اطلاعات ہیں کہ مسلم لیگ ن نے
بالآخر پیپلز پارٹی کو پنجاب حکومت سے فارغ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے جبکہ
ممکنہ فیصلے کے بعد پیپلز پارٹی کی جانب سے اہلیان رائے ونڈ کو کچا چٹھا
کھولنے کی دھمکیاں بھی دی جاچکی ہیں جن کو دیکھتے ہوئے قیاس کیا جارہا ہے
کہ آنے والے چند دنوں میں پنجاب کے سیاسی حالات کا اونٹ کسی نہ کسی حتمی
کروٹ بیٹھ ہی جائے۔اس نئے اٹ کھڑکے کی بنیادی وجہ تو مسلم لیگ ن کے دس
نکاتی ایجنڈے پر عملدرآمد ہی کو قرار دیا جارہا ہے جبکہ بعض باخبر تو یہاں
تک کہہ رہے ہیں کہ شریف برادران اپنی سیاسی ساکھ بچانے کے لئے باقاعدہ طور
پر پیپلز پارٹی کو بلیک میل کر کے اپنے پیش کردہ ایجنڈے پر عمل کروانا
چاہتے ہیں اور اگر حکومت نے ایسا نہ کیا تو پنجاب سے جدا ہونے والے سیاسی
راستے مرکز پر بھی اثر انداز ہونگے لیکن ہمارے ذرائع کے مطابق اب بھی کچھ
نہیں ہوگا کیونکہ ساری کی ساری گیم اپنی اپنی ”نیک نامی“ کے تحفظ کے لئے ہے
اور دونوں ہی بڑی سیاسی جماعتیں مجبوریوں کے ایسے بندھن میں بندھی ہوئی ہیں
جن کو توڑنا زرداری کیمپ کے لئے ممکن ہے اور نہ ہی مسلم لیگ ن اس کا حوصلہ
رکھتی ہے۔ تکنیکی لحاظ سے دیکھیں تو بھی کم از کم موجودہ حالات میں اتحاد
ختم کرنا سیاسی لحاظ سے دونوں میں سے کسی کے لئے بھی کم نقصان دہ نہیں
البتہ پیپلز پارٹی کچھ زیادہ ہی خسارے میں رہے گی۔
عددی لحاظ سے دیکھیں تو وزیراعلیٰ شہباز شریف کو اس وقت مخلوط حکومت میں
اپنی پارٹی کے ایک سو اکہتر ارکان سمیت دو نواسی ارکان کی حمایت حاصل ہے،
اس میں پیپلزپارٹی کے ایک سو سات، مسلم لیگ ضیاء کا ایک، مسلم لیگ فنکشنل
کے تین، ایم ایم اے کے دو اور پانچ آزاد ارکان شامل ہیں۔ الیکشن دو ہزار
آٹھ کے نتائج کے مطابق مسلم لیگ ق پر مشتمل اپوزیشن کے ارکان کی تعداد
اکیاسی ہے تاہم تقریباً چالیس ارکان فارورڈ بلاک بنا کر ق لیگ سے الگ ہوچکے
ہیں۔ پنجاب اسمبلی کے تین سو ستر ارکان پر مشتمل ایوان میں قائد ایوان کو
ایک سو چھیاسی ارکان درکار ہوتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے ایک سو سات ارکان کے
الگ ہونے سے شہباز شریف کے پاس مطلوبہ اکثریت سے چار ووٹ کم ہوجائیں گے،
تاہم پیپلز پارٹی کو عدم اعتماد لانے کیلئے ایک سو چھیاسی ارکان درکار ہوں
گے جبکہ فاروڈ بلاک کے چالیس ارکان کی کمی سے پیپلزپارٹی اور ق لیگ یہ
تعداد پوری نہیں کرسکتی۔ چالیس ارکان کے بغیر پی پی پی کے ایک سو سات اور ق
لیگ کے اکتالیس ارکان ملا کر یہ تعداد ایک سو اڑتالیس بنتی ہے جبکہ آئینی
ماہرین کے مطابق فارورڈ بلاک کے ارکان جب تک اپنی اکثریت ظاہر کر کے
پارلیمانی لیڈر رجسٹرڈ نہیں کراتے اس وقت تک وہ دوسری پارٹی کو ووٹ نہیں دے
سکتے ۔
مندرجہ بالا اعداوشمار کو دیکھیں تو پنجاب کی سطح پر نمبرز گیم کے حوالہ سے
چہ مےگوئیاں جاری ہونے کے باوجود پنجاب میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ق کے
درمیان کسی باضابطہ اتحاد کے باوجود بھی وہ پنجاب اسمبلی میں کسی حکومتی و
سیاسی تبدیلی کی پوزیشن میں نہیں جبکہ پنجاب میں مسلم لیگ کے فارورڈ بلاک
کی واضح حمایت کے بعد مسلم لیگ ن کو پنجاب اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل ہے
جن میں مسلم لیگ ق، فنکشنل لیگ، ایم ایم اے، مسلم لیگ ضیاء اور بعض آزاد
ارکان کی حمایت کے ساتھ مسلم لیگ ن کا دعویٰ ہے کہ ان کے حمایتی ارکان کی
تعداد 230 ہے جبکہ اسمبلی ریکارڈ کے مطابق پنجاب اسمبلی میں کسی بھی جماعت
کے پاس سادہ اکثریت نہیں۔ اسمبلی ریکارڈ کے مطابق 6 آزاد ارکان میں سے 3
مظفر گڑھ سے دو بخاری برادران اور جہانیاں سے آزاد رکن مسلم لیگ ق کے اور
سرگودھا سے آزاد رکن اعجاز کاہلوں اور روبینہ شاہین پیپلز پارٹی کے حمایت
