اسلاموفوبیا، تاریخ اور کا حل

تحریر: معاذ عتیق راز
نیوزی لینڈ میں دو مساجد پر ہونے والے حملوں کے تناظر میں پاکستان، ترکی، برطانیہ، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا، امریکہ سمیت عراق اور اردن سے تعلق رکھنے والے ساڑھے تین سو سے زائد مسلم علماء، اسکالرز اور رہنماؤں نے مغربی ریاستوں کی حکومتوں اور میڈیا سے اپیل کی ہے کہ وہ ’’اسلاموفوبیا‘‘ کے انسداد کے لیے کوششیں بڑھائیں۔ نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں جمعہ 15 مارچ کوسفید فام دہشت گرد نے دو مساجد پر حملے کرتے ہوئے پچاس افراد کو ہلاک کر دیاتھا۔ یہ نیوزی لینڈ میں رونما ہونے والا دہشت گردی کا سب سے بڑا واقعہ تھا۔

یوں تو حق و باطل کے درمیان تصادم شروع دن سے ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ حق کے خلاف باطل کی ریشہ دوانیوں کا سلسلہ یوں ہی تا قیامت جاری رہے گا۔ صدر اسلام میں بھی اﷲ کے رسولﷺ اور اسلام کو بدنام کرنے کی ناکام کوششیں کی گئیں۔ لیکن اسلامو فوبیا کی جدید اصطلاح کا استعمال سب سے پہلے برطانیہ کے ایک ادارے رنیمیڈ ٹرسٹ نے کیا۔ انگریزی زبان میں مستعمل یہ لفظ دنیا کی بیشتر زبانوں میں اسلام سے خوف و دہشت کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سے مراد اسلام، مسلمانوں یا اسلامی تہذیب سے نفرت یا خوف پیدا کرنا ہے۔ اسلاموفوبیا کا شکا ر شخص اس واہمہ کا اسیر ہوجاتاہے کہ مسلمان مذہبی جنون رکھتے ہیں اور اسلام رواداری، مساوات اورجمہوریت کو یکسر مسترد کرتا ہے۔

ایسا بیمار شخص یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ایک بے حس و حرکت، فرسودہ، ترقی کا دشمن، غیر منطقی اور جامد مذہب ہے۔ مسلمان عام طور پر دہشت پسند اور دقیانوس ہوتے ہیں، وہ خواتین کو پردے کی قید میں رکھتے ہیں۔ مدارس اور قرآن میں تشدد و دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اسلامو فوبیا کو نسل پرستی کی نئی شکل قرار دیا جاتاہے۔ اسلاموفوبیا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک حکمتِ عملی کا نتیجہ ہے، جس کا مقصد اسلام کی رسوائی کرنا اورمسلمانوں کو ذلت وپستی کے کنویں میں پھینک دینا ہے۔9/11 ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ڈرامائی حملوں کے بعد کثرت سے اس لفظ کا استعمال ہوا۔ اس حملے کو فوری طور پر مسلمانوں سے جوڑ دیا گیا۔ جارج بش نے اعلان کیا کہ ہم صلیبی جنگ کا آغاز کریں گے۔ یہ دراصل ان عزائم اظہار تھا جس کے لیے صلیبی اور صیہونی تحریکیں عرصہ دراز سے اسلام کے خلاف رائے بنانے کی کوشش میں مصروف تھیں۔ مسلسل ذہن سازی کی گئی اور اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کر کے مسلمانوں پر جنگ مسلط کردی گئی۔ پوری دنیا میں مسلمانوں کو خونخوار، دہشت پسند اور امن عالم کے لیے خطرہ کے طور پر پیش کیا گیا۔

