عمران خان کی حکومت کے تیور اب مکمل طور پر عیاں ہوچکے
ہیں نہ تو حکومت کے پاس کوئی ویژن ہے اور نہ ہی اچھی ٹیم۔ عمران خان نے
گزشتہ چار دہایوں سے قائم" اسٹیٹس کو " توڑنے کے لیے دو دہایوں تک سخت محنت
کی اور یوں قوم کو نئی اُمنگ کا حامل بنا کر چھوڑا۔ یوں مقتدر حلقوں نے بھی
عمران خان کو آزمانے کا فیصلہ کر ہی لیا۔ نواز شریف کے بُرئے دن شروع ہوئے
اور اِس کے ساتھ ساتھ زرداری بھی اِسی لپیٹ میں آتے چلے گئے۔ لیکن عمران
خان کی حکومت کی سمت درست نہیں جارہی ہے۔ عمران خان اور اُس کے وزراء کی
جانب سے مسلسل پُرانی حکومتوں کا رونا رونا اور عوام کی زندگی کو اُجیرن
بنائے رکھنا ۔ یہ ہے گُڈ گورنس جناب خان صاحب کی۔ پٹرول کا ہولناک بم
گردایا ہے ۔ عمران خان کی نیت پہ کوئی شک نہیں لیکن عوام کو تو ظلم ہی سہنا
پڑ رہا ہے۔ جس طرح نوازشریف اسٹیبلشمنٹ کے کندوں پر چڑھ کر قوم کے ساتھ تین
دہایؤں تک رہے ۔ اب یہ الگ بات ہے کہ معاشی حالت کیسی ہے۔ نواز شریف نے
جیسے ہی خود کو مدبر سمجھنا شروع کیا اور اسٹیبلشمنٹ کو آنکھیں دیکھانا
شروع کردیں۔ یوں نواز شریف کا زوال شروع ہوگیا ۔ لیکن عمران خان کی مسلسل
آٹھ ماہ کی حکومت نے بھی "اُن" کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ عمران خان سے
ملک سنبھالا نہیں جا رہا ہے۔ مہنگائی ہے کہ تھم ہی نہیں رہی۔ بجلی گیس،
ڈالر، پٹرول بم سب کچھ تو عوام پر قہر بن کر گر رہے ہیں۔ عوام بے چاری کو
مانیٹری و فسکل پالیسیوں سے کیا غرض ۔ اُنھیں اِس سے بھی کوئی غرض نیں کہ
افراط زر کی شرح کیا ہے۔ عوام معاشی استحکام کے اشاریوں کے لفظی گورکھ د
ھندوں سے بھی نابلد ہیں ۔ اُنھیں تو اتنا پتہ ہے کہ عمران خان کے بڑئے بڑئے
دعوے زمیں بوس ہوچکے ہیں۔ عمران خان کے پاس معاشی ٹیم نہ ہے ۔ ممی ڈیدی
ماحول کے پروان چڑھے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد سے بنائے گئے مشیر وزیر
ہوا میں گھوڑے دوڑا رہے ہیں اور قوم کے حال اور مستقبل کے ساتھ مس ایڈوینچر
میں مصروف ہیں۔ یہ وزیر ، مشیر خود کو کوئی اوتار سمجھ بیٹھے ہیں لیکن عوام
کی حالت وہی ہے شودر سے بھی بد تر۔ اسٹیبلشمنٹ جب کسی بھی سیاستدان کی
حمایت کرتی ہے تو وہ اِس بات کو پیش نظر رکھتی ہے کہ ملک کی عوام اور اُس
کے معاشی معاملات کو مستحکم طور پر سنبھالا دیا جائے۔
افسوس موجودہ حکومت نے عوام کو نواز شریف کی یاد دلا دی ہے۔ عوام کے لیے
تبدیل ڈارونا خواب بن کر رہ گیا۔ امن و مان کی صورتحال سب کے سامنے ہے۔ گڈ
گورنس نام کی چیز حکومت میں ہے نہیں۔ نوکر شاہی میں بے چینی عروج پر ہے۔
انتہائی شریف النفس عثمان بزدار نے خاموشی کے ساتھ پنجاب اسمبلی کے اراکین
