فساد اور تبدیلی


کیا معاشرے میں اصل اور نقل، حق و باطل ، سچ اور جھوٹ، روشنی اور اندہیرے ، ہیرو اور غدار ، اپنا اور پرایا ، محسن اور ڈاکو کی پہچان ختم ہو چکی ہے۔اگر ایسا ہی ہے تو ہمیں انفرادی طور پر تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اور اگر ایسا نہیں ہے اور معاشرے میں اس ظن کے خاتمے کے لیے ہمیں انفرادی تبدیلی کی زیادہ ضرورت ہے۔

ملک میں تبدیلی آرہی تھی ۔ عام لوگ تبدیلی کے حق میں جبکہ ایک طبقہ تبدیلی کے بالکل ہی مخالف تھا۔ بازار میں تبدیلی کے اثرات مہنگائی کو صورت میں ظاہر ہونا شروع ہوئے۔چینی کی قیمت ایک دم ایک روپے سیر سے بڑھ کر سوا روپے سیر ہو جانے نے ملازم پیشہ افراد کے ذہن کے کئی طبق روشن کر دیے تھے۔ راولپنڈی میں بجلی ریپکو نام کی ایک نجی کمپنی پیدا ور تقسیم کرتی تھی۔اس لیے عوام کے اذہان کے کئی طبق روشن ہو جانے کے بعد بھی بجلی کی قیمتوں میں اضافہ نہ ہوا۔میرے بچپن کا دور تھا۔ اس دور میں بچے سنتے زیادہ اور بولتے کم تھے۔ میری دادی مرحومہ کے پاس محلے کے ایک دوسرے گھر کی دادی گپ شپ لگانے آیا کرتی تھیں۔ موضوع مہنگائی ہی تھا۔ دوسرے گھر کی دادی نے کہا ْ میں عرصہ سے چار ٹوپے گیہوں دے کر پورے ہفتے کا سودا لاتی ہوں۔ کل بھی چار ٹوپے ہی میں پورے ہفتے کا سودا لے کر آئی ہوںْ
بات پچپن سال پرانی ہے۔ میری یاد میں خریدو فروخت بارٹر سسٹم کے تحت ہوا کرتی تھی۔ ہر جنس کی ایک ْ ویلیوْ مقرر تھی۔ کسان کو اندازہ ہوتا تھا کہ یہ سال اس کے لیے معاشی طور پر کیسا ہو گا۔ ملازم پیشہ کو یقین تھااس کی تنخواہ کہاں خرچ ہو گی۔ تاجر کا منافع معروف ہوا کرتا تھا۔اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہوا کرتا تھا۔

چند دن قبل ایک اخبار میں ایک دوست نے لکھا تھا ْ فرعون کے دور میں مرغی دو درہم کی تھی، آج بھی مرغی کی اصل قیمت دو درہم ہی ہے ْ جب میں یہ کالم پڑھ رہا تھاا میرے ذہن میں چار ٹوپے والی دادی کی تصویر ابھر رہی تھی۔

غور کیا جائے تو انسان کی کچھ جبلی ضروریات ہیں۔ جن میں روٹی، کپڑا، مکان اور سواری شامل ہیں۔ زندگی میں امن بھی انسان کی بنیادی ضرورتوں میں شامل ہے۔ جس معاشرے میں انسان کی یہ ضرورتیں پوری نہ ہو رہی ہوں وہ معاشرہ فساد کا شکار ہو جاتا ہے۔

فساد یا فساد فی الارض ایسا گھناونا جرم ہے جس کی ہرعاقل انسان مذمت کرنے پر خود کو مجبور پاتا ہے۔ فساد کہتے کس کو ہیں؟کسی بھی چیز کو اس کے اصلی مقام سے ہٹا دینے کا نام فساد ہے۔مثال کے طور پر زمین سے پیدا ہونے والا آلو بیس روپے کا ایک کلو آتا ہے۔ ایک تاجر بیس روپے میں ایک ہزار گرام کی بجائے نو سو گرام آلو دے کربازار میں قیمتوں کا فساد پھیلا رہا ہے۔ یا ایک خاندان کا سربراہ اپنی میراث کو معروف قانون وراثت کی بجائے اپنی مرضی سے تقسیم کر کے بعض لواحقین کو بعض پر ترجیج دے کر نا انصافی کا مرتکب ہوتا ہے اور خاندان میں منافرت کے بیج بو کر ایسے اختلافات کا بیج بوتا ہے جو خاندان میں بغاوت اور سرکشی کا سبب بنتے ہیں ۔ خاندان کے اس سربراہ کے عمل کو فساد ہی کا نام دیا جائے گا۔ ایک حکمران اپنے عوام کو امن کی بجائے خوف اور دہشت پھیلا کر فساد کی بنیاد رکھتا ہے۔

