مملکت معاشی لحاظ سے واقعی نازک دور سے گزر رہی ہے۔
پاکستان پر ہر قسم کا بُرا وقت آیا ہے اور عوام نے ہر بُرے وقت کو پیٹ پر
پتھر باندھ کر جھیلا ہے، لیکن سیاسی پنڈتوں کے مطابق جس قسم کے بُرے حالات
کا پاکستانی عوام مزید سامنا کریں گے، وہ اُن کے خواب و خیال میں بھی نہیں۔
عالمی معاشی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق موجودہ حکومت کو پاکستان کی
اب تک کی سب سے ناکام انتظامیہ قرار دیا جاسکتا ہے، جس کے پاس مملکت کو
درپیش معاشی مسائل سے نکالنے کا کوئی مربوط حل نہیں۔ عرب (ارب) ممالک سے
قرضے اور آئی ایم ایف کے ’’گیت مالا‘‘ کے علاوہ ماضی کی حکومتوں کے خلاف
تقاریر پر سوئی کی طرح اٹک جانا، فلاپ بور فلم بن چکی ہے کہ اسے مزید سنیما
پر نہیں چلایا جاسکتا۔ وزیراعظم نے گوادر خطاب میں بلوچستان کے ترقیاتی
منصوبوں کے لیے آرمی چیف کا متحدہ عرب امارات سے ’’فنڈ‘‘ لانے پر شکریہ
ادا کیا۔ اس سے قبل اپوزیشن لیڈر کئی ماہ پہلے کہہ چکے تھے کہ پاکستان کو
قرضے’’آرمی چیف‘‘ کی وجہ سے مل رہے ہیں، لیکن اس بیان کو اپوزیشن کا
روایتی تنقیدی بیان قرار دیا گیا۔ لیکن اب وزیراعظم کے اعتراف کو سمجھنے کے
لیے افلاطون کا شاگرد ہونا ضروری نہیں۔ سقراط بن کر زہر کا گھونٹ ضرور پیا
جاسکتا ہے۔
موجودہ حکومت کی معاشی پالیسی کا کوئی سر پیر ہی سمجھ نہیں آرہا کہ وہ
آخر کر کیا رہی ہے۔ معاشی پلان پر مکمل توجہ مرغی، مرغا، انڈے، کٹے، بھینس،
بکرے بکریوں پر لگتی ہے۔ وزراء کے بیانات سے لگتا ہے کہ جلدہی ’’من و
سلویٰ‘‘اُترنے لگے گا۔ وزیراعظم و وزراء قوم کو خوش خبریاں سنارہے ہیں (ان
کی خوش خبریوں سے ڈر جاتا ہوں) کہ سمندری ساحلوں سے اتنا تیل نکلے گا کہ اس
کے بعد پاکستان کو کسی دوسرے ملک سے تیل لینے کی ضرورت ہی ختم ہوجائے گی (عوام
کا تیل تو مہنگائی کب کا نکال چکی)۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ تو عوام کئی
عشروں سے سن رہے ہیں۔ اب کراچی کے لیے’’خالی خزانوں‘‘
سے 162ارب کے پیکیجز کا اعلان کیا ہے۔ سندھ حکومت کو سابق وزیراعظم نے
میٹرو بس کا تحفہ دیا لیکن لیاری ایکسپریس وے کی طرح گرین لائن بس بھی اہل
کراچی کا منہ چڑارہی ہے۔حالات دیکھ کر رونا آتا ہے کہ جلسوں، سوشل میڈیا
میں کھلے عام ’’پلی بارگیننگ‘‘ کی بات کی جاتی ہے کہ سابق وزیراعظم اور
سابق صدر پیسے دے دیں تو انہیں چھوڑ دیا جائے گا۔ این آر او کی یہ نئی شکل
نہیں۔ عدالت عظمیٰ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے تاریخی ریمارکس دیے تھے کہ
رشوت کے ریٹ کیوں مقرر نہیں کردیے جاتے۔ پھر تاریخ نے ہی عجیب منظردیکھا
اور ریٹ 460ارب روپے کی ڈیل پر ختم ہوئے۔
اب حکومتی وزراء اور خود وزیراعظم اعلان کررہے ہیں کہ پیسے دے دو تو ہم
چھوڑ دیں گے۔ میرا خیال ہے کہ سب کچھ ’’ہوا‘‘ میں ہے، کیونکہ ان کے پاس
ٹھوس شواہد ہوتے تو کئی ہزار ارب واپس لانے کے دعوے پورے کرچکے ہوتے۔
200ارب ڈالر میں سے ایک سو ارب ڈالر قرض دینے والے اداروں کے منہ پر مارتے
اور100ارب ڈالر سے 50لاکھ مکانات بناتے، ایک کروڑ نوکریاں مہیا کرتے اور
پھر سمندر سے تیل نکال کر عرب ممالک کے تیل ادھار پر لینا بند کرتے۔ ادھار
کے تیل پر قیمتوں میں اضافہ نہ کرتے۔ بھاشا، مہمند ڈیم سمیت سیکڑوں ڈیم بن
جاتے۔ بجلی سستی کیا مفت ہوجاتی۔ کارخانے چوبیس گھنٹے چل رہے ہوتے۔ محنت
