آپ اپنا گُردہ بیچ کر بھی اپنا بجلی کا بل جمع کروا سکتے ہیں

عمر عزیز خان جو ’پاکستان ٹوڈے‘ کے ایگزیکیٹو ایڈیٹر اور ’دی ڈیپینڈینٹ‘ کے ایڈیٹر ہیں کہتے ہیں کہ ان کا مقصد صرف لوگوں تک سنجیدہ موضوعات کو مزاح کی شکل میں پیش کرنا ہے مگر اکثر لوگ اِن خبروں کو سنجیدہ لے لیتے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’کبھی کبھار تو باقی خبر رساں اداروں نے بھی ہماری خبروں کو ہیڈ لائن کے طور پر لگایا ہوتا ہے۔‘
 

image


دی ڈیپینڈینٹ‘ پاکستان ٹوڈے کا ہفتہ وار طنز و مزاح پر مبنی رسالہ ہے جو بیک وقت انٹرنیٹ اور پرنٹ کی صورت میں دستیاب ہے۔

’اب آپ اپنا گُردہ بیچ کر بھی اپنا بجلی کا بل جمع کروا سکتے ہیں، لیسکو نے نیا سسٹم متعارف کروا دیا‘

’پاکستانی صحافت بالکل آزاد ہے، سادہ لباس میں ملبوس شخص نے نیوز روم میں بتایا‘

’فوجی عدالتوں کی توسیع کا کیس فوجی عدالتوں میں منتقل‘

یہ اور اس طرح کی کئی خبریں اکثر ’دی ڈیپینڈینٹ‘ کی شہ سرخیاں ہوتی ہیں۔

لیکن خبردار! ان کی خبروں کو سنجیدگی سے نہ لیں کیونکہ یہ صرف طنز و مزاح پر مبنی خبریں ہوتی ہیں۔
 

image


عمر عزیز خان اپنی چھوٹی سی ٹیم کے ساتھ ملک کے سنجیدہ موضوعات کو لے کر انھیں مزاح کی صورت میں لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ طنز و مزاح میں آپ اپنی بات آسانی سے لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں۔ اکثر اوقات جب کوئی سنجیدہ بحث چل رہی ہو، اور دلائل کا مقابلہ دلائل سے ہو تو لوگ بہت سنجیدہ ہوتے ہیں، ان کا اپنا خیال اور اپنا مؤقف ہوتا ہے اور جزباتی ہوجاتے ہیں جس کے باعث اکثر دلیل ان پر اثر نہیں کرتی اور وہ دفاعی پوزیشن میں ہوتے ہیں۔ البتہ مزاح میں وہ دفاعی پوزیشن میں نہیں ہوتے اور اسے سنجیدگی سے بھی نہیں لیتے۔ اس لیے مزاح میں کی گئی بات اکثر اپنے ہدف کو نشانہ بنا جاتی ہے۔

چند دلچسپ واقعات:
عمر کہتے ہیں کہ واقعات تو بہت سے ہیں۔ ان میں سے ایک مجھے یاد ہے کہ ساحر لودھی دبئی میں کسی فلم کی پروموشن کے دوران شاہ رخ خان سے ملے تھے۔

ساحر لودھی کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ شاہ رخ خان سے بہت زیادہ متاثر ہیں۔ جب وہ شاہ رخ سے ملے اور ان کے ساتھ سیلفی لی تو ہم نے مذاق میں الٹا کر کے یہ لکھ دیا کہ فلم انڈسٹری میں مشکل دور سے گزرتے ہوئے ایک انڈین اداکار کا ساحر لودھی سے ملنے کا خواب بلاآخر پورا ہوا۔

