عام طور پرکہاجاتاہے کہ پولیس والوں سے نہ دوستی اچھی
اور نہ دشمنی اچھی ۔ یہ مقولہ بہت پرانا ہے ۔ پاکستان کو آزاد ہوئے 72سال
ہوچلے ‘ پولیس کوابھی تک عوام دوست نہیں بنا یا جاسکا ۔ تھانے کے اندر جانا
تو کجا باہر سے گزرتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے کہیں کسی جرم میں پکڑ کر اندر ہی
نہ کردیا جائے ۔ شیخ سعدی ؓ کی حکایت ہے کہ ایک لومڑی چھپ رہی تھی ‘
ساتھیوں نے پوچھا کیا مصیبت آن پڑی ہے ۔ لومڑی نے ہانپتے ہوئے کہا اونٹوں
کو بیگار کے لیے پکڑا جارہا ہے ‘ میں تو وہاں سے بھاگ نکلی کہ مجھے ہی نہ
اونٹ سمجھ کر کوئی پکڑ لے ۔ اے لومڑی کہاں تم اور کہاں اونٹ ۔ تمہاری اونٹ
سے کیا مشابہت ۔ لومڑی بولی ۔ارے ہٹ اگر مجھے وہ اونٹ سمجھ کر پکڑ لیتے جب
تک ان کو یہ شناخت نہ ہوجاتی کہ میں اونٹ نہیں لومڑی ہوں اس وقت تک میرا
کچومر تونکل چکا ہوتا ۔ یہ حکایت پولیس ڈیپارٹمنٹ بہت صادق آتی ہے ۔زندگی
میں جتنی بار بھی باامر مجبوری کسی کام کے سلسلے میں تھانے جانے کا اتفاق
ہوا ‘ واپس آنے تک آیت الکرسی ہی پڑھتا رہا ۔سنا کرتے تھے کہ ناکوں پر
تعینات پولیس اہلکاروں کی انگلیوں میں کوئی نہ کوئی چیز ایسی ہوتی ہے جو
تلاشی لیتے لیتے ہوئے جیب میں ڈال دیتے ہیں پھر پکڑ کر الزام لگا دیتے ہیں
۔ اﷲ محفوظ رکھے ایسی مصیبتوں اور پریشانیوں سے ۔ جہاں پولیس ڈیپارٹمنٹ کی
کالی بھیڑوں کا برے الفاظ میں ذکر ہوتاہے وہاں کچھ اچھے لوگ بھی یقینا
موجود ہیں جو اپنے محکمے کا بہترین تعارف بنتے ہیں ۔ چند سال پہلے میں
پتوکی کسی کام کے سلسلے میں گیا ۔ میں جس سے بھی ملا وہ ایک ہی کہانی
سنارہا تھا ۔ کہ پتوکی میں ایک پولیس انسپکٹر ایسا بھی آیا تھا جس کا نام
شفقت باری تھا ۔چارج سنبھالتے ہی اس نے مسجدوں میں یہ اعلان کروا دیا کہ آج
کے بعد شہر کے تمام لوگ اپنے گھر کیدروازے کھول کر سوئیں ۔ اگر کسی گھر میں
چوری ہوجائے تو وہ تھانے آکر مجھ سے لے جائے ۔ لوگ حیران تھے کہ یہ پولیس
افسر کیسی عجیب باتیں کررہا ہے ۔یہ علاقہ رانا برادرای اور نکئی خاندان کے
زیر اثر ہے ۔ ان بااثر لوگوں کی بھینسوں کو چارہ ڈالنے والے بھی وہاں
سنبھلے نہیں جاتے ۔وہ خود کتنے خوفناک ہوں گے مقامی لوگ ہی جانتے ہیں۔ہر
بااثر شخص نے رسہ گیر اور چور ڈاکو پال رکھے ہیں جو دن میں ان کی خدمت کرتے
ہیں اور رات کو ڈاکہ زنی ۔حیران کن بات تو یہ ہے کہ غلام باری انسپکٹر
پولیس کے آنے کے بعد چوروں اور رسہ گیروں نے یہ علاقہ چھوڑ دیا تھا ۔ میں
اس بہادر پولیس کو ملنا چاہتا تھالیکن بااثر لوگوں نے اس کی ٹرانسفر کروا
دی تھی ۔ ذوالفقار چیمہ بے شک ریٹائر ہوچکے ہیں لیکن آج بھی دلوں پر راج
کرتے ہیں ‘ وہ جہاں جہاں بھی تعینات رہے وہاں سے رسہ گیروں ‘ ڈاکوں اور
جرائم پیشہ افراد کا صفایا کرتے گئے ۔سب سے پہلے اپنے محکمے کے ان سہولت
کاروں کو پکڑا جو جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کرتے تھے ۔ اﷲ ان کو لمبی
عمر دے وہ جہاں بھی جاتے ہیں اپنا تعارف خود بنتے ہیں۔ میں ایک مرتبہ لاہور
سے شیخوپورہ اور شیخوپورہ سے نوشہرہ ورکاں روڈ پر بذریعہ بس سفر کیا ۔ بسوں
میں اتنے لوگ بھرے تھے کہ پاؤں فرش پر نہیں تھے‘ چھت پر بھی درجنوں نوجوان
سوار تھے ‘سڑک اتنی چھوٹی تھی کہ آنے والی اور جانے والی بسوں کو کچے میں
اترنا پڑتا ۔واپسی پر میں نے ایس ایس ٹریفک کو صورت حال سے آگاہ کیا تو