ہم تیسری (غریب ) دنیا کے ممالک میں ماہرین معاشیات کے لیکچر سنتے ہیں۔ جس میں کاغذی کرنسی کو معاشیات میں فساد کی جڑ بتایا جاتا ہے ۔ ہم جمعے کے خطبے میں علماء دین کو ْ اعتدالْ سے گریز کو معاشرتی فساد کا سبب بتاتے سنتے ہیں۔ ہمارے سیاسی رہنماء ْ تبدیلیْ کو فساد کا منبع قرار دیتے ہیں۔ہمارے اسکالرزکا کہنا ہے کہ ہم لوگ علم کی بجائے ظن پر اعتقاد کرتے ہیں جو اصل فساد ہے۔ میڈیا کے بارے میں لوگ بتاتے ہیں کہ حق کو باطل اور باطل کو حق بتا کر معاشرے میں فساد پھیلایا جا رہا ہے۔

کیا معاشرے میں اصل اور نقل، حق و باطل ، سچ اور جھوٹ، روشنی اور اندہیرے ، ہیرو اور غدار ، اپنا اور پرایا ، محسن اور ڈاکو کی پہچان ختم ہو چکی ہے۔اگر ایسا ہی ہے تو ہمیں انفرادی طور پر تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اور اگر ایسا نہیں ہے اور معاشرے میں اس ظن کے خاتمے کے لیے ہمیں انفرادی تبدیلی کی زیادہ ضرورت ہے۔

ایک ذاتی تجربہ کی روداد۔ میرا پوتا جس کی عمرپانچ سال ہے بازار سے ایک ایسا کھلونا لے کر آیا جو بیٹری پر چلتا ہے۔ بیٹری ختم ہو جائے تو اس کو ْ ری چارج ْ کرنے کی سہولت بھی اس کھلونے کے اندر ہی موجود ہے اور ری چارج کرنے کا طریقہ بھی ایک صفحہ کے چھپے ہوئے کاغذ کی شکل میں موجود ہے۔ میرے پوتے نے میرے سامنے میز پر ہدایات کا کاغذ پھیلایا ۔ ہدائت نمبر ایک کے مطابق چارجر کی پن کو کھلونے کے نیچے دیے گئے سوراخ نمبر ایک میں گھسایا۔ ہدایت نمبر دو کے مطابق چاجر کے شو کو بجلی والی ساکٹ میں گھسایا، ہدایت نمبر تین کے مطابق بجلی مہیا کرنے والے ساکٹ کے بٹن کو دبا کر آن کیا۔ ہدائت نمبر چار کے مطابق عمل کرتے ہوے اس چھوٹی سی بتی کو چیک کیا جو بٹن آن ہونے کے بعد جل اٹھی تھی۔جب بت جل اٹھی اور اس کے کھلونے کی بیٹری چارج ہونا شروع ہو گئی تو اس نے وقت دیکھا ۔ اس کو یقین تھا ۔ چھپے ہوئے کاکاغذ پر دی گئی ساری ہدایت درست ثابت ہوئی ہیں اس لیے تیس منٹ بعد اس کا کھلونا دوبارہ ری چارج ہونے کے بعد اس قابل ہو جائے گا کہ وہ اس سے مستفید ہو سکے۔

ہر انسان اشرف ہی نہیں زمین پر خالق کائنات کا خلیفہ یا نائب بھی ہے۔جب معاملات گڈ مڈ ہو جائیں ۔ ہمارے ذہن کی بیٹری ری چارجنگ مانگے تو ہمیں وہ ہدائت نامہ کھول کر سامنے رکھنا چاہیے جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ ایمان والوں کے لیے ہدائت اور شفا ہے۔ میرے پوتے نے اپنے ْ عملْ کے بعد یقین پایا کہ ہدائت نامہ پر نمبر شمار کے مطابق عمل کرنے سے ری چارج والی بتی جل اٹھتی ہے۔

اصل فسا د خود فریبی ہے۔ اور سب سے بڑی خود فریبی بے عملی ہے۔ اور بے عملی سے بڑا فساد اس کام کی تبلیغ کرنا ہے جس کام پر خود عمل پیرا نہ ہوا جائے۔

 

Dilpazir Ahmed
About the Author: Dilpazir Ahmed Read More Articles by Dilpazir Ahmed: 135 Articles with 151384 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.