2004ء کا سال میرے لیے بڑی جانگسل مشکلات اور پریشانیوں
کا سبب بنا۔ تمام تر کوششوں کے باوجود یہ کسی سونامی کی طرح بڑھتی ہی جا
رہی تھیں۔ ان مصائب و آلام سے نکلنے کی بظاہر کوئی سبیل نظر نہ آتی تھی۔
دوستوں اور رشتہ داروں کی بے اعتنائی نے اعصابی طور پر مزید مضمحل کر دیا۔
دعائیں بے اثر اور زندگی بے مزہ ہوتی جا رہی تھی۔ میری حالت بقول شاعر
’’دعائیں بے اثر میری صدائیں بے ہنر میری، میں نے بندگی سیکھی نہ رب سے
مانگنا آیا‘‘ والی تھی۔ اسی اثنا میں مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ میں اﷲ
تعالیٰ اور اس کے حبیب مکرم حضور خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی ﷺ کے در پر
حاضری دوں اور اپنے نامساعد حالات اور الم انگیز روداد سناؤں۔ انہی دنوں حج
کی آمد آمد تھی۔ فوری طور پر فریضہ حج کی ادائی کے لیے درخواست جمع کروا
دی۔ خوش بختی کہ حج ادا کرنے والے خوش نصیبوں میں میرا نام نکل آیا۔ مکہ
مکرمہ پہنچا۔ حج کے ابتدائی دن تھے۔ رش نہ ہونے کے برابر تھا۔ چنانچہ حطیم
میں خانہ کعبہ سے لپٹ کر خوب گریہ زاری کی۔ مناجات و استغفار کے ذریعے گڑ
گڑا کر اپنی مشکلات کے حل کی اﷲ رب العزت سے فضل و کرم طلب کرتے ہوئے خوب
دعائیں کیں۔
چند دن بعد شام کو معلوم ہوا کہ کل مدینہ طیبہ روانگی ہے تو دل بلیوں
اچھلنے لگا۔ فخر و انبساط کا یہ عالم تھا کہ پورا جسم نشاط آور کیف و سرور
کی کیفیت میں تھا۔ میرا روآں روآں قسمت پر ناز کرنے لگا۔ دل تشکر الٰہی میں
ڈوب گیا۔ درود شریف پڑھتے ہوئے فرحت خیز کرب و وجد کے عالم میں رات آنکھوں
میں کٹی۔ جذب و مستی اور سوز و گداز کی ایسی کیفیت طاری ہوئی جسے لفظوں میں
بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اگلے دن میں نہایت شوق اشتیاق سے جانب طیبہ روانہ
ہوا کہ زندگی کی سب سے بڑی آرزو پوری ہونے والی تھی۔ ’’شہر نبی سے کوئی
حسین تر نہیں مقام۔‘‘ بس میں بیٹھا ہر شخص ادب و احترام کی تصویر بنا ہوا
تھا۔ ہر شخص کے لبوں پر درود شریف کا ورد تھا۔ نصف شب کے قریب مدینہ منورہ
کی حدود میں داخل ہوئے۔ اس شہر خوباں اور دیارِ خنک کو ’’شہرت عام اور
بقائے دوام‘‘ کا درجہ حاصل ہے۔ اپنے جاودانی اور سرمدی نور سے ساری کائنات
کو منورکرنے والا گنبد خضرا دور سے دکھائی دیا تو رگ و پے میں مسرتوں کی
لہریں گردش کرنے لگیں اور جھرجھری سی محسوس ہوئی۔ ’’اجالوں کی بارات اتر
آئی تن من میں۔‘‘ وفور جذبات سے آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔ نہایت عجزو
