نیوزی لینڈمیں آسٹریلیوی نسل پرست کے ہاتھوں ہونے والے
سفاکانہ دہشگردانہ حملے میں پچاس مسلمانوں کی شہادت نے ساری دنیا
کودہلاکررکھ دیاجس کیلئے بروزجمعہ 22مارچ کو ہائی کمشنرنیوزی لینڈلندن کی
دعوت پر تعزیتی سلسلہ میں ملاقات کی تیاری میں مصروف تھاکہ اچانک فون کی
گھنٹی نے چونکادیااور پاکستان سے حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب کے بارے میں
ایک خوفناک اطلاع نے اوسان خطاکردیئے اورمیں دل تھام کروہی
ڈھیرہوگیااوراگلے ہی منٹ میں مفتی صاحب کے شاگردرشید جناب مفتی زبیر صاحب
مہتم جامعہ صفہ سے رابطہ کیا توان کافون مسلسل مصروف چل رہا تھا جس سے دل
اوربیٹھنا شروع ہوگیا۔اگلے چندمنٹوں کے بعدمفتی صاحب نے ٹیکسٹ میں تسلی کا
مختصر پیغام ارسال کرنے کے ساتھ مقامی میڈیا کے ساتھ اپنی مجوزہ مصروفیات
کی اطلاع دی لیکن دلی تسلی نہ ہونے کی وجہ سے میں پھربھی دوسرے ذرائع میں
رابطہ میں رہاجب تک قبلہ مفتی صاحب کی مکمل خیریت کی اطلاع موصول نہیں
ہوگئی۔
بعدازاں مفتی محمدزبیرصاحب نے قبلہ حضرت شیخ الاسلام کی بابرکت صحبت میں
چندگھنٹے گزارنے کی فون پرتفصیلاً اطلاع دیتے ہوئے فرمایاکہ دوران ملاقات
دنیابھرسے فون آتے رہے اوراسپین میں ایک عقیدت مندکوآپ پرحملے کی اطلاع
ملی تووہ بے ہوش ہوکرگرپڑا۔ جب بعد میں پتہ چلا کہ آپ بخیروعافیت ہیں
توبھی دل کوچین نہیں آیاتو سیدھامیڈرڈ سے کراچی دست بوسی کیلئے
حاضرہوا۔اپنی آنکھوں سے آپ کودیکھ کرتسلی ہوئی۔ دراصل آج بھی دنیامیں اہل
اللہ ہی دلوں پرحکومت کرتے ہیں،دنیا کاکوئی بادشاہ، لیڈر،سیاستدان ایسی
عقیدت کے ہزارویں حصے کا تصور بھی نہیں کر سکتا: بقول جگر مراد آبادی
وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ
جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتح زمانہ
رب کریم کاشکرہے کہ جس نے عالم اسلام کے نامورمحقق عالم دین،شیخ الاسلام
جسٹس(ر)مفتی محمدتقی عثمانی پرخوفناک قاتلانہ حملے میں مکمل محفوظ
رکھا۔مفتی صاحب پاکستان کی عظیم دینی درسگاہ دارلعلوم کراچی سے گلشن اقبال
میں واقع بیت المکرم مسجدمیں حسب معمول نماز جمعہ پڑھانے جا رہے تھے کہ
نیپاچورنگی پران کی گاڑی پرموٹرسائیکل سوار دہشت گردوں نے چاروں طرف سے
گولیوں کی بوچھاڑکردی۔ربّ ِ کریم نے عالم اسلام کے قیمتی اثاثہ کواس خوفناک
قاتلانہ حملے میں بال بال بچالیا۔ان کے ہمراہ ان کی اہلیہ اوردوپوتے بھی
تھے تاہم دوسیکورٹی گارڈ اوربیت المکرم کے خطیب مولاناعامرشہاب شہیداورمفتی
تقی عثمانی کاڈرائیورزخمی ہوگیا۔ پاکستان بھرسے تمام جیدعلماءاورتمام عالم
