۔
معراج کا یہ عظیم ہدیہ دن میں پانچ مرتبہ ہمیں فلسفہء حیات اور فلسفہء
معراج کی یاد دلاتا ہے۔ کاش کہ ہم معراج کی حقیقت کو جان کر اس مختصر سی
حیات مستعار میں اپنے آپ کو خود آشنا اور خدا شناسا بنا کر مقصد زندگی کو
پا لیں۔ |