انکساری کے ساتھ اپنی آنکھوں سے نور بار گنبد خضرا کا بوسہ لیا۔ روح و جاں
معطر اور دل و دماغ مصفا ہونے لگے۔ ’’نکہت گل کی طرح پاکیزہ ہے اس کی
ہوا۔‘‘ یہ ایمان افروز نظارہ نہایت مسحور کن تھا۔ جنت البقیع کے عقب میں
واقع اپنے ہوٹل میں سامان رکھا۔ تھوڑی دیر سستانے کے بعد غسل کیا، نئے کپڑے
پہنے، خوشبو لگائی، نہایت مؤدبانہ اور لرزیدہ حالت میں مسجد نبوی ﷺ کی طرف
چل دیا۔ شوق مہمیز لگا رہا تھا۔ سوزو گداز کے جذبات میں تلاطم برپا ہو رہا
تھا۔ سوچ رہا تھا کہ ایک عاصی کو یہ اعزاز کیسے نصیب ہو رہا ہے؟ آنسوؤں کی
برسات میں مسجد نبوی میں قدم رکھا جہاں جمال ہی جمال تھا۔ سب سے پہلے دو
رکعت نماز نفل تحیۃ المسجد ادا کی، پھر سر جھکائے دو زانو ہو کر دیر تک
درود شریف پڑھتا رہا۔ اتنے میں اﷲ کی عظمت وکبریائی تہجد کی دل افروز اذان
کی صورت میں بلند ہوئی۔ نماز تہجد ادا کرنے کے بعد دوبارہ وظائف میں مشغول
ہو گیا۔ اتنے میں موذن نے دوبارہ لحن داؤدی میں اﷲ تعالیٰ کی وحدانیت اور
اس کے رسول حضور خاتم النبیین ﷺ کی شہادت بلند کی۔ نماز فجر ادا کرنے کے
بعد ایک مجرم کی طرح مواجہہ شریف کی طرف چل پڑا۔ یقین نہیں آ رہا تھا کہ
عالم خواب میں ہوں یا عالم حقیقت میں۔ ایک گنہگار امتی کس ہستی کے دربار
میں جا رہا ہے۔ ایسا دربار جو ادب و احترام کے لحاظ سے عرش سے بھی نازک تر
ہے، جہاں جنیدؒ و بایزیدؒ آتے ہوئے اپنے نفس گم کر بیٹھتے ہیں۔ یہ سوچتے ہی
جسم پر کپکپی طاری ہو گئی۔ پاؤں اٹھانا مشکل ہو گیا تھا۔ ندامت کے پسینے کی
حدت سے میرا جسم موم کی طرح پگھلتا جا رہا تھا۔ ’’کہاں میں مشت خاک کہاں یہ
عالم پاک‘‘۔ جوں جوں مواجہہ شریف قریب آرہا تھا، دل کی دھڑکنیں تیز ہو رہی
تھیں۔ میں دبی زبان سے مسلسل درود شریف پڑھ رہا تھا۔ چند قدم کے فاصلے پر
گوہر مقصود نظر آیا تو ادب و احترام کے پیش نظر ہیجان کے باوجود سسکیوں اور
ہچکیوں کو بڑی مشکل سے ضبط کیا۔ ’’لے سانس بھی آہستہ یہ دربارنبی ﷺ ہے۔‘‘
جونہی سنہری جالیوں کے سامنے آیا تو غلامانہ انداز میں ہاتھ باندھے، شرم کے
مارے گردن جھکائے، تھر تھراتے ہونٹوں سے بمشکل الصلوٰۃ و السلام علیک یا
سیدی یا رسول اللّٰہ کہہ سکا۔ میں حیرت کی تصویر بنا ہوا تھا۔ جو یاد تھا،
وہ یاد نہ رہا، جو سوچا تھا، وہ بھول گیا۔ دعائیں یاد رہیں نہ التجائیں۔
ساٹھ سے زائد کتابوں کے مصنف کی زبان گنگ ہو چکی تھی۔ ’’آنکھوں سے بولتا
ہوں دربارِ مصطفیﷺ میں‘‘۔ پھر اسی عالم سوزو گداز میں سیدنا حضرت ابوبکر
صدیق ؓ اور سیدنا حضرت عمر فاروق ؓ پر سلام پڑھا جو اسی مرکز تجلیات میں
آرام فرما ہیں۔ مسجد سے باہر آیا تو نور کے مرکز گنبد خضرا کو دیکھ کر دل
باغ باغ ہو گیا۔ ایمان و ایقان کو باغ جناں کی ٹھنڈک نصیب ہوئی۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں ایک انتہائی بلند پایہ روحانی
شخصیت نے مجھے یہ نصیحت کی تھی کہ ’’حضور نبی کریمﷺ کی بار گاہ اقدس میں
اپنی گزارشات پیش کرنے سے پہلے سید الشہدا سیدنا حضرت حمزہؓ کی خدمت میں
حاضر ہو کر ان سے ’’سفارشی رقعہ‘‘ ضرور لے لینا، بہت فائدہ ہو گا‘‘۔ چنانچہ
ان کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے سید الشہدا سیدنا حضرت حمزہؓ کے مزار پاک پر
حاضر ہوا۔
جن محترم و مقدس شخصیات کی وجہ سے دین اسلام کو ایک ولولۂ تازہ اور جلوہ
نور ملا، اِن میں سیدنا حضرت حمزہؓ کی شخصیت سرفہرست ہے۔ آپؓ حضور نبی
کریمﷺ کی نگاہ جوہر شناس کا اولین انتخاب تھے۔ آپؓ سرفروشی و جانبازی کی
اقلیم کے سلطان اور بہادری و جاں سپاری، شجاعت و بسالت، عزم و استقلال اور
دینی غیرت و حمیت کے پیکر تھے۔ جرأت و جوانمردی آپ کے گھر کی لونڈی تھی۔
شہسوار ایسے کہ جن کے بغیر گھوڑ سواری کا مقابلہ کوئی اہمیت نہ رکھتا۔ آپؓ
کی بے پایاں صلاحیتیں دیکھ کر بڑے بڑے عرب جنگجو ورطۂ حیرت میں ڈوب جاتے۔
بار بار پلٹنے اور پلٹ کر جھپٹنے والے شہسواروں کی تمام خوبیاں آپؓ کی ذات
میں جمع تھیں۔ جنگ کے دوران آپ فولادی اعصاب کے مالک نظر آتے تھے۔ سپاہیانہ
فضائل کی بنا پر آپ خاکستری اونٹ اور شیر کی طرح دشمن پر حملہ کرنے والے
تھے۔ ایسے معلوم ہوتا تھا گویا آپ نے چیتے سے سپاہ گری کافن سیکھا ہے۔ چیتے
کی سی پھرتی، بہترین دفاعی انداز اور دشمن کو اپنی گرفت میں لانے جیسے
سپاہیانہ اوصاف آپ میں نمایاں تھے۔ شیر کے ناموں میں سے ایک نام حمزہؓ بھی
ہے، گویا اسی نام کی وجہ سے آپ کو شیر کی بہادری میں سے حصہ ملا تھا۔ آپؓ
نے جنگ کے میدان میں قریش کے ان نامور شہ سواروں کو قتل کیا جن کی طاقت اور
سپاہ گری پورے عرب میں مشہور تھی۔ مشرکین مکہ کے ہجوم میں اسلام قبول کرنے
اور بدر و اُحد کے میدانوں میں داد شجاعت دینے والے اسلام کے مخلص جانباز،
مجاہد اور شہید حضرت حمزہؓ پر پوری امت اسلامیہ کو ہمیشہ ہمیشہ ناز رہے گا۔
حب رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم، حضرت حمزہؓ کی حیات کا مرکز و محور تھا۔
آپؓ نے اپنی تمام زندگی حضور پاکﷺ کے قدموں میں وار دی اور ابدی حیات پائی۔
جو محبت آقائے کائناتﷺ کو حضرت سیدنا حمزہؓ سے تھی، ویسی کسی اور سے نہ