اسلام نے وزیراعظم عمران خان سے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے گہری
اورگھناؤنی سازش قراردیتے ہوئے اس سازش کوبے نقاب کرنے کیلئے ہرممکنہ کوشش
کوبروئے کارلانے کامطالبہ کیا ۔
درحقیقت اس حملے میں کسی فردکونشانہ نہیں بنایاگیابلکہ ملک وملت کے دشمنوں
نے مفتی تقی عثمانی کی صورت میں علمی سرمائے پروارکیاہے۔مفتی تقی عثمانی
دنیاکے سرکردہ گنے چنے چوٹی کے بڑے علمائے کرام میں سے ایک ہیں۔رابطہ عالمی
اسلامی کے تحت دنیاکے بڑے مفتیانِ کرام کے بورڈ جمع الفقہ اسلامی کے
واحدپاکستاانی رکن ہیں۔وہ بیک وقت بڑے محدث، مفسراورفقیہ ہونے کے ساتھ ساتھ
عصری علوم میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔آپ اسلامی نظریاتی کونسل کے بانی ارکان
میں ہیں جبکہ دوسال تک وفاقی شرعی عدالت اوربیس برس تک پاکستان کی سب سے
بڑی عدالت سپریم کورٹ کے جج رہے ہیں۔آپ شریعت اپیلٹ بنچ کے چیف جسٹس بھی
رہے ہیں۔آپ نےبحیثیت جج کئی اہم مشہورفیصلے بھی کئے جس میں سودکوغیراسلامی
قراردیکراس پرپابندی کا فیصلہ سب سے مشہورہے۔2002ء میں اسی فیصلے کی پاداش
میں سابق ڈکٹیٹرپرویزمشرف نے انہیں عہدے سے برطرف کر دیاتھا۔آپ دودرجن سے
زائدمفیدعلمی کتابوں کے مصنف ہیں جبکہ ان کے اصلاحی خطبات کے ذریعے لاکھوں
افرادنے اپنی زندگی کارخ تبدیل کیاہے۔
آپ گزشتہ نصف صدی سے زائد عرصے سے درس وتدریس،وعظ وتبلیغ اورتصنیف وتالیف
کے ذریعے دنیابھرمیں دین حنیف کی گراں قدرخدمت سرانجام دے رہے ہیں۔وہ
ممتازدینی درسگاہ دارلعلوم کراچی کے شیخ الحدیث ہیں اورکئی برس سے صحیح
بخاری شریف پڑھارہے ہیں۔ سودسے پاک بینکاری بھی ان کی کاوشوں کانتیجہ ہے۔ان
کی خدمات کا دائرہ عرب و عجم،مشرق ومغرب میں پھیلاہواہے جس کامجھ جیساکم
علم احاطہ نہیں کرسکتا۔بلاشبہ اس وقت پورے پاکستان میں ان کی ہم پلہ کوئی
علمی شخصیت نہیں ہے،اس لئے انہیں شیخ الاسلام کے لقب سے یادکیاجاتا ہے۔عرب
ممالک میں مفتی تقی عثمانی کوہی پاکستان کاسب سے بڑاعالم دین تسلیم
کیاجاتاہے۔ پاکستان میں کئی جیدعلماء شہیدہوئے مگرجس طرح عرب میڈیانے تڑپ
کراس واقعہ کو ہائی لائٹ کیا،اس سے بھی شیخ اسلام کی عالم اسلام میں اہمیت
کااندازہ ہوتاہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے زیر صدارت حرمین شریفین میں بھی بڑی
بڑی کانفرنسیں منعقدہوتی ہیں۔
ربّ ِ کریم کاشکرہے کہ ان پرقاتلانہ حملہ ناکام ہوا۔اگرخدانخواستہ
دہشتگرداپنی گھناؤنی سازش میں کامیاب ہوجاتے توعلمی دنیااورعالم اسلام
