اسلام سے پہلے عورت کی حیثیت مال و متاع سے زیادہ نہ تھی
،اسلام نے مرد اور عورت کوبحیثیت انسان یکساں مقام دیا ،انسانوں میں جو عزت
و اہمیت مردوں کے لیے تھی اسلام نے وہی عورتوں کے لئے بھی تسلیم کی ہے،مرد
و عورت میں اہمیت و عزت کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں۔
اسلام نے زندگی کی نعمتوں اور ضرورتوں کے سلسلہ میں عورت کو مرد کے برابر
رکھا اور حکم دیا کہ اپنے لڑکوں اور لڑکیوں کا یکساں خیال رکھے ،بلکہ اسلام
میں لڑکیوں کے ساتھ محبت اور توجہ کا اجر وثواب بنسبت لڑکوں کے اجرو ثواب
سے زیادہ رکھا،
فرمان رسول ﷺکا مفہوم ہے ،فرمایا:
جو دولڑکیوں کی کفالت کرے میں اور وہ جنت میں اسطرح قریب ہونگے جیسے ہاتھ
میں شہادت اور بیچ کی انگلی۔
انسانی زندگی کے بعض حالات ایسے ہوتے ہیں جن میں مرد کی خصوصیات زیادہ کار
گر ہوتی ہیں،اور بعض حالات میں عورت کی خصوصیات زیادہ مفید ہوتی ہیں،اس لیے
مرد کی زندگی عورت کے شریک حیات بننے پر مکمل ہوتی ہے اور عورت کی زندگی
مرد کے شریک حیات بننے پرمکمل ہوتی ہے،اس طرح دونوں کی زندگی کی کامیابی’
’کنبہ ‘‘بن کر رہنے میں ہوتی ہے،جس کے لیے شادی رچائی جاتی ہے،شادی میں
سارا بوجھ مرد پر ڈالا گیا ہے،عورت کے ساتھ عزت و احترام کا معاملہ کیا گیا
ہے،اس کے کفو و ہم پلہ کا خیال رکھا گیا،اس کی مرضی کو خصوصی اہمت دی گئی ،نکاح
کے بعد اور’’ خلوتِ صحیحہ‘‘سے پہلے اگر طلاق واقع ہوتی ہے تو’’مہر‘‘کا آدھا
حصہ لڑکی کا حق ہے ،وہ دیا جائے گا۔ اور اگرشادی کے بعد عورت حالات کو اپنے
لئے ناساز گار پائے تو ’’خُلع‘‘کی صورت میں علیحدگی کا موقع بھی دیا گیا
ہے۔اور اگر سازگار پائے تو والدین سے تعلق باقی رکھا ہے۔
شوہر کے گھر میں بیوی کے روٹی،کپڑا، مکان وغیرہ سب شوہر کی ذمہ داری ہے،اگر
بیوی نے والدین کے گھر میں کام کاج وغیرہ کیا ہو تو اخلاقی طور پر شوہر کے
گھرمیں بھی کریں ،اور اگر والدین کے گھر میں نوکروں نے کام کاج کیا ہوتو
پھر شوہر کے گھر میں کام کاج اخلاقی فرض بھی نہیں،شوہر اس کے لئے انتظام
کرئیگا۔
بیوی کی کفالت کی ذمہ داری شوہر پر ہونے کے باوجود اس کے لیے شوہر،ماں باپ
وغیرہ کے جائیداد میں وراثت کا حصہ رکھاگیا ہے،شوہر کے انتقال پر اس کے لیے
’’چار ماہ دس‘‘دن یا’’ وضع حمل‘‘ تک کا خرچہ شوہر کے وارثوں پر رکھا،اور
عدت کی تکمیل پر اپنی مرضی سے شادی کرنے کا اختیار دیا،اور اگر شادی نہیں
کرتی تو ’اسلامی حکومت‘ کی ذمہ داری ہے کہ اس کا اور اس کے نابالغ بچوں کے
لیے’ بیت المال‘ سے وظیفہ جاری کرے، اسلام عورت کو تمدن انسانی کا محور اور
باغ انسانی کی زینت تصور کرتا ہے اس لئے اسلام نے اس باوقار طریقے سے وہ
تمام معاشرتی حقوق عطا کئے جن کی وہ مستحق تھی۔جس کا اعتراف غیر مسلم ارباب
فکر و نظر بھی کرتے ہے،
معروف فرانسیسی محقق ڈاکٹر ’’گستاؤلی بان ‘‘لکھتا ہے:
’’اسلام نے مسلمان عورتوں کی تمدنی حالت پر نہایت مفید اور گہرا اثر ڈالا
انہیں ذلت کی بجائے عزت و رفعت سے سرفراز کیا اور کم وبیش ہر میدان میں
ترقی سے ہم کنار کیا،چنانچہ قرآن کا قانون وراثت و حقوق نسواں یورپ کے
قانون کے مقابلہ میں زیادہ مفید اور فطرت نسواں سے زیادہ قریب ہے۔‘‘
(تمدن عرب)
ڈاکٹرگستاؤلی بان لکھتا ہے:’’یونانی عموماً عورتوں کو ایک کم درجہ کی مخلوق
سمجھتے تھے ،اگر کسی عورت کا بچہ خلاف فطرت پیدا ہوتاتو اس عورت کو قتل کر
دیا جاتا۔‘‘
موصوف مزید لکھتا ہے:’’ہندوؤں کا قانون کہتاہے! تقدیر،طوفان
،موت،جہنم،زہراورسانپ ان میں کوئی اس قدر خراب نہیں جتنی عورت۔(تمدن عرب)
اسلام کے علاوہ دوسرے آسمانی مذاہب بھی خواتین کو وہ مقام اور مرتبہ نہیں
دیتے جو اسلام نے دیا ہے۔
بائبل میں عورت کے بارے میں یہ تحریر آج بھی موجود ہے:۔
جس سے خدا خوش ہے وہ اس (عورت )سے بچ جائیگالیکن گنہگاراس کا شکار ہوگا۔
(واعظ)
اسی طرح یہود ی مذہب میں عورت کا مقام یوں بیان کیا جاتا ہے :۔
اور اگر کسی عورت کو ایسا جریان ہو کہ اسے حیض کا خون آئے تو وہ سات دن تک
ناپاک رہیگی اور جو کوئی اسے چھوئے وہ شام تک ناپاک رہیگا،اور جس چیز پر وہ
اپنی ناپاکی کی حالت میں سوئے وہ چیز ناپاک ہو گی۔ (احبار)
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اسلام نے عورت کو جوعزت اور احترام کا
مقام دیا ہے ،جو حقوق دہیے ہیں دوسرے کسی بھی مذہب میں عورت کو وہ مقام
حاصل نہیں،آج اگر کوئی مسلمان عورت مغربی حقوق کو حاصل کرنے کے لیے کوشاں
ہے،تو اس کی بنیادی وجہ ان کا اسلامی تعلیمات سے ناواقف ہونااور مغربی
پروپیگنڈہ کا شکار ہونا ہے ۔جو جہالت کے سوا کچھ نہیں۔ |