یوں توتمام ایام ، ماہ و سال بلکہ ہرگزرتا لمحہ فرد اور
کائنات کےلئے بہت قیمتی ہے جس کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے۔ کیونکہ انفرادی
طور پر اگردیکھاجائے تو کسی کوعلم نہیں کہ آنے والا لمحہ اسے میسر بھی آئے
گا یا نہیں۔اس کی زندگی کی ساعتیں کتنی باقی ہیں۔ اگر کائنات کی سطح پر
دیکھیں تودن رات (24 گھنٹے) اس کائنات کا ذرہ ذرہ گردش میں ہے۔ ہر لمحہ کچھ
نہ کچھ ہوتارہاتھا،ہے اوررہے گا۔ کل یوم ھو فی شان۔ بقول اسداللہ خاں غالب:
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہورہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا
لیکن اس کے باوجود کچھ ماہ ،ایام اورساعتیں زیادہ اہمیت اورفضیلت والی
ہیں۔ان میں نیکیوں کی طرف میلان بڑھ جاتاہے اوران کے اجرمیں کئی گنااضافہ
ہوجاتاہے اورجو بھی دعائیں مانگی جاتی ہیں وہ مقبول ہوتی ہیں۔ جس طرح بعض
مقامات کودوسرے مقامات پرفضیلت و فوقیت حاصل ہے۔ویسے تو زمین پوری کی پوری
اللہ رب العزت کی ہے جہاں چاہے کوئی عبادت کرے لیکن کچھ مقامات ایسے خاص
ہوتے ہیں کہ وہاں خود بخود اندرونی طورپر انسان میں نیکیوں کا میلان بڑھ
جاتاہے اوران مقامات پر نیکیوں کے اجر و ثواب میں بھی کئی گنااضافہ
ہوجاتاہےجیسا کہ مسجد الحرام اورمسجد نبوی وغیرہ۔اسی طرح کچھ دن اور مہینے
دوسروں پربعض اعتبار سے فضیلت رکھتے ہیں ۔ایسا ہی ایک مہینہ شعبان المعظم
کا ہے۔اس مہینہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ اسے رسول ﷺ
نے اپنا مہینہ قراردیا۔حضور ﷺ سے نسبت کی وجہ سے یہ مہینہ دیگر مہینوں سے
افضل قرار پائے گا۔ حدیث مبارکہ ہے: "شعبان میرا مہینہ ہے پس جس نے اس
مہینے کی تعظیم کی اس نے میرے حکم کی تعظیم کی"۔بیہقی
اصلاح معاشرہ:
ایک حدیث مبارکہ ہے: شعبان کی پندرھویں رات اللہ رب العزت مخلوق پرتوجہ
فرماتاہے اور مشرک اور عداوت رکھنے والے کے سواتمام مخلوق کی مغفرت فرما
دیتا ہے۔ )المعجم الکبیر(
اس حدیث کے تناظر میں شعبان کا مہینہ معاشرتی اصلاح کے لئے بھی اہم ہے۔
کیونکہ معاشرہ میں بگاڑ کا سب سے بڑاسبب ،کینہ عداوت،کدورت،نفرت اورانتقام
کے جذبات ہیں۔ ان تمام منفی جذبات کا حامل شخص اپنی ذات کو بھی نقصان
پہنچاتاہے اورمعاشرہ کو بھی۔وہ کبھی اپنے بھائی کے لئے
بھلائی،خیراورکامیابی کاطالب نہیں ہوسکتا جودین اسلام کا حسن ہے۔دلوں میں
بغض اورکدورت بہت سی برائیوں، اخلاقی اور روحانی بیماریوں کوجنم دیتی ہے
اور اشرف المخلوقات کو عرش سے فرش پرمارتے ہوئے اسےمٹی کے ڈھیر میں تبدیل
کردیتی ہیں۔ بقول میر
اس کدورت کوہم سمجھتے ہیں
ڈھب ہیں یہ خاک میں ملانے کے
جب مسلمان یہ جان لیتا ہے کہ ان برائیوں کے ہوتے ہوئے اس کی مغفرت نہیں
ہوگی تو وہ انسان ان منفی صفات کو مکمل چھوڑ نے کی کوشش کرے گا ۔اس طرح وہ
اپنے ذہن وجسم، فکرونظر، جان ودل، نفس وروح کی مکمل اوربہترین صفائی، طہارت
وپاکیزگی حاصل کرتے ہوئے ایک ایسے بلندتصوراتی معاشرہ کے قیام کی بنیاد
رکھے گا جس کا آج سے چودہ سوسال پہلے اسلام نے نہ صرف تصور دیابلکہ وہ عملی
معاشرہ بھی قائم کرکے دیا جو آج کے اس نام نہاد اورترقی یافتہ مہذب دنیا
میں ملنامحال ہے۔
رمضان کی تیاری کا مہینہ:
کام کی اہمیت جتنی زیادہ ہو اس کی تیاری بھی اتنی ہی زیادہ کرنی پڑتی ہے اس