کشوں کے معاوضوں میں اضافہ ہوجاتا، انہیں سوشل سکیورٹی کا حق مل جاتا،
ٹھیکیداری نظام ختم ہوجاتا اور بیرون ملک جانے والے تارکین وطن واپس آجاتے،
ان کی جگہ غیر ملکی پاکستان میں نوکری کی تلاش میں آتے۔ انڈر گرائونڈ
میٹرو ٹرینیں چل رہی ہوتیں۔ کئی ارب (عرب) درخت لگ چکے ہوتے۔ غیر ملکی
سیاحوں کو سوات، مری کی طرح ہوٹل میں اگر دوران سیزن کمرے نہیں ملتے تو فٹ
پاتھوں پر سوجاتے۔ کم از کم کراچی کی کٹی پہاڑی جو کبھی اہلیان کے لیے
تفریح و شہر کی روشنیوں کو دیکھنے کی بہترین جگہ تھی، اس کا ٹنکی پارک
دوبارہ آباد ہو جاتا۔ ہل پارک سے سفاری پارک اور وہاں سے کٹی پہاڑی پر
چیئر لفٹ میں ملکی و غیر ملکی سیاح کراچی کی بلند بالا عمارتوں کو دیکھ کر
کہتے کہ کون کہتا ہے کہ یہ کنکریٹوں کا شہر ہے۔ یہ تو کراچی ہے۔ روشنیوں کا
شہر، چمکتا، جھلملاتا ہوا۔
شاید میں خوابوں کی دنیا میں چلاگیا۔ کیا کروں حکومت اتنے سُہانے خواب
دکھارہی ہے تو دیکھنے تو پڑیں گے۔ اب تعبیر بی آر ٹی منصوبے کی طرح نکلے
تو پھر اس میں کسی کا کیا قصور۔ ایسے سُہانے اعلانات کے کراچی والے عادی
ہیں، لیاری کو پیرس بنانے کا خواب تو اتنا مشہور ہوا تھا کہ پیرس والے
لیاری کو دیکھنے آتے تھے کہ لیاری میں ایفل ٹاور کہاں لگے گا، پیرس کو
خوشبوئوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے (یہاں لیاری ندی اور اس کی بو بہت مشہور
ہے)۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پیرس خوشبوئوں کا شہر بننے سے قبل دنیا کا سب
سے بدبودار اور غلاظت سے اَٹا شہر تھا۔ اس لیے لیاری والوں نے بھی پیرس
بنانے والی بات ہضم کرلی۔ پھر پیرس کی قسمت بدلی اور دنیا کا مہنگا ترین
شہر ہونے کے باوجود سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ لیاری کو پیرس اور کراچی کو
نیویارک بنانے والوں کے خوابوں کی تعبیر، ہنوز دلّی دُور است ہے۔
بس گزارش ہے کہ قوم کو مزید خواب دکھانے سے باز آجائیں۔ گرمیاں آچکی ہیں،
دماغ ویسے ہی پک رہا ہے۔ لوڈشیڈنگ اور بجلی میٹر کی تیز رفتاری کا عالمی
مقابلہ ہے۔ ان حالات میں جب کہ ابن قاسم پارک جیسے بڑا منصوبہ بناکر
130ایکڑ زمین لینڈ مافیا سے بچاکر سابق سٹی ناظم نے تاریخ رقم کی تھی۔ اب
اتنے برسوں بعد دوبارہ اس کا افتتاح کرنا اور 5کروڑ روپے سالانہ تزئین
آرائش کے نام پر خرچ کرنے کے باوجود ابن قاسم پارک کے حوالے سے میئر کراچی
کو خراج تحسین پیش کرنے پر اُسی طرح حیران ہوں، جیسے حکومتی معاشی پالیسیوں
پر۔ راقم کو عمران خان کی نیت پر کوئی شک نہیں (ویسے شک کرنا بُری بات ہے)،
لیکن مجھے یقین ضرور ہوچکا کہ وزیراعظم کو بہت بڑی غلط فہمی میں ’’سب
ٹھیک‘‘ کا دلاسہ ضرور دیا جاچکا ہے۔ وزیراعظم کی محنت و نیت پر عمومی طور
پر عوام تھوڑا بہت اعتماد کرتے ہیں، لیکن اب صورت حال تیزی سے بدل رہی ہے۔
بیشتر کابینہ، قومی و صوبائی اراکین کی مثال سربیائی پرندوں کی طرح ہے جو
موسم بدلتے ہی اُڑان بھر لیتے ہیں۔ راقم کا ذاتی خیال تھا اور ہے کہ کابینہ
کے کچھ وزراء (غالباً تمام کابینہ) کی وجہ سے وزیراعظم پر عوام کا اعتماد
مجروح ہورہا ہے۔ اس موقع پر مجروح سلطان پوری کا ایک شعر یاد آرہا ہے کہ:
جفا کے ذکر پہ تم کیوں سنبھل کے بیٹھ گئے
تمہاری بات نہیں بات ہے زمانے کی |