لوگ جو کچھ ہیں اسکی ذمہ داری بالواسطہ یا بلا واسطہ
حالات کے زمرے میں آتی ہے مگر حالات کا کسی بھی چیز کی کامیابی یا ناکامی
میں بہت زیادہ ہاتھ نہیں ہوتا. حالات پر میرا یقین کامل نہیں ہے. دنیا میں
بڑے بڑے نامور لوگ جنہیں دنیا ان کے کام کی وجہ سے جانتی یے وہ دھرنا دے کر
التی پالتی مار کر نہیں بیٹھے رہے بلکہ وقت کی کوکھ سے نکل کر انہوں نے تگ
و دو کی اور ایسے حالات بنائے جن کی انہیں ضرورت تھی. وہ ملے یا نا ملے
انہیں خود ڈھونڈنا پڑتا ہے. کہتے ہیں ڈھونڈنے سے تو خدا بھی مل جاتا ہے یہ
تو پھر مواقع تھے. کامیابی کے لیے غیر معمولی حالات کا انتظار نہ کریں بلکہ
کوشش کریں کہ معمولی حالات سے خود ابھر کر باہر آئیں. ایک انگریز لکھاری
بنجمن فرینکلن اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ حالات کتنے ہی ناگوار کیوں نہ
ہوں لیکن حل ہمیشہ گہرا چلانا چاہیے. بہت زیادہ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو حالات
کے مطابق خیالات بدل لیتے ہیں اور کتنے کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو خیالات کے
مطابق حالات بدلتے ہیں. انسان کو ہنیشی یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ حالات
انسان کو نہیں انسان حالات کو بناتے ہیں بہت سی مثالیں دنیا کے سامنے ہیں
کہ وہ لوگ جو ہر وقت ہوشیار رہتے ہیں اور وقت ضائع نہیں کرتے جو اپنی
تخلیقی قوتوں کو سلب نہیں ہونے دیتے، کسی بھی موقع کو ہاتھ سے نہیں نکلنے
دیتے پھر وقت دکھاتا ہے کہ وہی لوگ حالات کی باگ سنبھالتے ہیں. حالات کبھی
بھی سازگار نہیں ہوتے حالات کو سازگار بنایا جاتا ہے. اگر آپ مناسب حالات
کا انتظار کریں گے تو یقین مانیں آپ انتظار ہی کرتے رہ جائیں گے. مانا
زندگی میں بعض اوقات یر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے اور اکثر مجھے بھی یہی
محسوس ہوتا ہے کہ میرے ارد گرد سب ختم ہو گیا ہے مگر پھر زندگی کے اندھیروں
میں میرے قدموں کی راہنمائی کرنے کے لیے میرے ہاتھ میں صرف ایک چراغ نظر
آتا ہے جو میرے لیے ڈوبتے کو تنکے کے سہارا جیسا کام کرتا ہے اور وہ ہوتا
ہے تجربہ کا چراغ. ماضی کی غلطیوں کو پیش نظر رکھ کر میں مستقبل کی حماقتوں
سے بچنے کی کوشش کرتی ہوں. کہتے ہیں تجربہ وقت اور عمر گنوانے کے بعد حاصل
ہوتا ہے مفت میں نہیں ملتا، محنت کرو گے تو تجربہ ہو گا اور پرانا تجربہ
نئی تعمیر کی بنیاد بنتا ہے. مگر مجھ جیسے لوگ اس کم عمری میں ہی اپنی عمر
سے دوگنا تجربہ حاصل کر چکے ہوتے ہیں. دوسروں پر جب گزرتی ہے تو ہمیں زیادہ
محسوس نہیں ہوتا کیونکہ دوسروں کے تجربہ سے فائدہ اٹھانا بڑی بات ہے مگر
قابل داد بست تو تب ہے کہ ہم اپنے ہی تجربہ سے سبق حاصل کریں.انسان کا معلم
اسے بہت کچھ سکھاتا ہے اسی طرح تجربہ ایک معلم ہے، زندگی کی ٹھوکریں اسکا
ذریعہ تعلیم، اسکی فیس بہت زیادہ ہے.
کیا انسان دوسروں کے تجربے سے سیکھتا ہے؟ نہیں بلکل نہیں اسے آگ کی اصلیت
کا اندازہ تب تک نہیں ہوتا جب تک اسکے اپنے ہاتھ نہ جل جائیں. دنیا میں سب
سے پہلے انسان کے آگے تاریخ یعنی دنیا کے گزرے ہوئے حالات و واقعات آتے ہیں
َہمیشہ ایک ہی طرح کے واقعات ہوتے اور ایک ہی طرح کے نتائج نکلتے ہیں.
تجربہ بتاتا ہے اگر آگ کے شعلوں نے ہمیشہ انسان کے جسم کو دکھ دیا ہے تو
ایسا کبھی نہیں ہو گا کہ آگ کے شعلوں میں کود کر کوئی ٹھنڈک پاے۔ کسی دوست
سے آپکو دھوکہ مل جائے تو آپ ایک لمحے کو ڈگمگا جاتے ہیں مگر آپکو ایک سبق
ضرور مل جاتا ہے کہ اگلی بار سے ایسے شخص پر اعتبار نہیں کرنا. امتحان کے
دوران ایک سوال غلط ہو جائے تو اگلی بار امتحان میں وہی سوال آ جانے پر ہم
اسے بلکل سہی طرح حل کرتے ہیں. مشق کے دوران کہیں کھائی آ جائے تو پہلی بار
تو اس میں گر جاتے ہیں مگر اگلی بار اس راستے پر چلنے والی گھاء کا ہمیں
اندازہ ہو جاتا ہے اور ہم محتاط ہو جاتے ہیں کہ ابکی بار اس میں نہیں گرنا.
جسم پر لگنے والا زخم اور دل پر لگنے والی چوٹ آپکو بارہا بتا دیتی ہے کہ
کیا غلط ہے اور کیا نہیں. جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اسے خوشی غمی، دکھ سکھ،
کسی چیز کا کچھ علم نہیں ہوتا مگر وقت کے ساتھ ساتھ اسے علم ہو جاتا ہے اس
نے کس کے پاس جانا کے ہا نہیں. مگر کسی ایک رشتے میں ناکامی بعض اوقات ہمیں
ہر رشتے کے لیے سبق دے جاتی ہے کہ اب کسی پر کوئی اعتبار نہیں رکھنا. ہم
پانچوں انگلیوں کو ایک جیسا گننے لگ جاتے ہیں اور ہمارے نزدیک وہ سب برابر
ہو جاتی ہیں حالانکہ نظر کا چشمہ ان کی معیاری اور الگ نوعیت کو دیکھتے
ہوبھی ماننے سے قاصر ہو جاتا ہے.
اﷲ پاک ہر انسان کو تجربہ سے سکھائے مگر کسی کو ایسا تجربہ نہ دے کہ جس کے
بعد وہ کسی اور مسئلے کو دیکھنے اور سمجھنے کی طاقت کھو دے.
|