انہوں نے مجھے چائے پر بلا لیا ۔ اس وقت ایس پی ٹریفک سید قلب عباس تھے‘
‘میں جب ان کے آفس پہنچا انہوں نے میری باتوں کو توجہ سے سنا اور کہا آپ
ایک ہفتے کے بعد دوبارہ وہاں جائیں اگر کوئی فرق محسوس ہوتو مجھے ضرور
بتائیں ۔ایک بات میری بھی یاد رکھیں کہ میں آپ کو اس دفترمیں نہیں ملوں گا
۔میں جب دوبارہ گیا تو واقعی ہر بس میں سیٹ ٹو سیٹ لوگ بیٹھے دکھائی دیئے
۔واپس لاہور پہنچا تو اخبار میں یہ خبر پڑھنے کو ملی کہ سید قلب عباس کو
ٹرانسفر کرکے ایس پی ایڈمن لگادیاگیا ۔ایک ملاقات میں انہوں نے بتایا کہ
ٹرانسپورٹر بااثر ہوتے ہیں وہ چیف منسٹر کے پاس جاکر ایسے افسر کا تبادلہ
کروا دیتے ہیں جو ان کے راستے کی دیوار بنتا ہے ۔چند ہفتے پہلے کی بات ہے
مجھے اپنے ڈرائیونگ لائسنس کی تجدید کروانی تھی میں ارفع کریم ٹاور میں
لائسنسگ اتھارٹی کے دفتر پہنچاتو بہت لمبی قطار نظر آئی ۔ گھٹنے کے آپریشن
کی وجہ سے قطار میں کھڑا ہونا میرے لیے ناممکن تھا ‘میں اس کمرے میں
جاپہنچا جہاں ایک انسپکٹر اور دو اہلکارموجود تھے ‘ میں نے انسپکٹر کو
بتایا کہ میرے گھٹنے میں تکلیف ہے اگر ممکن ہوسکے تو میرے لائسنس کی تجدید
کروادیں۔ وہ انسپکٹر نہایت شریف آدمی تھا پولیس کا رنگ اس پر ابھی نہیں
چڑھا تھا اس نے دوستانہ انداز میں گھٹنوں میں درد کی وجہ پوچھی اور چند
منٹوں ہی میرے لائسننس کی تجدید کروا دی ‘ وہ ہر شخص سے اچھے لہجے میں بات
کررہا تھا اس انسپکٹر کا نام مدثر صدیق ہے۔ پولیس کی وردی کاغرور اسے چھو
کر بھی نہیں گزرا تھا۔ یقینا وہ کسی اچھے خاندان کا فردہوگا ہے ۔مدثر صدیق
انسپکٹر یقینا پولیس ڈیپارٹمنٹ کا بہترین سفیرہے۔میں صبح کیولری گراؤنڈ
پارک میں واک کرنے جاتے ہوں وہاں مجھے ایک شریف النفس نوجوان اپنی بزرگ
والدہ کے ساتھ آہستہ آہستہ چلتا دکھائی دیتا ہے ‘ والدہ اگر بینچ پر بیٹھ
جاتی ہے تو وہ کھڑا رہتا ہے ‘کئی ایک مرتبہ میں بینچ پر بیٹھ کر سانس لے
رہا تھا کہ اچانک میرے کانوں میں آواز آئی ‘کیا آپ میری والدہ کو بیٹھنے کی
جگہ دے سکتے ہیں ‘ میں نے کہا کیوں نہیں۔ ایسا کئی بار ہوا دو دن پہلے جب
میں نے اس سے پوچھا بیٹا آپ کیا کرتے ہیں اس نے بتایا کہ میں آئی جی پولیس
پنجاب کا PRO ہوں‘ اس کانام عمیرہے ۔میں نے کہا آپ شکل وصورت سے توپولیس
والے معلوم نہیں ہوتے اور نہ ہی رعب دبدہ آپ کی شخصیت کاحصہ ہے ‘ اس نے
جواب دیا میں کچھ بھی نہیں ہوں صرف اپنی ماں کے پاؤں کی دھول ہوں۔حالانکہ
یہاں گھر کاایک فرد پولیس میں ملازم ہوجاتاہے تو سارے خاندان کی
موٹرسائیکلوں پر پولیس کلر پلیٹ لگاکر رجسٹریشن کی بھی زحمت نہیں کی
جاتی۔پورے محلے میں رعب الگ پڑتا ہے۔میں اس نوجوان کودیکھ کر حیران بھی
ہوااور خوش بھی کہ اب بھی پولیس میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو اپنے ادارے کی
بہترین مثال بنتے ہیں۔ میں جس مسجد "اﷲ کی رحمت"میں نماز پڑھتا ہوں وہاں
ایک پولیس کانسٹیبل نماز پڑھتا ہے میں نے اسے ہر نماز کے بعد رب کے حضور
آنسو بہاتے دیکھا وہ وردی میں بھی ہوتا ہے تو اس کی نگاہیں زمین پر رہتی
ہیں ۔میں حیران ہوں کہ ایسے لوگ بھی کیا پولیس میں ہوسکتے ہیں جو خوف خداسے
ہر لمحے کانپتے نظر آتے ہیں ۔شاید یہ کائنات ایسے ہی اچھے لوگوں کی وجہ سے
قہر خداوندی سے بچی ہوئی ہے ۔ورنہ وردی کا رعب اور اختیار کی بو انسان کو
حیوان بنادیتی ہے۔سانحہ ساہیوال کو دیکھ کر یہ لوگ بلاشبہ فرشتے دکھائی
دیتے ہیں۔ |