ہیں جبکہ واحد آزاد رکن امجد فاروق کھوکھر ہیں لیکن لامحالہ وہ بھی اکثریتی
پارٹی ہی کا ساتھ دیں گے کہ ہمارے ہاں کی سیاسی روایت ہی یہی ہے ، یوں مسلم
لیگ ن تو فائدے ہی میں ہے لیکن پیپلز پارٹی ممکنہ علیحدگی کے بعد رہا سہا
بھرم بھی کھو دے گی۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کو یہ زعم تو ہے کہ ن لیگ سے
علیحدگی کے بعد ق لیگ اس کا سہارا بن کر شریف برادران کو آؤٹ کرنے کی راہ
ہموار کر دے گی لیکن یہ محض خام خیالی ہے۔ مونس الہی کے خلاف مقدمات اور
چودھری برادران کے احتساب اور اس کے رد عمل میں منہ توڑ جواب دینے کی باتیں
اپنی جگہ لیکن حقیقت یہی ہے کہ چودھری برادران شدید خواہش کے باوجود”کچھ
بھی“ نہیں کرسکتے جس کی ایک وجہ تو ان کے اندرونی اختلافات ہیں جبکہ دوسری
جانب پیپلز پارٹی کا ساتھ دینے کی صورت میں بھی انہیں خسارہ ہی خسارہ
دکھائی دے رہا اور یہ حقیت پی پی کو بھی معلوم ہے اور اسی بناء پر وہ کسی
بھی قیمت پر ن لیگ کے مفاہمتی سیاست کا دھڑن تختہ ہونے سے روکنے کی کوششوں
میں بھی جتی ہوئی ہے جبکہ ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ اس میں کامیاب بھی ہوجائے
گی ۔
یہ بات یقینی ہے کہ سیاسی اختلافات دونوں ہی بڑے اتحادیوں کو ایک پل بھی
مزید ساتھ نہ چلنے پر اکسا رہے ہیں لیکن کیا کیجئے کہ دونوں ہی ایک دوسرے
کے لئے لازم و ملزوم بھی ہیں اور دونوں میں سے کوئی ایک بھی اپنے مد مقابل
کو نیچا دکھانے کے لئے ”بائے بائے“ کہتا ہے تو یہ خود اپنے ہی پاؤں پر
کلہاڑی مارنے ہی کے مترادف ہوگا۔ مسلم لیگ ن جوش میں آکر پی پی وزراء کو
چلتا کرنے کا فیصلہ تو کر بیٹھی ہے لیکن اسے بعد میں احساس ہوا ہے کہ اس
فیصلے پر عمل ممکن ہی نہیں اور وہ بھی پیپلز پارٹی کی اتنی ہی محتاج ہے
جتنی کہ پیپلز پارٹی اس کی۔ عددی لحاظ سے اگرچہ پیپلز پارٹی پنجاب حکومت کا
کچھ نہیں بگاڑ سکتی لیکن بقول راجہ ریاض اگر اس نے سستی روٹی سکیم سمیت
دیگر منصوبوں کی حقیقت (چاہے تنقید برائے تنقید ہی ہو)منکشف کرنے کی ٹھان
لی تو”ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے“ والی ہی صورت بن جائے
گی۔ایک ایسے وقت میں جب کہ سینٹ الیکشن میں صرف ایک اور عام انتخابات میں
تقریباً دو سال باقی ہیں اپنا امیج بہتر بنانے یا اس کو برقرار رکھنے کے
بجائے ”گھر کے بھیدیوں“ کے ہاتھوں ستیاناس کروانا یقیناً دانشمندی نہیں
ہوگی لہذافیصلے کے باوجود ن لیگ”آبیل مجھے مار“کی خواہش مند نہیں ہوگی اور
حتیٰ الامکان”اصولوں “ کی سیاست کے دعوؤں کے ساتھ ساتھ یہاں بھی ملکی مفاد
ہی”عزیز“ سمجھا جائے گا۔
بڑھکوں کے باوجود ایک دوسرے کا ساتھ نبھانے کی ایک اور ،اور سب سے بڑی وجہ
این آر او ہے ۔ اس آرڈیننس سے ”فیضاب“ ہونے والے ایک دوسرے کی ٹانگیں
کھینچنے کی ماضی کی روش پر تو چل رہے ہیں لیکن ایک مخصوص حد تک اور اس سے
آگے سوچنا دونوں ہی کے لئے”گناہ کبیرہ“ ہے کہ ایسا کرنے پر دونوں ہی کے ”پر
جلنے“ کا خدشہ ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایسا ہے تو پھر اس لڑائی
جسے پنجابی میں ”ککڑا کھوئی “ کہا جاتا ہے کا انجام کیا ہوگا؟اس کا جواب
بظاہر دکھائی نہ دینے والا وہ ہاتھ ہے جو ایک بار پھر دونوں ہی کو ”شانت“
کرنے کے مشن پر حرکت میں آچکا ہے۔زیادہ نہیں تو کم از کم اسی فیصد امکانات
یہی ہیں کہ آئندہ چند روز تک مار دھاڑ پر مشتمل چلنے والا یہ سیاسی ٹریلر
قصہ پارینہ بن چکا ہوگا اور وہ بھی اس طرح کہ پیپلز پارٹی وفاق سے”عوامی
ایجنڈے“ پر مکمل عمل کی ایک اور یقین دہانی کروا کر ن لیگ کو رام کر لے گی
جبکہ دوسری جانب پنجاب میں مسلم لیگ ن ”امن پسندی“ کا نعرہ لگا کر انہی کو
گلے لگا لے گی جن کو نکالنے کے لئے شور مچایا جارہا ہے اور یوں دونوں ہی
اطراف صورتحال ”انگور کھٹے ہیں“ جیسی ہی ہوجائے گی۔ |