تھی۔ حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور آپﷺ آپس میں چچا بھتیجا ہونے کے
باوجود (حضور نبی کریمﷺ سے عمر میں چار سال بڑے تھے، اس لیے تقریباً ہم عمر
ہونے کی وجہ سے) بہت بے تکلف دوست بھی تھے۔ سیدنا حمزہؓ بھی ان عظیم لوگوں
میں سے تھے جن کے ذریعے سے اﷲ تعالیٰ نے اسلام کو عزت عطا فرمائی۔ آپؓ کے
ایمان لانے سے مشرکین مکہ پر ایک رعب و دبدبہ طاری ہو گیا۔ وہ اچھی طرح
سمجھ گئے کہ اب رسول اﷲﷺ کو قوت و حمایت حاصل ہو گئی ہے۔ اب حمزہؓ ان کی
حفاظت کریں گے۔ چنانچہ بے بس اور کمزور مسلمانوں پر ان کی ستم رانیوں میں
نمایاں کمی واقع ہو گئی۔
جنگ احد میں حضرت حمزہؓ بپھرے ہوئے شیر کی طرح دشمن پر اس طرح حملہ آور تھے
کہ ان کے سامنے بڑے بڑے سورما پیٹھ دکھا رہے تھے۔ مشرکین پر لرزہ طاری تھا
کہ کس شیر سے ان کا پالا پڑا ہے۔ حضرت حمزہؓ اس شان سے لڑ رہے تھے کہ دو
دستی تلواریں چلاتے جاتے اور کہتے جاتے تھے۔ انا اسد اللّٰہ و اسد رسولہ
میں اﷲ تعالیٰ کا شیر ہوں اور میں رسول اﷲ کا شیر ہوں۔ حضرت حمزہؓ میدان
جنگ میں چومکھی لڑائی کے بے حد ماہر تھے۔ آپؓ کے سامنے کوئی مشرک جنگجو دم
نہیں مارتا تھا۔ آپ مشرکین کے جنگجوؤں کو اپنے مقابلہ میں یوں چکرا دیتے
تھے جیسے ہوا اپنے آگے خشک پتے کو چکر دیتی ہے۔ اس لیے بڑے بڑے سورما آپ کو
دیکھتے ہی ہیبت زدہ ہو جاتے۔ غزوہ احد میں مشرکین کے علمبرداروں کو ڈھیر
کرنے کے علاوہ بھی آپ نے بڑے زبردست کارنامے انجام دیے۔ جبیر بن مطعم کا
حبشی غلام ابو دسمہ وحشی بن حرب ایک چٹان کی اوٹ میں گھات لگائے ان کے
انتظار میں بیٹھا تھا کہ کب حضرت حمزہؓ اس کی زد میں آئیں اور وہ اپنا
ہتھیار ان پر پھینکے۔ وحشی کو جبیر بن مطعم نے اپنے چچا طعیمہ بن عدی کا
انتقام لینے کے لیے حضرت حمزہؓ کے قتل پر مامور کیا تھا اور اس کام کے صلے
میں اسے آزاد کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ طعیمہ بن عدی کو حضرت حمزہؓ نے بدر میں
قتل کیا تھا۔ وحشی بن حرب فنِ حربہ میں بڑا ماہر اور مشاق تھا۔ وہ اپنے
چھوٹے نیزے (جس کو حربہ کہتے ہیں اور یہ حبشیوں کا ایک خاص ہتھیار ہوتا ہے)
سے وار کرتا تو شاذ و نادر ہی اس کا شکار بچ پاتا۔ جنگ شروع ہو چکی تھی۔
فریقین ایک دوسرے پر حملے کر رہے تھے۔ اتفاق سے وحشی کو جلد ہی وار کرنے کا
موقع مل گیا۔ حضرت حمزہؓ دیوانہ وار آگے بڑھے جا رہے تھے کہ یکایک ان کا
پاؤں پھسلا اور وہ پیٹھ کے بل زمین پر گر پڑے۔ اسی وقت وحشی نے تاک کر اپنا
