شارق کی دادی اپنے کمرے میں بیٹھی کتاب پڑھ رہی تھیں لیکن
ان کے کان کمرے سے باہر اپنی بہوکی باتوں پر تھے جوکافی دیر سے اپنے بیٹے
شارق کو ڈانٹ ڈپٹ کیے جارہی تھی،شارق ابھی گریڈ ون ہی میں آیا تھا اس کی
عمر مشکل سے سات برس کی ہوگی ، دادا ،دادی اور امی ابا کا لاڈلاتھا۔ کافی
دیر گلی کے بچوں کے ساتھ دھوپ میں کھیل کر گھر لوٹا تو اس کی امی نے اس کی
خوب خبر لی، جو کچھ اس کے منہ میں آیا کہتی چلی گئی ، آخر میں دو چار تھپڑ
بھی جڑ دئے ، جس کے بعد وہ بل بلا کر رونے لگا ۔اب شارق کی دادی کی برداشت
جواب دے گئی، ان سے اب نہ رہا گیا، شارق ان کا بہت ہی لاڈلا پوتا تھا،
انہیں اپنے بیٹے سے بھی زیادہ عزیز، انہوں نے کتاب بند کی اور باہر آکر
اپنی بہو سے قدرِ سخت لہجے میں کہا ..... ہر بات کی ایک حد ہوتی ہے، اس نے
اتنی بڑی خطا کر دی کہ تم مسلسل اسے برا بھلا کہے جارہی ہو اور مار بھی
ڈالا۔ یہ کوئی مناسب بات نہیں ، لاؤ ادھر میرے بیٹے کو، دادی نے اپنے پوتے
کی جانب ہاتھ بڑھائے ، بہوبھی غصے میں تھی، ا سے اس بات کا تو احساس تھا کہ
شارق کی دادی اور دادا اس کا بہت خیال رکھتے ہیں، اُسے دل و جان سے چاہتے
ہیں، اسکول سے گھر لانا، کپڑے بدلوانا، منہ ہاتھ دھلوانا، ناشتہ کرانا ،
غرض سارے ہی کام دادی خوشی خوشی کیا کرتی ہیں ، اس کے باوجود غصہ انسان کو
اندھا کردیتا ہے، فریحال نے ان سب باتوں کے باوجود اپنی ساس کے سامنے زبان
درازی کی اور انہیں صاف صاف کہہ دیا کہ امی ، یہ ہمارا معاملہ ہے ، فیصل
میرا بیٹا ہے ، میں جو جی چاہے کروں، آپ کو کچھ کہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
شارق کی دادی فریحال کی باتوں سے بہت افسردہ ہوئیں، انہیں اس بات کا افسوس
تھا کہ ان کی بہونے ان کے سامنے بد زبانی کی، انہوں نے بھی جواب میں فریحال
کو صاف صاف کہہ دیا کہ دیکھو بھئی مانا کہ شارق تمہارا بیٹا ہے، لیکن تمہیں
یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ شارق ہمارا پوتا ہے، ہمارے بیٹے کا بیٹا، یہ ہمیں
اپنے بیٹے سے بھی زیادہ عزیز ہے، ہم جب تک زندہ ہیں یا اس گھر میں ہیں اس
کے ساتھ تمہاری یا اس کے باپ کی بے جا زیادتی برداشت نہیں کر سکتے۔ ہمارے
مرنے کے بعد تم آزاد ہوگی کہ جو چاہو کرو، اگر تمہیں یہ بات برداشت نہیں تو
دنیا بہت بڑی ہے ، ہم کیں بھی چلے جائیں گے لیکن اپنی نظروں کے سامنے اپنے
پوتے پر زیادتی نہیں ہونے دیں گے۔
ابھی ساس اوربہو کا مکالمہ جاری ہی تھا کہ شارق کے دادا گھر میں داخل ہوئے
انہوں نے کچھ آوازیں تو سنیں لیکن ان پر غور نہیں کیا۔ وہ جوں ہی اندر آئے
شارق دوڑ کر اپنے دادا سے لپٹ گیا اور زور زور سے رونے لگا۔ شارق کے دادا
بھی پریشان تھے کہ آخر بات کیا ہے کیا ہوا ہے؟ انہوں نے پہلے تو شارق کوگلے
سے لگایا اسے گود میں لیا ، پیار کیا، پانی پلایا، پھر پوچھا کہ بھئی آخر
ہوا کیا ہے مجھے کچھ تو معلوم ہوشارق کو ہواکیا ہے۔ شارق کی دادی نے سب
باتیں بتائیں ، اتنے میں شارق کے بابا بھی گھر پہنچ گئے اب کورم پورا ہوچکا
تھا، طے ہوا کہ پہلے چینج کر لیں ہاتھ منہ دھو لیں ، کھانا بھی کھا لیا
جائے پھر اس مسئلہ پر گفتگو کی جائے۔ اُس وقت تک کے لیے اس معاملے کو اسی
