وزیراعظم عمران خان نے بھارتی انتخابات پر تبصرہ کرتے کہا
تھا کہ بی،جے،پی جیت گئی تو کشمیر پر مذاکرات کا سلسلہ شروع ھو سکتا
ھے۔جبکہ گانگریس مذاکرات کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرے گی۔پاکستان کی
سیاسی جماعتوں نے اس پر پھبتیاں کسنا شروع کر دیں،سینٹ میں تو معمول کی
کارروائی روک کر بحث کی گئی اور تحفظات کا اظہار کیا۔عمران خان کے بیان کو
بھارت نے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا۔اس بیان کے دو رخ ہیں۔ایک
مودی کو اس مشکل وقت میں ایک اور دھکا دینا تاکہ ایک انتہا پسند رہنما سے
خطے کو بچایا جائے۔چونکہ عمران خان اور سیاسی علاقائی اور بین الاقوامی
تجزیہ نگار جانتے ہیں کہ عمران خان کے بیان سے مودی کو فائدہ نہیں ہونا
بلکہ بھارتی عوام پاکستانی حمایت پر ووٹ نہیں دیں گے۔دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ
اگر مودی جیت جاتے ھیں تو مذاکرات کے لیے ایک خوش گوار پس منظر موجود ھو،یہ
ایک تاریخی حقیقت ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات ھمیشہ
بی۔جے۔پی کے دورے حکومت میں ھی ھوئے ھیں۔لاھومعائدہ ھو،اگرہ کی بات چیت ھو
یا بیک ڈور ڈپلومیسی وہ اسی جماعت کا خاصہ رہی ھے۔جو گرجتے ہیں وہ برستے
نہیں۔ کی طرح بی جے پی مذاکرات کی میز پر آ سکتی ہے۔اگرچہ مودی کا پاکستان
دشمن پس منظر مختلف اور متضاد ہے،مگر کہیں سے تو شروع کرنا ھے۔
گزشتہ سات دہائیوں سے بھارتی انتخابات میں پاکستان مخالف سیاسی بیانیہ ہی
بیچا جارہا ھے۔اس مرتبہ بھی مودی نے دو ملکوں کو جنگ کے دہانے پر لاکھڑا
کیا تھا۔وہ الگ بات ھے کہ پاک فوج اور حکومت نے
دفاعی،نفسیاتی۔اعصابی،اطلاعاتی اور سفارتی معاذ پر شکست دے کر مودی کے مس
ایڈونچر کو بری طرح فلاپ کیا ۔دوسری طرف پہلی مرتبہ راھول گاندھی نے
پاکستان میں عمران خان کے سیاسی ماڈل کو اپنایا اور مودی حکومت کو
جھوٹ،کرپشن،اور بغل میں چھری منہ پر رام رام کی پالیسی پر آ ڑھے ہاتھوں لیا
۔چوکیدار چور ھے"حکومت میں عمران خان کی طرح احتساب کریں گے" کے نعرے
گانگریس کی پالیسی کا حصہ رہے۔حیرت اس بات پر ھے کہ بھارت کی عوام اور
حکومتوں نے طویل جمہوریت سے کیا سبق سیکھا ہے؟غربت اور افلاس اور خطے کی
بہتری سوچنے میں کیا رکاوٹ ہے کہ آ ج بھی پاکستان مخالف بیانے کی ضرورت پیش
آ رہی ہے۔؟ ایک ارب 30 کروڑ انسانوں کے دیس۔ میں انسانیت کی طرف قدم اٹھانے
سے ھر کوئی ڈرتا ھے۔ڈیڑھ کروڑ نئے ووٹر۔پاکستان مخالف بیانیہ،مقبوضہ کشمیر
میں قتل وغارت،اقلیتوں کے خلاف کارروائیوں جیسے عمل لوگوں کے سامنے
ھیں۔انتخابی مارکہ جاری ہے۔وسطی بھارت کے نتائج اھم کردار ادا کریں گے۔جہاں
بی جے پی،کانگریس۔کے اتحاد اور دیگر جماعتوں کے درمیان سخت مقابلہ ھے۔بین
الاقوامی سروے مودی کے حق میں ھیں۔جبکہ مضبوط رائے یہ ھے کہ گانگریس یا بی
جے پی کو اتحادیوں کی ضرورت ھو گی۔یہ کامیابی کون حاصل کرتا ھے؟ اس کے
بھارت اور خطے میں کیا اثرات ہوں گے یہ اھم سوال ھے جس کا جواب آ نے والا
وقت دےگا۔البتہ پاکستان کا تزکرہ انتخابات کا گرم ترین موضوع رہا ہے۔اس
گرمی کے بعد وزیراعظم عمران خان کو کشمیر میں بہار کا انتظار ھے جو کسی کے
لیے پریشانی اور کسی کے لیے اطمینان کا باعث ہے،!!
|