چھوٹا سا نیزہ تانا، حبشیوں کی طرح نیزے کو اونچے بازو پر تولا، توازن کیا
اور اپنی پوری قوت سے حضرت حمزہؓ کے جسم میں ترازو کر دیا جو ناف میں لگا
اور پار ہوگیا۔ حضرت حمزہؓ نے شدید زخمی ہونے کے باوجود اٹھ کر اس پر حملہ
کرنا چاہا، مگر وہ ایک گڑھے میں لڑکھڑا کر گر پڑے۔ اس کے باوجود آگے بڑھنے
کی کوشش کی لیکن دوسرے ہی لمحے حضرت حمزہؓ الرفیق الاعلےٰ سے جا ملے اور
شہادت عظمیٰ کے عظیم درجے پر فائز ہو گئے۔ بہادری اور جوانمردی کی انتہا
دیکھئے کہ آخری وقت میں بھی آپ کے قدم آگے ہی بڑھے، پیچھے نہیں ہٹے۔ حضرت
حمزہؓ نے بروز ہفتہ 15 شوال 3 ہجری بمطابق 23 مارچ 625ء کو جام شہادت نوش
کیا۔ اس وقت آپؓ کی عمر 57 یا 59 سال تھی۔ خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک
طینت را
حضرت حمزہؓ کی درد ناک شہادت پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام بے حد غمگین اور
غصے کی حالت میں تھے۔ سیدنا عبداﷲ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ آقائے نامدارﷺ
سیدنا حضرت حمزہؓ بن عبدالمطلبؓ پر جس طرح روئے، اس طرح میں نے ان کو کبھی
روتے نہیں دیکھا۔ آپﷺ اس طرح روئے کہ آواز بلند ہوگئی۔ ابن ہشام کہتے ہیں
کہ جب نبی کریمﷺ حضرت حمزہؓ کی لاش پر آ کر ٹھہرے تو اسے دیکھ کر آپﷺ نے
(بچشم تر) فرمایا ’’ایسی مصیبت جیسی حمزہؓ پر پڑی، دنیا میں کسی پر نہ پڑی
ہوگی۔‘‘ آپﷺ بار بار فرما رہے تھے کہ ارے! مجھے کسی بھی موقع پر اتنا غصہ
نہیں آیا جتنا آج آیا ہے۔
یہ بات نہایت اہم اور مستند ہے کہ حضرت حمزہؓ روحانی طور پر مدینہ کے والی
اور حاکم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مدینہ طیبہ میں آج بھی کہیں جھگڑا ہو جائے اور
دونوں فریق کسی نتیجہ پر نہ پہنچیں تو اس دوران اگر ایک فریق اپنی صفائی
میں حضرت حمزہؓ کا نام لے لے تو دوسرا فریق فوراً حضرت حمزہؓ کے احترام میں
اپنے موقف سے دستبردار ہو جاتا ہے اور یوں معاملہ طے پا جاتا ہے۔ اہل مدینہ
کا قول ہے: ’’من ارادان یستشفع عند رسول اللّٰہ (ﷺ) فلیستشفع بعمہؓ‘‘ جو
چاہے کہ رسول اکرمﷺ کے یہاں کسی کا واسطہ لائے، اسے چاہیے کہ انﷺ کے عم
اکرمؓ کا واسطہ لائے۔ چنانچہ اہل مدینہ کا قدیم سے یہ طریقہ چلا آ رہا ہے
کہ جب کسی پر کوئی مصیبت پڑتی یا کوئی کسی مشکل میں گھِر جاتا ہے تو وہ سید
الشہدا حضرت حمزہؓ کی بارگاہ میں فریاد لے کر حاضر ہو جاتا ہے اور یوں عرض
کرتا ہے ’’اے نبی کریمﷺ کے محبوب چچا! میں اس حالت میں نہایت مشکلات میں