کیلئے یہ نائن الیون سے بھی بڑاسانحہ ہوتا۔اب ایک ہی سوال ہرخاص وعام کے
ذہن میں اٹھ رہاہے کہ اتنی بڑی بین الاقوامی شخصیت کی فول پروف سیکورٹی
کیوں نہیں دی گئی؟گورنرسندھ نے اس حملے کے فوری بعد اعتراف کیاکہ مفتی صاحب
نے دہمکیاں ملنے کاذکر کیا تھا(جبکہ مفتی صاحب نے خودٹی وی کے پروگرام میں
اس کی تردید کی ہے)مگرپھربھی انہیں سیکورٹی کیوں نہیں دی گئی؟یہاں ملکی
خزانے کوشیر مادرسمجھ کر ڈکارنے والے بڑے بڑے لٹیرے اوران کی اولادیں
درجنوں سیکورٹی کاڑیوں کے حصارمیں گھومتی رہتی ہیں مگرایسی شخصیات جوصرف
ملک و ملت کے نہیں بلکہ عالم اسلام کاانتہائی قیمتی سرمایہ ہیں،ان کی حفاظت
کیلئے صرف ایک پولیس اہلکارتعینات تھاجوحکومت کی بدترین غفلت کاثبوت ہے۔
نامورعالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ مفتی تقی عثمانی تحریک پاکستان کے عظیم
رہنماء مفتی محمد شفیع عثانی کے فرزندارجمندہیں جن کے گھر میں تحریک
پاکستان نے جنم لیااوربانیان پاکستان کی گودمیں پرورش پانے والے کی حفاظت
کویقینی بناناریاست کی اہم ذمہ داری ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں علمائے
دین کی جان کوکبھی اہمیت نہیں دی گئی۔اسی شہرکراچی میں اب تک درجنوں نہیں
سینکڑوں جیدعلمائے کرام کوبیدردی سے شہیدکیاگیامگر حکومت نے کسی ایک کے
قاتل کو بھی پکڑکرکیفرکردارتک نہیں پہنچایا۔جن کے قاتل پکڑے بھی گئے انہیں
چھوڑدیاگیا۔عموماًعلماء کے قتل کوفرقہ وارانہ رنگ دیکرجان چھڑائی جاتی ہے
مگرمفتی محمدتقی عثمانی فرقہ واریت سے کوسوں دوراوراعتدل پسندی کی وجہ سے
تمام مکاتب فکرکے نزدیک احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں ۔ان کاسیاست سے
بھی کوئی تعلق نہیں رہا،وہ ایک مردِ درویش ،ایک بردارمصلح ،اک دبستان
فکروفن ،اندھیرنگری کاایک نجم الثاقب، امیدکی ایک کرن،اک چراغ محفل اورامن
وآشتی کا علمبردارہیں۔اس لئے اس گھناؤنی واردات کوفرقہ واریت کےکھاتےمیں
نہیں ڈالاجاسکتا۔
اس حملے نے پورے عالم اسلام کوبالعموم اورملک کے دینی طبقے کوبالخصوص
انتہائی تشویش میں مبتلاکردیاہے۔وہ احساس عدم تحفظ کاشکارہوگیاہے۔اربابِ
اقتدارکی جانب سے صرف زبانی
کلامی مذمت یاافسوس کانوٹس لیناکافی نہیں ہے،یقیناًیہ ملک گیرفسادات
برپاکرنے کی ایک خطرناک گھناؤنی سازش تھی۔اگرخدانخواستہ دہشتگردکامیاب
ہوجاتے تواس کے تباہ کن نتائج سامنے آتےمگر اللہ نے کرم کیا۔ اس سازش کوبے
نقاب کرنااورجلدازجلداس واقعے کے ذمہ داروں کوقانون کے کٹہرے میں لاناحکومت
کی ذمہ داری ہے۔ |