کے لئے اتنا ہی سخت ہوم ورک کرناپڑتاہے۔ بہترین منصوبہ بندی کرنی پڑتی ہے
کہ کم سے کم وقت میں بہترین نتائج حاصل کئے جائیں۔رمضان کے مہینے کی اہمیت
قرآن و احادیث مبارکہ سے ثابت ہے اس لئے اس مہینہ کے آغاز سے قبل ہی مسلمان
کو ذہنی اورجسمانی طور پر مکمل تیار ہوناچاہئے۔ اور اس تیاری کا بہترین وقت
شعبان کے علاوہ اورکون ساہوسکتا ہے۔ اسی لئے رسول اکرم ﷺ سے جب افضل
ترین(نفل) روزوں کا پوچھاگیا آپ ﷺ نےفرمایا کہ شعبان کے روزے جو رمضان کی
تیاری اور اس کی تعظیم کی غرض سے رکھیں جائیں۔ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک
ہے:"رمضان کی تعظیم کی خاطر رکھے گئے شعبان کے روزے افضل ترین ہیں۔"بیہقی
نصف شعبان اور قبولیت دعا:
دعامؤمن کا ہتھیار ہے۔اللہ تعالیٰ بندہ کے دعامانگنے پر خوش ہوتا اور بندے
کو حکم دیتا ہے کہ وہ اس سے دعامانگے۔ہرعقل مند ذی شعوراور معرفت رکھنے
والے فرد کے لئے لازم ہے کہ وہ دن میں کسی ایک گھڑی ضرور اپنے رب سے مناجات
کرے۔ جیسا کہ صحف ابراہیم علیہ السلام میں ہے :علی العاقل مالم یکون مغلوبا
علی عقلہ ان یکون لہ ساعۃ یناجی فیہاربہ۔عقل مند کے لئے لازم ہے کہ دن کی
ایک گھڑی رب سے مناجات کرے۔
دعاؤں کی قبولیت کے لحاظ سے شعبان کی پندرھویں رات بھی بہت اہم ہے۔ ایک
حدیث مبارکہ میں ہے:پانچ راتیں ایسی ہیں جن میں دعا رد نہیں کی جاتی ۔ جمعۃ
المبارک کی رات، رجب کی پہلی رات،پندرہ شعبان ی رات،عید کی رات اور نحر کی
رات ۔
شعبان اوراہمیت وقت:
یوں تو انسان کو پورے سال رب کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنی چاہئے لیکن
طبائع بشری ہے کہ انسان سستی ، کاہلی، غفلت اورلاپرواہی کامظاہرہ کرتا ہے
اور عمومی طور پر سوائے گروہ قلیل کے اکثرلوگ عبادت سے غافل رہتے ہیں۔ جیسا
کہ حدیث مبارکہ " یہ وہ مہینہ ہے جو رجب اور رمضان کے درمیان ہے اورجس سے
لوگ غافل ہیں ۔اس مہینے میں لوگوں کے اعمال اٹھائے جاتے ہیں اورمجھے زیادہ
محبوب ہے کہ میرے اعمال اس حالت میں اٹھائے جائیں کہ میں حالت صوم میں
ہوں۔" (سنن نسائی)
عمومی رویہ یہی ہے کہ جیسے جیسے انسان کی عمر میں اضافہ ہوتاہے ویسے ویسے
اس کی دنیا سے محبت ،دنیا میں رہنے کی آرزو زیادہ اور اس کی نعمتوں کے چھن
جانے کا خوف اور غفلت کاعنصر بڑھتاجاتاہے۔ بقول بہادر شاہ ظفر
کم نہیں ہوتی اس دنیا کی الفت بڑھتی جاتی ہے
جوں جوں عمر ہے گھٹتی جاتی غفلت بڑھتی جاتی ہے
انسان اسی غفلت اور بے عملی کا شکار رہتا ہے ،بے خبری میں مبتلا رہتا ہے
یہاں تک کہ اس کی اجل کا پیام آجاتاہے۔ اور جب یہ پیغام آجائے گا اورزندگی
کی گھڑیاں مکمل ہوجائیں گی توپھر کسی بھی طور اس میں اضافہ نہ کیاجائے گا۔
وَلَنْ یُّؤَخِّرَ اللّٰہُ نَفْسًا اِذَا جَآءَ اَجَلُھَا اوراللہ تعالیٰ
مہلت نہیں دیاکرتا کسی شخص کو جب اس کی موت کاوقت آجائے ۔ (المنافقون:١١)
پھر اس کے لئے سوائے افسوس اور اس بات کے اقرار کے کے سوا کوئی چارہ نہیں
کہ وائے نادانی میں تو اپنے اعمال سے بالکل ہی بے خبرتھا دنیا میں اپنے رب
کی رضا وخوشنودی کے حصول کی خاطر آیاتھا اوراس کے برعکس غضب اور ناراضگی
مول لے کر جارہا ہوں یعنی میں تو بے خبری میں ماراگیا کیاکرناتھا اورکیا
کرکے جارہاہوں۔
