بسم اﷲ الرحمن الرحیم
چھوٹی چھوٹی نیکیاں اور ان کے فوائد و ثمرات سمیٹنے کے مواقع بار بار ہماری
زندگی میں آتے ہیں لیکن بے توجہی اور لا شعوری ہمیں ان نیکیوں پر عمل پیرا
ہونے سے روکے رکھتی ہے ۔ ہم محض یہ سوچ کر کہ اتنے چھوٹے سے عمل کا کیا
فائدہ ہو گا ، اُس نیکی کی ادائیگی سے باز رہتے ہیں ۔ مثلاً راہ میں کوئی
نقصان دہ پتھر یا کانٹا نظر آیا اور فقط اس وجہ سے اس کو دور نہیں کیا کہ
یہ معمولی سی نیکی ہے ، اﷲ کے گھر میں تنکا یا کوئی اور معمولی گندگی دیکھی
، مگر اس کے زائل کر دینے کو چھوٹا عمل خیال کرتے ہوئے چھوڑ دیا ۔
یہ فقط دو مثالیں ہیں ، ورنہ اس طرح کے بیسیوں مواقع ہماری روزمرہ کی زندگی
میں آتے ہیں کہ نیکی کا موقع ہونے کے باوجود اسے معمولی خیال کرتے ہوئے نظر
انداز کر دیا جاتا ہے ۔ حالانکہ ہمارا معاملہ اس رحیم ، کریم اور انصاف
کرنے والے رب کے ساتھ ہے جو چھوٹی سے چھوٹی نیکی کا بدلہ بھی ہمیں ضرور عطا
فرمائے گا ۔ چنانچہ وہ خود فرماتا ہے :
’’ فَمَنْ یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَرَہُ ‘‘ ( سورۃ الزلزال ،
رقم الآیۃ : ۷ )
’’ سو جو کوئی بھی ایک ( معمولی ) ذرے کے برابر بھی نیکی کرے گا تو اس کو
دیکھ لے گا‘‘ ( الزلزال )
اس آیت سے واضح ہے کہ ایک ذرہ کے برابر بھی بھلائی اگر کوئی انسان کرے گا ،
اسے بھی اﷲ کے ہاں پائے گا ، اور اس کا بدلہ و انعام بھی ملے گا ۔
بنی اسرائیل کی ایک فاحشہ اور بدکار عورت کا قصہ احادیث میں موجود ہے کہ اس
نے ایک پیاسے کتے کو اﷲ کی مخلوق سمجھتے ہوئے پانی پلا دیا ، جس پر اﷲ نے
اس کی بدکاریوں اور خطاؤں سے درگزر کر کے اس کی بخشش فرما دی ۔
(ملاحظہ ہو : صحیح مسلم ، رقم الحدیث : ۲۲۴۵ ، کتاب السلام ، باب فضل ساقی
البہائم المحترمۃ وإطعامہا )
بلکہ ایک حدیث سے تو یہ بھی پتا چلتا ہے کہ کھانے پینے کے بعد فقط شکر ادا
کرنے سے بھی اﷲ تعالیٰ راضی ہوتے ہیں ۔
( ملاحظہ ہو : صحیح مسلم ، رقم الحدیث : ۲۷۳۴ ،کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ
والاستغفار ، باب استحباب حمد اﷲ تعالی بعد الأکل والشرب )
جبکہ دیکھا جائے تو یہ کتنا معمولی اور مختصر سا عمل ہے اور اس کی ادائیگی
میں قابلِ ذکر وقت بھی صَرف نہیں ہوتا ۔
ہماری روز مرہ زندگی میں متعدد ایسے مواقع آتے ہیں جن میں ہم کچھ خرچ کیے
بغیر ، چند لمحوں میں کئی نیکیوں کا اضافہ اپنے نامۂ اعمال میں کر سکتے ہیں
، اور اﷲ کی رضا کو پا سکتے ہیں ۔ ہم ان نیکیوں کو معمولی خیال کرتے ہوئے
نظر انداز نہ کر دیا کریں ، ورنہ ہم دنیا و آخرت میں کئی فوائد و ثمرات سے
محروم رہ جائیں گے ۔
اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی یہی تعلیم ارشاد فرمائی ہے ۔ چنانچہ آپ
صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
’’ لَا تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوفِ شَیْئًا، وَلَوْ أَنْ تَلْقَی
أَخَاکَ بِوَجْہٍ طَلْقٍ ‘‘ ( صحیح مسلم ، رقم الحدیث : ۲۶۲۶ ، کتاب البر و
الصلۃ والآداب ، باب استحباب طلاقۃ الوجہ عند اللقاء)
’’ کسی نیکی کو بھی حقیر مت جانو، حتیٰ کہ اپنے بھائی کے ساتھ خندہ پیشانی
سے ملنے کو بھی حقیر مت سمجھو ‘‘ ( مسلم )
خلاصہ یہ کہ کسی بھی نیکی کو حقیر سمجھنا اور معمولی خیال کرتے ہوئے چھوڑ
دینا درست راہِ عمل نہیں ۔ کیا خبر اﷲ تبارک وتعالیٰ اسی چھوٹی سی نیکی پر
ہماری بخشش فرما دیں ، جس کو ہم معمولی خیال کر کے چھوڑ بیٹھے ہوں ، اور ہو
سکتا ہے کہ ہماری مغفرت اسی نیکی پر موقوف ہو ۔ اس باب میں بنی اسرائیل کی
فاحشہ عورت کا قصہ اپنے سبق کے ساتھ ہمارے سامنے واضح ہے ۔
لہٰذا کسی بھی اچھائی کو معمولی اور حقیر جان کر نظر انداز کرنے سے بچنا
چاہیے ، خدا جانے ․․․ ! کل بروزِ محشر کون سی نیکی اوربھلائی ، اچھائیوں
والے پلڑے کو بھاری کر کے ہمیں سرخرو کروا دے ۔
ترجمہ: () |