اسلام دشمنی کی تاریخ صدیوں پرنی ہے تاریخ شاہدہے اسلام
دشمنی میں یہودو نصاریٰ تمام حدیں کراس کرگئے پھربھی ان کے دل ٹھنڈے نہیں
ہوئے اور اسلام کے خلاف ہمیشہ ریشہ دوانیاوں اور سازشوں کا سہارالیا
جاتارہا سلطان نورالدین زنگیؒ کے دورمیں اﷲ کے آخری نبی ﷺ کا جسد ِ اطہرکو
چرانے کی ناپاک جسارت کی گئی ،کبھی مسلمانوں پر صلیبی جنگیں مسلط کی گئیں ،کبھی
یہودیوں کی آبادکاری کے لئے فلسطینیوں پر ظلم کی انتہا کرتے ہوئے اسرائیل
بنادیا جاتاہے، کبھی غزہ کبھی ،مقبوضہ کشمیر اور کبھی برما میں مسلمانوں پر
انہی کی ز مین تنگ کر دی گئی کبھی دہشت گردی کی آڑمیں عراق،
افعانستان،پاکستان، شام، اورکئی اسلامی ممالک میں مسلم کشی کی بدترین
مثالیں قائم کی گئیں ستم ظریفی یہ ہے کہ پھر بھی مسلمانوں پر دہشت گردہونے
کا ٹھپہ لگادیا گیاہے،بھارت،یورپ سمیت کئی غیرممالک میں مسلمانوں سے
امتیازی سلوک، جان و املاک پر حملے،پر تشدد مظاہر ے ،نسلی امتیاز،ہراسمنٹ
معمول بن کررہ گیاہے بحرالکاحل کے جزیرہ نماملک نیوزی لینڈ کے تیسرے بڑے
شہر کرائسٹ چرچ کی 2 مساجد میں 15 مارچ کو ہونے والے دہشت گرد حملوں کو اب
تک دنیا بھر میں مساجد پر ہونے والے حملوں میں سب سے بڑا حملہ قرار دیا جا
رہا ہے۔ جنگ زدہ اسلامی ممالک میں ان سے زیادہ خطرناک حملے بھی مساجد میں
ہو چکے ہیں لیکن یورپ، امریکا اور دیگر غیر مسلم ممالک میں واضح طور پر
دہشت گردی کا یہ واقعہ اب تک کا مساجد پر ہونے والا سب سے بڑا حملہ مانا جا
رہا ہے۔نیوزی لینڈ پولیس کے مطابق کرائسٹ چرچ کے علاقے ڈینز ایونیو میں
واقع مسجد اور لین ووڈ مسجد میں مجموعی طور پر 49 افراد جاں بحق اور 39
افراد زخمی ہوئے یہ حملہ اس وقت کیا گیا جب مساجد میں نماز جمعہ کی تیاریاں
کی جا رہی تھیں۔اگرچہ نیوزی لینڈ میں پہلے بھی دہشت گردی کے واقعات پیش آ
چکے ہیں، تاہم مساجد پر دہشت گردی کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔اس ہولناک
واقعے کے بعد دنیا بھر کے مسلمانوں میں شدید تشویش پائی جانی فطری بات ہے
اور سوشل میڈیا سمیت مختلف فورمز پر سوال اٹھائے جارہے ہیں کہ مسلمانوں کے
خلاف ہونے والے دہشت گردی کے واقعوں کی کھل کر مذمت کیوں نہیں کی جاتی اور
مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کو روکنے کے اقدامات کیوں نہیں اٹھائے
جاتے۔نیوزی لینڈ میں ہونے والے اس حالیہ حملے کے بعد اگرچہ کئی ممالک میں
سیکیورٹی کے انتظامات سخت کیے گئے ہیں، تاہم مسلمانوں میں خوف کی فضا
برقرار ہے۔اس حملے سے قبل جہاں نیوزی لینڈ میں بھی دہشت گردی کے واقعات پیش
آ چکے ہیں، وہیں نیوزی لینڈ کے پڑوسی ملک آسٹریلیا میں بھی متعدد مساجد پر
حملوں کے واقعات ہو چکے ہیں۔اگرچہ آسٹریلیا کو پرامن اور مذہبی ہم آہنگی کو
فروغ دینے والے ممالک کے طور پر دیکھا جاتا ہے، تاہم وہاں بھی مسلمانوں اور
مساجد کے خلاف نفرت کے اکا دکا واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ جرمنی اور فرانس
کی طرح آسٹریلیا میں بھی زیادہ تر مسلم خواتین پر ان کے مکمل لباس کی وجہ
سے حملے کیے جاتے ہیں۔یورپ کے اہم ترین ملک جرمنی کا شمار دنیا کے ان ممالک
میں ہوتا ہے، جہاں مساجد کو سب سے زیادہ نشانہ بنایا جاتا ہے۔جرمنی نشریاتی
ادارے ’ڈی ڈبلیو‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف 2010 میں ہی جرمنی کی 27 مساجد
کو نشانہ بنایا گیا اور 2017 تک مساجد پر حملوں کی تعداد تین گنا تک بڑھ
گئی۔جرمنی بھر میں 2017 میں مسلمانوں کے خلاف 950 جرائم کے واقعات ریکارڈ
