کتب سے بڑھ کر سر ذوالقرنین

سر ذوالقرنین ان اساتذہ میں سے ہیں جو طلبہ کوبے فکری اورعدم شعور سے نکال کر، مقصدیت اور شعور ی ارتقاء کی منازل طے کروانے کا ہنر رکھتے ہیں۔

ایک کامل استاد ہزاروں کتب سے بڑھ کر اہمیت کا حامل ہوتا ہے، کسی بھی کتاب سے صحیح آگاہی تب ہی ممکن ہوپاتی ہے، جب اس میں موجود ابہام و اشکال رفع ہو سکیں اور یہ کام ایک استاد ہی سرانجام دے سکتا ہے۔ اس سے بڑھ کر استاد کی ذات سے وہ بھی حاصل ہوتا ہے جو کتاب میں سرے سے موجود ہی نہیں ہوتا۔ اچھا استاد آپ کو کتاب تک محدود نہیں رکھتا بلکہ اشیاء و افکار کی روح سے آشنا کرواتا ہے اور آپ کو سوچنا سکھاتا ہے۔

جی ہاں ایک ایسے ہی استاد سر سید ذوالقرنین صاحب بھی ہیں، جن کو نہ تو زیادہ لوگ جانتے ہیں اور نہ ہی جان سکیں ہیں۔ کیونکہ ان سے حصولِ علم کے لیے بڑا ظرف اور وسیع صبر درکار ہے۔ ظاہری نمود ونمائش سے کوسوں دور، سادہ طبیعت، منکسر المزاج، خوش گفتار، علم کی گہرائی اور گیرائی میں غوطہ زن، قدیم وجدید اشیاء اور افکار کا نہ صرف انسائکلوپیڈیا بلکہ ان اشیاء اور افکار کی حقیقت اور حیثیت سے بھی آگاہ۔

کہنے کو تو فلسفے میں ایم۔ اے کیا ہے مگر گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے کہ ساری سوشل سائنسز ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑی ہیں۔ نہ صرف سوشل سائنسز بلکہ علم الکلام، الہیات، تصوف، ماڈرن ازم، پوسٹ ماڈرن ازم الغرض قدیم وجدید نظریات اور ان کے سادہ اور لوجیکل رد پر دسترس رکھتے ہیں۔

یقینا یہ مقام ان کو رب تعالیٰ کے خصوصی قرب اور حضور ﷺ سے دلی وابستگی سے نصیب ہوا ہے، کیونکہ ان کا دینی تعلق محض جذباتی یا رسمی نہیں بلکہ حقیقی اور شعوری ہے۔

موصوف جامعہ علیمیہ اسلامیہ کراچی میں سوشل سائنسز کے پروفیسر ہیں۔ خاص بات یہ کہ علیمیہ کے بانی ڈاکٹر فضل الرحمٰن انصاری رحمۃ اللہ علیہ کے افکار اور ان کی وضاحت پر بھی گرفت رکھتے ہیں۔ سر سے ہمیں (لوجک، ایجوکیشن، سائیکالوجی، فلسفہ، پولیٹیکل سائنس، ماڈرن ازم، اخلاقیات، تصوف، قرآنک فاؤنڈیشنز اور دیگر کچھ علوم کی مبادیات) پڑھنے کا شرف حاصل ہے۔ یہ سلسلہ تاحال جاری ہے اور ان شاء اللہ ہمیشہ جاری رہے گا۔

کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، ہر ملاقات میں کچھ نہ کچھ ضرور سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح کا ایک وسیع موقع حاصل کرنے کے لیے ہمارے ایک عزیز دوست دانش محمود صاحب نے سر کے ساتھ سیرو تفریح کا پروگرام ترتیب دیا۔ ۔ جوکہ حب ڈیم کی سیاحت پر مشتمل تھا۔ اصل مقصد سیر کرنا نہیں تھا بلکہ سر سے دوران سفر علم حاصل کرنا تھا۔ اس سفر میں سر کے دو اور اسٹوڈنٹس (حسین نوری اور مقصود حسین ) بھی شریک سفر تھے۔

اگر آپ کسی بھی شخص کے ساتھ زیادہ وقت گزارنا چاہتے ہیں اور کچھ سیکھنا چاہتے ہیں تو اس کے ساتھ طویل سفر کریں، دوران سفر ایک وسیع وقت میسر آتا ہے، وقت ہی قیمتی ہے اگر قیمتی لوگوں کے ساتھ گزرے گا تو اس کی وقعت اور ہوگی ورنہ تو یہ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا اور یہ خزانہ اسی کو ملتا ہے جو اس کی جستجو اور طلب کرے، بے ادب اور بے طلب انسان کی توکسی کو طلب بھی نہیں رہتی۔

الغرض سر ذوالقرنین ان اساتذہ میں سے ہیں جو طلبہ کوبے فکری اورعدم شعور سے نکال کر، مقصدیت اور شعور ی ارتقاء کی منازل طے کروانے کا ہنر رکھتے ہیں۔ گویا سلوک کی منازل طے کرواتے ہیں۔ نہ صرف طے بلکہ تہہ بھی۔ کیونکہ ان سے مل کر زندہ رہنا اور مرناسیکھا جاسکتا ہے۔

بقول سرور بارہ بنکوی:
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں
 

M.Siddique Tahiri
About the Author: M.Siddique Tahiri Read More Articles by M.Siddique Tahiri: 4 Articles with 3833 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.