اعمال سے میں اپنے بہت بے خبر چلا
آیاتھا کس لئے اورکیامیں کرچلا(سودا)
ہمارے اعمال ایسے ہیں کہ جب میزان سجے گا اعمال تولے جائیں گے اس وقت سوائے
شرمساری وندامت اور افسوس کے کچھ حاصل نہ ہوگا۔
روز حساب پیش ہوجب مرادفترعمل
آپ بھی شرمسار ہو مجھ کو بھی شرمسار کر
اس بے خبری پرمستزاد یہ کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات سےمسلسل
روگردانی کرتے ہوئے گناہوں کے پہاڑ جمع کرنے کے باوجود ہم مغفرت اور جنت کے
اعلیٰ درجوں کو اپناحق سمجھتے ہیں۔القہار اورالجبار کے قہر اورجبرکی ہمیں
کچھ بھی پرواہ نہیں(الاماشاء اللہ ،ونعوذباللہ من ذالک)۔ بقول اقبال عظیم
ہم نے حق مغفرت کواپناورثہ جان کر
یہ تصور کرلیا قہر خدا خاموش ہے
اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم صرف ڈر اختیار کریں اورامید کا دامن ہاتھ سے
چھوڑدیں۔صرف ڈرانسان کو مایوس کردے گا۔لہذا ضروری ہے کہ انسان مایوسی
اورناامیدی سے بچنے کے لئے امید کا سہار لے لیکن غفلت اوربے حسی سے محفوظ
رہنے کے لئے ڈر (تقویٰ )کو بھی تھامے رکھے ۔اگرہم صحابہ کرام رضوان اللہ
علیہم اجمعین کی زندگیوں پرنظردوڑاتے ہیں ان کے یہاں امید اور خوف کا ایسا
حسین امتزاج نظرآتاہے اور وہ اس اعلیٰ ترین کیفیت پر فائز نظرآتے ہیں جس کا
آج تصور بھی نہیں کیاجاسکتا ۔جیسا کہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا قول ہے
کہ اگر یہ اعلان ہو کہ کوئی ایک شخص ہی جنت میں جائے گا تومیں امید کرتاہوں
وہ میں ہی ہوں گا اور( اللہ کے قہر سے ڈر اتنا کہ اگر یہ اعلان ہو کہ کوئی
ایک شخص ہی جہنم میں جانے والا ہوگا تومجھے ڈر ہے کہ وہ بھی میں ہوسکتا
ہوں۔
مغفرت ہمارا حق نہیں خالصتا رب کی عطا و کرم وفضل ہے۔ جودائمی سکون و راحت
کاسبب اوراخروی نجات کا باعث ہے۔لہذاابدی سکون و راحت اورآخرت کی آگ بچنے
کی فکر کی جانی چاہئے ۔ جس کی اللہ رب العزت نے قرآن مجید اور فرقان حمید
میں تاکید کی ہے۔اے ایمان والوں اپنی جان اور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ
سے بچاؤ۔(التحریم:٦)
غفلت اوربے عملی کا توڑ :
شعبان کا مہینہ ہمیں وقت کی اہمیت کا بھی احساس دلاتا ہے۔کیونکہ حدیث
مبارکہ میں آتاہے کہ اس مہینہ میں سال بھر میں دنیا سے رحلت کرجانے والے
افراد کی فہرست تیارکی جاتی ہے۔جیسا کہ حدیث مبارکہ ہے۔
حضور اکرم ﷺ کسی مہینے میں بھی شعبان سے زیادہ روزے نہیں رکھاکرتے تھے اور
وہ اس لئے کہ اس مہینہ ،اس سال میں مرنے والوں کی فہرست تیارکی جاتی ہے۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ)
اب کون جانے کہ اس میں ہمارا نام بھی شامل کیاجاچکاہے یا نہیں۔اب جب یہ
احساس ہم پر غالب ہوگا تو کسی بھی فرد کے لئے ممکن ہی نہیں کہ وہ فراغت کے
ساتھ بیٹھے ۔اس میں شک نہیں کہ دنیاوی زندگی فانی ہے ۔اسے ایک دن ختم
ہوجاناہے ۔وہ آخری لمحہ خواہ ایک دن بعد آئے یا ہزار سال کے بعد بہرحال
اختتام لازم ہے۔ لیکن اگر اسی فانی زندگی کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ رب کی
رضا جوئی کے لیے استعمال کیاجائے تو یہ فانی زندگی ہی ہمیں جاودانی لمحات
اور ابدی نعمتوں سے نوازے گی۔بقول احمدہمدانی
حیات دہر کوکہتے رہے ہیں لوگ فانی بھی
حیات دہر نے بخشے بھی لمحے جاوداں کیاکیا |