کی تنخواؤں اور اپنی مراعات میں اضافے کے لیے جو کچھ بھی کیا وہ یقینی طور
پر وسیم اکرم پلس کا کیا دھرا ہی ہوسکتا ہے۔دوسری جانب نواز شریف کی چھ
ہفتے کے لیے ضمانت۔ شہباز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالے جانے کا
حکم ۔مریم نواز کے مقتدر حلقوں سے رابطے۔ صاف نظر آرہا ہے کہ نوازشریف کی
مشکلات کے دن ختم ہونے کو ہیں۔ عوام کو معاشی طور کوئی ریلیف نہ دئیے جانے
اور بلکہ مہنگائی بم گرائے جانے کے بعد عمران خان کو اب تبدیلی کے نام کو
اپنی زبان پر نہیں لانا چاہیے۔ عوام کو پوری قوم سے معافی مانگ کر اور اُن
سے جن کے کہنے پہ ق لیگ، ایم کیو ایم، آزاد عمران خان کے ساتھ ملائے گئے
تھے اُن سے بھی معافی مانگنی چاہیے۔ اسد عمر، جیسے معاشی مشیر کو فوری طور
پر فارغ کر دینا چاہیے۔
پولیس ریفارمز کہاں گیئں۔ غریب کل بھی بے آسرا تھا آج بھی اُس کی حالت بھی
ایسی ہی ہے۔ عوام شہباز شریف کو یاد کر رہے ہیں۔
عثمان بزدار کا موازنہ شہباز شریف سے کیا جارہا ہے۔حالیہ صورتحال تو دیکھیں
نوٹیفکیشن کے مطابق پٹرول، ہائی سپیڈ ڈیزل بھی 6روپے فی لٹر مہنگا کر دیا
گیا۔ اسی طرح سے لائٹ سپیڈ ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتوں میں فی لیٹر
3روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ 6روپے اضافے کے بعد پٹرول کی نئی قیمت 98روپے
89پیسے فی لیٹر مقررکی گئی ہے جبکہ 6روپے اضافے کے بعد ہائی سپیڈ ڈیزل کی
نئی قیمت117روپے 43پیسے فی لٹر ہو گئی ہے۔ مٹی کے تیل کی نئی قیمت 3روپے
اضافے کے بعد 89روپے 31پیسے فی لٹر اور لائٹ ڈیزل کی نئی قیمت 3روپے اضافے
کے بعد 80روپے 54پیسے فی لٹر مقررکر دی گئی ہے۔ 29مارچ کو آئل اینڈ گیس
ریگولیٹر اتھارٹی (اوگرا) نے یکم اپریل سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں
11روپے 91پیسے فی لٹر تک اضافہ کی سمری تیار کر کے پیٹرولیم ڈویژن کو ارسال
کی تھی۔ پیٹرولیم ڈویژن کو بھیجی گئی سمری کے مطابق پٹرول کی فی لٹر قیمت
میں 11روپے 91پیسے فی لٹر اضافے کی تجویز دی گئی۔ اسی طرح ہائی سپیڈ ڈیزل
کی قیمت میں 11روپے 17پیسے جبکہ مٹی کے تیل کی قیمت میں 6روپے 65پیسے اضافے
کی تجویز دی گئی تھی۔ اوگرا کی جانب سے آئندہ ماہ کے لیے لائٹ ڈیزل آئل کی
قیمتوں میں 6روپے 49پیسے اضافے کی سفارش کی گئی۔ واضح رہے کہ وفاقی حکومت
نے مارچ میں ہی پہلے بھی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 4روپے 75پیسے کا
اضافہ کیا تھا۔ دوسری طرف دوسری طرفریلوے غریب کی سواری صرف نعرہ رہ گیا۔
ریلوے نے خاموشی سے کرایوں میں اضافہ کردیا، کرایوں میں اضافہ سے ریل