کسی بھی ملک میں اظہار رائے کی بے لگام آزادی کی اجازت نہیں ہے۔ کوئی بھی ملک ہتک عزت، دشنام طرازی، اہانت، فحش کلامی اور نفرت پھیلانے کی آزادی نہیں د یتا۔ یوروپین ممالک مثلاً جرمنی، فرانس، اسپین، ہالینڈ، آسٹریا، بلجیم وغیرہ میں دوسری جنگ عظیم کے موقع پر یہودیوں کے قتل عام (holocaust) کے خلاف لکھنا، اس کی تردید کرنا اور اس کی تفصیلات شائع کرنا جرم ہے۔ ہولوکاسٹ کی تردید کرنے والے عالمی شہرت یافتہ مصنف ارنسٹ زنڈیل کو 2005ء میں کینیڈا سے نکال دیا گیا تھا۔ برطانوی مورخ ڈیوڈ ارونگ کو 2006ء میں آسٹریا کی عدالت نے دوسری جنگ عظیم کی تاریخ لکھنے کی پاداش میں 3 سال کی قید کی سزا سنائی۔ برطانوی عدالت نے ایک پادری کو ہولوکاسٹ کا انکار کرنے پر 21000 کا جرمانہ کیا۔ دوسری طرف اسلام اور مسلمانوں کی خلاف لکھنا اور ان کی ہرزہ سرائی کرنا نیز رسول اﷲ ﷺکے توہین آمیز خاکے شائع کرنا آزادی رائے کے نام پربلا خوف تعزیر انجام دیے جاتے ہیں۔

اس وقت پوری دنیا میں عمومی طور پر اور مغربی ملکوں یورپ وامریکہ میں خصوصی طور پر اسلامو فوبیا کی لہر شدیدسے شدیدتر ہوتی جارہی ہے، مسلمانوں کے ساتھ ناروا، بے جا اور امتیازی سلوک نیز اسلام کو بدنام کرنے اور اس کی مقدس شخصیات ومقامات کی توہین اور اس کو صفحہِ ہستی سے مٹانے کے واقعات اب مغرب میں آئے دن کا معمول بنتے جارہے ہیں۔ فلسطین، چیچنیا، میانمار اور شام پر استعماری قوتوں کا جبر، فرانس میں حجاب پر پابندی، سوئٹزرلینڈ میں مساجد کے میناروں پر پابندی، چین میں روزہ رکھنے پر حکم امتناعی، ڈنمارک اور فرانس میں پیغمبر اسلام کے اہانت آمیز کارٹونوں کی اشاعت، امریکہ میں مسلمانوں پر تشدد کے واقعات ان تمام باتوں کے پس پردہ اسلام دشمنی اور مسلمانوں کی دل آزاری کا جذبہ کار فرما ہے۔

اس پروپیگنڈا کا واحد حل وہی ہے جو صدر اول میں تھا، وہ ہے اسلام کی دعوت اور اسلام کے تعلق سے غلط فہمیوں کا ازالہ، اسلام کے خلاف تمام نفسیاتی خدشوں کا تدارک خود مسلمانوں کے اپنے عمل میں مضمر ہے۔ مشتعل ہونے اور جارحیت کا جواب جارحیت سے دینے میں نہ صرف اغیار کے پروپیگنڈے کو تقویت ملتی ہے بلکہ اس سے خود اسلام کو زک پہنچتی ہے۔ لہٰذا ہمیں مل کر مسائل کے حل کی کوشش کرنی ہوگی۔ مسلمان ایک دوسرے کے معاون بنیں، سیاسی بیداری، تعلیمی ترقی، مسلمانوں کا معاشی استحکام اس سلسلے کے اہم کام ہیں۔ اسلام کی ان تعلیمات کو عام کرنا ہوگا جو موجودہ مسائل کا حل پیش کرتی ہیں۔ میڈیا پر گہری نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ ہمیں ایسے افراد کی تیاری کرنی ہوگی جو میڈیا کے پروپیگنڈے کا فوری اور شافی جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ اسلاموفوبیا کے واقعات سے مشتعل ہونے کے بجائے ان پر مناسب قانونی چارہ جوئی کی راہ تلاش کرنی ہوگی۔ قرآن حکیم میں اﷲ تعالی کا ارشاد ہے، ’’تم نہ تو کمزور پڑو اور نہ غم کرو۔ اگر تم ایمان پر ثابت قدم رہے تو تمہیں غالب رہوگے‘‘۔

 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1023787 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.