گرفتار ہوں، اپنے رؤف و رحیم بھتیجے حضرت محمد مصطفیﷺ کی بارگاہ میں میری
سفارش فرمائیں تاکہ میری مصیبت دور اور مشکل حل ہو جائے۔ پھر وہ سیدھا حرم
نبوی شریف میں مواجہہ شریف کے سامنے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ
میں حاضر ہو کر سلام عرض کر کے التجا کرتا ہے۔ چنانچہ اﷲ کے فضل و کرم سے
اس فریادی کی مشکل حل ہو جاتی ہے اور وہ اپنی مراد حاصل کر لیتا ہے۔
میں نے عالم استغراق میں سیدنا حضرت حمزہ کی پابوسی کی اور عرض کیا : ’’اﷲ
تعالیٰ دلوں کے بھید خوب جانتا ہے۔ میں آپ سے کذب بیانی کی جسارت کا تصور
بھی نہیں کر سکتا۔ میں آپ کے سامنے حلفاً عرض کرتا ہوں کہ جب جنگ احد میں
وحشی نے آپ کو قتل کرنے کے لیے اپنا نیزہ پھینکا تھا، اگر میں وہاں موجود
ہوتا تو اس نیزہ کو ہر حالت میں اپنے سینے پر روکتا اور آپ کو معمولی زخم
بھی نہ آنے دیتا‘‘۔ اس کے بعد میں نے عرض کیا کہ میں پاکستان جا کر آپ کی
سیرت و فضائل اور شجاعت و شہادت پر ایک مبسوط کتاب لکھنا چاہتا ہوں۔ اس
کتاب کی تیاری کے سلسلہ میں آپ کی نگاہ التفات کا محتاج ہوں۔ پھر میں نے
بصد ادب واحترام اجازت لے کر تفصیل کے ساتھ اپنے تمام گھریلو حالات اور
گھمبیر مسائل عرض کیے اور روتے ہوئے دست بستہ عرض کیا کہ آپ اپنے پیارے اور
عظیم ترین بھتیجا جان (ﷺ) سے میری سفارش کردیں۔ پھر میں دیر تک بیٹھا درود
شریف پڑھتا رہا۔ اسی اثنا میں مجھے اطمینان قلب کے ساتھ شرح صدر ہوا کہ سید
الشہدا سیدنا حضرت حمزہؓ نے میری درخواست قبول کر لی ہے۔ چنانچہ کیف و سرور
اور سرشاری کے عالم میں فوراً مسجد نبویؐ پہنچا۔ باب السلام سے داخل ہوا تا
کہ بارگاہ رسالت پناہﷺ میں حاضری دے سکوں۔ کانپتے لرزتے جسم کے ساتھ مواجہہ
شریف کی طرف چلنا شروع کیا۔ کم مائیگی کے پسینے میں تربتر ہو گیا۔ یقین کی
اس دولت کے ساتھ کہ آپ شفیع المذنبین ہیں، منبع جودوسخا ہیں، گنہگاروں کے
حاذق ہیں، آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا تھا۔ اچانک خیال آیا کہ سلام کرتے ہوئے
میں تو حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کو نہیں دیکھ سکتا لیکن آپﷺ تو ضرور
دیکھیں گے اور سلام کا جواب بھی مرحمت فرمائیں گے۔ دبدبۂ جمال کے اس خیال
سے پورا وجود لرز گیا۔ جسم پر سکتہ طاری ہو گیا۔ علامہ اقبالؒ کی شہرہ آفاق
رباعی ’’از نگاہِ مصطفیﷺ پنہاں بگیر‘‘ یاد آنے لگی۔ اشکوں کا طوفان امڈ
آیا۔ ’’آنسو ندامتوں کے ہیں چشم تر سے جاری‘‘۔ عطر بیز فضا اور انوار و
تجلیات کی بارش میں مواجہہ شریف کے سامنے آیا۔ نہایت عجز و انکساری اور
تاسف و ندامت کے ساتھ مواجہہ شریف کے قریب ایک طرف ستون کی اوٹ میں بیٹھ
گیا۔ ’’چھپ چھپ کے رو رہا ہوں دربارِ مصطفیﷺ میں‘‘۔ میرے آنسو التجا کی
صورت اختیار کرتے جارہے تھے۔ مسلسل درود شریف پڑھتے ہوئے دیر تک بخشش و کرم
کی بھیک مانگتا رہا۔ پھر تحفظ ختم نبوت کے کام کی کارگزاری سنائی اور اس کا
واسطہ دے کر اپنے تمام نامساعد حالات و واقعات تفصیل سے عرض کیے۔ ’’ہر
گزارش ہوئی آنسوؤں سے بیاں‘‘۔ چند لمحوں بعد ایسے محسوس ہوا کہ دل پر سکینت
اتر رہی ہے۔ تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب ہو رہا ہے، راحت و آرام کی چادر تان
دی گئی ہے۔ سب کلفتیں اور تاریکیاں دور اور سب کثافتیں کافور ہو گئیں۔ کرم
کے بادل برسنے لگے۔ طمانیت و سکون کی دولت سے دامن مراد بھر گیا۔ یہ قیمتی
لمحات ماورائے زماں و مکاں تھے اور شاید انہیں ساری زندگی نہ بھول سکوں۔
’’خورشید بن گیا ہوں دربارِ مصطفیﷺ میں‘‘۔ اس موقع پر میں نے معروف نعت گو
شاعر جناب حفیظ تائب کا کلام سنانے کی سعادت حاصل کی۔
دے تبسم کی خیرات ماحول کو ہم کو درکار ہے روشنی یا نبیؐ
ایک شیریں جھلک، ایک نوریں ڈلک تلخ و تاریک ہے زندگی یا نبیؐ
اے نوید مسیحا تری قوم کا حال عیسیٰ ؑ کی بھیڑوں سے ابتر ہوا
اس کے کمزور اور بے ہنر ہاتھ سے چھین لی چرخ نے برتری یا نبیؐ
کام ہم نے رکھا صرف اذکار سے تیری تعلیم اپنائی اغیار نے
حشر میں منہ دکھائیں گے کیسے تجھے ہم سے نا کردہ کار امتی یا نبیؐ
دشمن جاں ہوا میرا اپنا لہو میرے اندر عدو میرے باہر عدو
ماجرائے تحیر ہے پر سیدنی، صورتِ حال ہے دیدنی یا نبیؐ
روح ویران ہے، آنکھ حیران ہے، ایک بحران تھا، ایک بحران ہے
گلشنوں، شہروں، قریوں پہ ہے پرفشاں ایک گھمبیر افسردگی یا نبیؐ
سچ مرے دور میں جرم ہے، عیب ہے، جھوٹ فن عظیم آج لاریب ہے
ایک اعزاز ہے جہل و بے رہ روی، ایک آزار ہے آگہی یا نبیؐ
راز واں اس جہاں میں بناؤں کسے، روح کے زخم جا کر دکھاؤں کسے
غیر کے سامنے کیوں تماشا بنوں، کیوں کروں دوستوں کو دکھی یا نبیؐ
زیست کے تپتے صحرا پہ شاہِؐ عرب، تیرے اکرام کا ابر برسے گا کب
کب ہری ہو گی شاخِ تمنا مری، کب مٹے گی مری تشنگی یا نبیؐ
یا نبیؐ اب تو آشوبِ حالات نے تیری یادوں کے چہرے بھی دھند لا دیئے
دیکھ لے تیرے تائبؔ کی نغمہ گری، بنتی جاتی ہے نوحہ گری یا نبیؐ
اس کے بعد جتنے روز مدینہ طیبہ میں رہا، زیادہ تر وقت ریاض الجنۃ اور اصحاب
صفہؓ کے چبوترے پر گزرا۔ نماز فجر اور عشا کے بعد روزانہ مواجہہ شریف پر
حاضری دیتا، حضور نبی کریم ﷺ اور حضرات شیخین کی خدمت میں سلام عرض کرتا۔
چند دنوں بعد واپسی کا پروگرام مل گیا۔ یہاں سے جانے کو دل نہ کرتا تھا۔
واپسی کا سن کر طوفان گریہ امڈ آیا۔ گرفتہ خاطر دل اور دیدۂ تر کے ساتھ
حضور نبی کریمﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر الوداعی سلام عرض کیا اور التجا
کی کہ یہ ناکارہ غلام ہر سال آپ کے در کی حاضری کا متمنی ہے، اس کی اجازت
مرحمت فرما دیں۔ باہر آ کر حسرت و محبت کی نگاہ سے گنبد خضرا کو سلام کیا۔
اگرچہ مدینہ شریف سے واپس جا رہا تھا لیکن اس لحاظ سے بے حد خوش اور خورسند
تھا کہ منگتا خیرات سے خالی جھولی بھر کر لے جا رہا ہے:
منگتے خالی ہاتھ نہ لوٹے، کتنی ملی خیرات نہ پوچھو
انؐ کا کرم پھر ان کا کرم ہے، اُن کے کرم کی بات نہ پوچھو
مجھے میرے ظرف، حیثیت اور بساط سے کہیں زیادہ عطا ہوا تھا۔ میں اس کرم کے
قابل نہ تھا، یہ صرف حضور ﷺ کی بندہ پروری تھی۔ درود و سلام کا نغمہ پڑھتا
ہوا یہاں سے الوداع ہوا۔ دور تلک گنبد خضرا کو چشم نم کے ساتھ مڑ مڑ کر
دیکھتا رہا۔
مکہ مکرمہ آ کر عمرہ اور چند دنوں بعد حج کی سعادت بھی حاصل کی۔ پھر جلد
پاکستان واپسی ہوئی۔ جہاز علی الصبح لاہور ایئر پورٹ پر اترا۔ تمام اہل
خانہ رشتہ دار اور قریبی احباب ایئر پورٹ پر مجھے لینے کے لیے آئے ہوئے
تھے۔ میں سب کو فرداً فرداً ملا۔ لاؤنج سے باہر آیا تو اچانک اہلیہ محترمہ
میرے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چلنے لگی اور میرے کان میں سرگوشی کرتے
ہوئے پوچھنے لگی: ’’متین صاحب! اﷲ تعالیٰ کو آپ کی کون سی ادا پسند آ گئی
ہے‘‘، میں نے پوچھا : کیوں کیا ہوا؟ دلگیر لہجے میں کہنے لگی: ’’تقریباً
تمام مسائل حل ہو چکے ہیں‘‘۔ یہ سنتے ہی اظہار تشکر کے طور پر میری آنکھوں
میں آنسوؤں کا سیلاب امڈ آیا۔ بڑی مشکل سے اپنے جذبات کو ضبط کیا۔ دل سے
آواز نکلنے لگی: یا اﷲ! کس طرح ترے احسانات و انعامات کا شکر ادا کروں۔ کس
ڈکشنری سے ایسے الفاظ تلاش کروں جو اس کرم بے پایاں کے شکریے کے قابل ہوں۔
پھر میں قرآن مجید کی یہ آیات تلاوت کرنے لگا:
r ’’اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لیے کہ اﷲ کے حکم سے اس کی اطاعت
کی جائے اور اگر وہ اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھیں اور اے محبوب! تمھارے حضور
حاضر ہوں اور پھر اﷲ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضرور
اﷲ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں گے۔‘‘ (النساء:64) |