کیے گئے جب کہ اسی سال جرمنی کی 73 مساجد کو نشانہ بنایا گیا۔مساجد کو
نشانہ بنائیجانے کا سلسلہ 2018 میں بھی جاری رہا مارچ 2018 میں دارالحکومت
برلن کی ایک مسجد کو نشانہ بنایا گیا۔برلن میں دہشت گردوں نے مسجد کو نذر ِآتش
کردیا تھا، جس سے فوری طور پر کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔اسی حملے
سے 2 دن قبل بھی ایک مسجد کوآگ لگادی دی گئی تھی، حیرانی کی بات یہ ہے کہ
جرمنی میں مساجد پر ان حملوں کو دہشت گردی قرار دیے جانے یا دہشت گردوں کو
گرفتار کرنے کے بجائے ان حملوں کو اسلامی شدت پسندی سے جوڑا گیا۔جرمن حکام
کے مطابق ان حملوں میں ترکش نڑاد مسلمان ملوث تھے اس لیے یہ حملے اسلامی
انتہا پسندی کا نشانہ تھے اور ایسے حملوں کی روک تھام کے لیے دوسرے اقدامات
کرنے کے بجائے مسلمانوں اور مساجد پر ہی شکوک کیے گئے۔مارچ 2018 میں جنوبی
جرمنی کے شہر اولما میں بھی مسجد پر بم سے حملہ کیا گیا۔خوش قسمتی سے اس
حملے سے بھی کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، تاہم مسلمانوں میں خوف پھیل گیا،
لیکن جرمن حکام نے مساجد اور مسلمانوں کی سیکیورٹی کے ٹھوس اقدامات کرنے کے
بجائے انہیں ہی شدت پسند قرار دیا۔برطانیہ کا شمار بھی یورپ کے ان ممالک
میں ہوتا ہے جہاں پر مساجد اور مسلمانوں کو زیادہ تر نشانہ بنایا جاتا
ہے۔اگست 2018 میں برطانوی شہر برمنگھم میں ایک ہی گھنٹے کے اندر 2 قریبی
مساجد کو نشانہ بنایا گیا۔مساجد کو ایک ایسے وقت میں نشانہ بنایا گیا تھا
جب کہ کچھ دن قبل ہی لندن میں دہشت گردی کے واقعہ ہوا تھا۔نیوز ویب سائٹ
نیوز ‘اسٹیٹمنٹ‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ بھر میں 2013 ء سے 2017 ء
تک 167 مساجد کو نشانہ بنایا گیا، تاہم مساجد کی سیکیورٹی کے لیے کوئی خاص
اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔اگست 1990ء کے آوائل میں کویت کی آزادی کے نام پر
اپنے فوجیوں کو سعودی عرب بھیجتے وقت بش سینئر نے اپنی تقریر میں انہیں جنگ
پر ابھارا دراصل یہ تقریر خلیج کے مسلمان ممالک کے خلاف ایک نئی صلیبی جنگ
کا آغاز تھا لیکن فرقہ واریت ،گروہی ،لسانی اور ذاتی مفادات کے حصول نے
مسلم حکمرانوں کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم کردیاہے ۔ بش جونیئر نے
نائن الیون کے واقعہ کے بعد 16ستمبر2001ء کو ایسے ہی ناپاک خیالات کا اظہار
کرتے ہوئے کہا کہ وہ افغانستان کے خلاف صلیبی حملے کی تیاری میں مصروف ہے
مگر میڈیاپر پر اپیگنڈہ کسی اور انداز میں کیا گیا جیسے دہشت گردی کے خلاف
عالمی جنگ لڑی جارہی ہو عالمی میڈیا پر اسلام کیخلاف تعصب اب کوئی ڈھکی
چھپی بات ا نہیں ہے اس کے باجودمسلم حکمران خواب ِ غفلت سے جاگنے کے لئے
تیار نہیں حالانکہ پاکستان، الجزائر،مقبوضہ کشمیر،فلسطین،کویت ،
عراق،افغانستان اور دیگر مسلمان ممالک میں جو کچھ کیا گیاہے یا ہورہاہے
ہماری آنکھیں کھولنے کیلئے کافی تھا آج مسلمانوں کے خلاف بڑے سائنٹیفک
انداز میں میڈیا وار لڑی جارہی ہے مسلمان،مسلم ممالک اور ان کی جان ومال اس
جنگ کا ایندھن بنے ہوئے ہیں لیکن اس حقیقت کو ہم کبوترکی طرح آنکھیں
بندکرکے نظراندازکرنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں حالات متضاضی ہیں کہ دنیا
بھر میں جدیدانداز سے لڑی جانے والی صلیبی جنگوں کے اس انداز سے عام مسلمان
کو آگاہ کیا جائے ورنہ کسی نہ کسی انداز میں امت ِ مسلمہ کو تباہ
وبربادکرنے کیلئے اسلام دشمن طاقتوں کی کوشش جاری رہے گی۔ |