گاڑیوں کے کرائے پبلک ٹرانسپورٹ سے بڑھ گئے، تمام کلاس کے کرایوں میں فی
ٹکٹ 40سے 60روپے تک اضافہ کیا گیا ہے۔ تمام مسافر ٹرینوں کے اکانومی کلاس
کاکم ازکم کرایہ 70سے بڑھاکر100روپے کردیا گیا۔ اے سی سلیپر کا 280سے
بڑھاکر300، اے سی پارلرکا220 سے بڑھاکر250، اے سی بزنس کا 330سے 350، اے سی
سٹینڈر کا 250 بڑھاکر300، اور فرسٹ کلاس سلیپر کا210 سے بڑھاکر250روپے کم
سے کم کرایہ کردیا گیا ہے۔ اکانومی کلاس کے کرایوں میں فی ٹکٹ 40، اے سی
سلیپر میں 60،اے سی پارلر50، اے سی بزنس 40، اس سے قبل 7دسمبر 2018کو
نیاکرایہ نامہ جاری کیا گیا تھا مگر پاکستان ریلوے نے مارچ 2019میں دوبارہ
نیاکرایہ نامہ جاری کرکے کرایوں میں مزید اضافہ کردیا۔ نئے کرایہ نامہ کے
مطابق بولان میل، ہزارہ،خوشخال خان خٹک، اکبر، فرید، مہر ایکسپریس اور تھل
ایکسپریس سمیت تمام مسافر ریل گاڑیوں کے کرایوں میں اضافہ کردیا گیا ہے۔
اکانومی کلاس کے کرایوں میں فی ٹکٹ40روپے،اے سی سلیپر میں 60روپے،اے سی
پارلر50،اے سی بزنس میں40، اے سی سٹنڈرمیں40،اور فرسٹ سلیپرمیں40روپے کا
اضافہ کردیا گیا ہے۔ سندھ ایکسپریس کے اے سی بزنس کا 370سے بڑھا کر 400روپے
کم سے کم کرایہ کردیاگیا،اے سی پارلر کا 220 سے بڑھاکر 250،اے سی سٹینڈر کا
250 سے بڑھا کر 300روپے کم سے کم کرایہ کردیا ہے۔ بہاؤالدین زکریا ایکسپریس
کے اے سی بزنس کا بڑھاکر400روپے اور اے سی سٹینڈرکا 300 سے بڑھا کر 350روپے
کردیا گیا۔ خیبرمیل، علامہ اقبال اور اعوان ایکسپریس کے اے سی سلیپر کا
بڑھاکر350،اے سی بزنس کا بڑھاکر 450روپے اوراے سی سٹینڈرکا بڑھا کر 350روپے
کم سے کم کرایہ کردیا گیا۔ اسی تناسب سے تیزگام،سکھراور ملت ایکسپریس کے
کرایوں میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ پاکستان ایکسپریس اور حال ہی میں چلائی
جانے والے رحمان بابا مسافر ٹرین کے کرایوں میں فی ٹکٹ 10روپے سے 40روپے تک
اضافہ کیاگیا ہے۔کراکرم ایکسپریس اور گرین لائن کے ای سی بزنس کاکم ازکم
کرایہ 630سے بڑھاکر700روپے اور اکانومی کا270روپے سے 300روپے کم سے کم
کرایہ کردیا ہے۔ ریل کے کرایوں اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے
بعد مہنگائی کا نیا طوفان آچکا ہے۔عمران خان صاحب بس کردیں عوام کا مزید
بھرکس نہ نکالیں۔ ٹیکس بیس وسیع کریں۔ قومی دولت لوٹنے والوں کا پیٹ پھاڑ
کر پیسہ نکالیں۔ عوام کو نہ نچوڑیں۔ اگر بھارت کیجانب سے ہمارے ساتھ جنگی
صورتحال نہ ہوتی تو عوام اب تک عمران خان کے خلاف سڑکوں پر آچکے ہوتے ۔ اِس
دفعہ تو مودی نے عمران کی حکومت کو مستحکم کرنے کی کوشش کی ہے۔ |