جگہ روک دیا جائے بالکل ایسے جیسے ٹی وی میں کمرشل بریک ہوتا ہے۔ کھانے سے
فارغ ہوکر ہم اس مسئلہ پر بات کریں گے۔ سب نے اتفاق کیا، شارق کے دادا،
دادی پڑھے لکھے ، پیشے کے اعتبار سے استاد ، انہیں ریٹائر ہوئے کئی سال
ہوگئے تھے جب کہ شارق کے امی ابو ڈاکٹر تھے ۔ پڑھے لکھے ہونے کی ہی وجہ تھی
کہ چاروں نے بات کو سمجھا اور بات کو بڑھانے یا خراب ہونے کے بجائے اپنے
گھر کے سب سے بڑے شارق کے دادا کی بات کوعزت دی اور خاموش ہوگئے ۔کھانا
کھانے تک سب لوگ ایسے ہوگئے کے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ سب نے ایک ٹیبل
پر بیٹھ کر حسب معمول کھانا کھایا۔ طے ہوا کہ کھانے کے بعد کچھ دیر آرام
کرتے ہیں شام کو چائے پر بات کی جائے گی۔
شارق کے دادا نے حکمت سے کام لیا ، سب نے ان کی باتوں کو مان بھی لیا،کچھ
وقت گزرجانے سے سب کا غصہ بھی ٹھنڈا ہوگیا۔ کچھ دیر آرام کر کے سب ایک جگہ
جمع ہوئے چائے کے دوران شارق کے دادا نے کہا کہ ہاں بھئی ، کمرشل بریک ختم
ہوگیا ، اب ہم بات وہاں سے شروع کرتے ہیں جہاں پر ختم ہوئی تھی۔ بتاؤ بھئی
شارق آپ بتاؤ ، کیا ہوا تھا، شارق نے کوئی خاص بات نہ بتائی انہوں نے اپنی
بہوسے پوچھا ، بہو نے کہا کہ ابو چھوڑیں بس میں نے شارق کوخوب ڈانٹا اور
ماربھی دیا، اس پرامی نے مجھے سخت سست کہا ، میں غصے میں تھی ان کے سامنے
زبان چلادی، میں شرمندہ ہوں امی مجھے معاف کردیں۔ فیصل کے دادا نے کہا کہ
چلو اب تو بات خود بہ خود ختم ہوگئی۔غلطی کو مان لینا بڑائی ہے، شارق کی
دادی نے بھی عقل مندی کا ثبوت دیا انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے میں نے بھی معاف
کیا، آئندہ خیال رکھنا، دیکھو یہ کہاوت تو تم نے سنی ہوگی کہ’ اصل سے سود
پیارا ہوتا ہے‘۔ اس کا مطلب ہی یہ ہے کہ دادا دادی کو اپنے پوتے پوتیاں
اپنے بچوں سے زیادہ پیارے ہوتے ہیں۔دادا نے شارق کی دادی کی بات کی تائید
کی کہا کہ ہاں بھئی یہ تو ہے۔ ہمیں اپنے پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں بہت
پیارے ہیں۔ دیکھو بھئی پڑھے لکھے ہونے کا یہی تو فائدہ ہے کہ بات کو آسانی
سے سمجھ جاتے ہیں، غلطی ہوتو معافی مانگ کر بات ختم کردی جاتی ہے۔ ہمارے
معاشرہ میں بے شمار گھریلو جھگڑے تعلیم نہ ہونے کے باعث اس قدر بڑھ جاتے
ہیں کہ نوبت مارپیٹ اور تھانہ کچہری تک آجاتی، جو بات ہم افہام و تفہیم سے
اپنی چھت تلے گفت و شنید سے حل کرسکتے ہیں اسے گھر سے باہر لے جانے سے جگ
ہنسائی ہوتی ہے۔ شارق کے دادا نے کہا کہ دیکھو بچوں ماں باپ پڑھے لکھے ہوں
تو ان کی اولاد بھی پڑھی لکھی ہوتی ہے اور یہ سلسلہ اسی طرح جاری و ساری
رہے تو وہ خاندان معاشرے کا ایک پڑھا لکھا خاندان سمجھا جاتا ہے ۔ میری
خواہش ہے کہ میرے گھر ہی کے نہیں بلکہ پورے خاندان کے سب بچے خوب پڑھیں ،
اعلیٰ تعلیم حاصل کریں۔ میں صرف لڑکوں کے لیے یہ بات نہیں کہہ رہا ، لڑکیوں
کے لیے بھی تعلیم حاصل کرنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا لڑکو ں کے لیے ضروری ہے۔
دیکھو اب اگر ہماری بہوتعلیم یافتہ نہ ہوتی یا شارق کی دادی عقل مندی سے
کام نہ لیتیں تو یہ گھمبیر مسئلہ اتنی آسانی سے حل نہ ہو پاتا۔ اس لیے
تعلیم اور تربیت انسان کو اچھاشہری اور عقل و دانش سکھاتی ہے۔
|