’یقیناً یہ ایک اچھی مزاحیہ تحریر تھی اور ہر کسی کو سمجھ آ گئی۔ حتیٰ کہ ہمارے پاس انڈیا سے ٹریفک آرہی تھی اور وہ پوچھ رہے تھے کہ بھائی یہ ساحر لودھی کون ہے؟ ہم تو اسے جانتے تک نہیں۔۔۔ اورکنگ شاہ رخ خان مشکل دور سےگزرتے انڈین اداکار کیسے ہیں؟ حالانکہ کہ ہم نے بہت بڑا بڑا لکھا ہوا تھا کہ یہ ’سیٹائر‘ یعنی طنز اور مذاق ہے۔‘
 

image


عمر کا کہنا تھا کہ سب سے دلچسپ یہ ہوتا ہے جب کوئی سنجیدہ خبر رساں ادارہ آپ کی سیٹائر سٹوری کو سنجیدہ سمجھ لے، عوام سنجیدہ سمجھ لیں تو وجہ سمجھ میں آتی ہے لیکن جب ہم نے بڑے بڑے حروف میں سیٹائر لکھا ہوا ہے پھر بھی یہ ادارے اسے سنجیدہ لے لیتے ہیں۔

’کچھ غیر ملکی خبر رساں اداروں نے اور کچھ ہمارے ملک کے اندر سنجیدہ نیوز ویب سائٹ اور حتیٰ کہ ایک ٹی وی چینل نے بھی ہماری اس خبر کو چلا دیا۔‘

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے خلاف کچھ قانونی کاروائیاں بھی ہوئی ہیں تو اس میں بھی ان کا موقف یہی رہا ہے کہ یہ سیٹائر ہے۔
 

image


کن لوگوں میں زیادہ برداشت ہے؟

عمر کا کہنا ہے کہ ’جو طبقات ان کی شہ سرخیوں کا حصہ بنتے ہیں ان کا اکثر مختلف ردِعمل ہوتا ہے، مثلاً سیاسی طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں تمیز والے بھی ہوتے ہیں اور بد تمیز بھی۔ سیاسی جماعتوں کے حامی تھوڑے بہت بد تمیز ہوتے ہیں مگر وہ بھی ایک دو گالی دے کر چلے جاتے ہیں۔‘

دوسرے اداروں میں سول بیوروکریسی بھی ان کے مزاح کو برداشت کر لتیی ہیں۔ عمر کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ’کچھ ادارے ہیں جن پر ہمیں تھوڑا محتاط رہنا پڑتا ہے۔ ہم اپنی پوری کوشش کرتے ہیں کہ جتنا ہم سے ہو سکے ہم کریں، اور ہم کرتے بھی ہیں، اور تو اور اکثر ہمیں اس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑتا ہے۔‘

دلچسب بات یہ ہے کہ میڈیا کے اندر بھی کبھی کبھی برداشت کم ہوتی ہے، عمر کے مطابق اکثر ٹی وی کے ٹاک شوز کے میزبان بغیر کسی ثبوت کے سیاست دانوں کے خلاف باتیں کرتے ہیں اور بعد میں اکثر انھیں عدالتوں میں معافی بھی مانگنی پڑتی ہے۔ البتہ جب انھی کے کسی حامی کو لوگوں کے سامنے لانے پر انھیں تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عمر کا کہنا ہے کہ ٹاک شو کے میزبان کہتے ہیں کہ ہم سنجیدگی سے بھی اگر کوئی غلط بات یا غیر تصدیق شدہ بات کہہ دیں تو ٹھیک ہے مگر آپ مذاق میں بھی ہمارے خلاف بات نہ کریں۔

یہ رسالہ بنیادی طور پر طنز و مزاح پر مبنی ہے اور صاف صاف لکھا ہوتا ہے کہ یہ ’سیٹائیر‘ (مزاح) ہے لیکن پھر بھی لوگ اسے سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ حتیٰ کہ انھیں کئی بیرون ممالک سے محکمہ خارجہ کے ذریعے یہ بتایا گیا ہے کہ ان پر بنائی گئی خبریں ہٹا دی جائیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ان کا یہ کام ان کے ادارے کے لیے دو دھاری تلوار جیسا ہے جس میں ان کے ادارے کی مشہوری بھی ہو رہی ہے لیکن کبھی کبھی نقصان بھی زیادہ اٹھانا پڑتا ہے۔


Partner Content: BBC URDU

YOU MAY ALSO LIKE: