کراچی میں پرائویٹ اسکولوں کا بازار قایم کردیا گیا ہے۔
ہر گلی میں درجن کے حساب سے موجود ایسے اسکول جن کا مقصد صرف کاروبار کرنا
ہے ۔ چھوٹے چھوٹے مکان کرائے پر لے کر ان میں اسکول قایم کردیے جاتے ہیں ۔
جہاں نا تو کوئکھیل کا میدان موجود ہے، اور نا ہی کھلی حوا کا انتظام ۔
کھلی حوا ذہن کو تر و تازہ کرتی ہے ۔ اور کھیل کود اچھی صحت کے لئے ایک
لازمی جز ہے ، کوئ بھی اسکول قایم کرتے وقت، اس چیز کا خاص خیال رکھا جاتا
ہے۔لیکن ان پرائیویٹ اسکولوں میں کھیل کے میدان اور کھلی حوا کا تصور بھی
نہیں کیا جاسکتا ۔اساتذہ کا تو خود برا حال ہے اعلی تعلیم یافتہ اساتزہ کے
بجائے میٹرک پاس اساتذہ موجود ہیںکیونکہ ، ان اساتزہ کو کم تعلیم یافتہ
ہونے کی وجہ سے معاوضہ یا تنخواہ بھی کم ادا کرنے پر انکو کوئ اعتراض نہیں
ہوتا ۔ جنہیں خود عبور نہیں کسی مضمون میں وہ کیسے معیاریتعلیم مہیا کریں
گے ۔ایسے لوگوں کو اساتذہ بنا کر نئی نسل کو تباہ کیا جارہا ہے ۔اردو اور
انگریزی زبان کو ملا کر ایسا جملہ بنا کر بولتے ہیں کہ کوئی احمقانہ بات ہی
بن جاتی ہے ۔بس معیار کی تو کیا ہی بات ہے کہ علم کی بنیاد پر نہیں بلکہ
ٹوٹی پھوٹی انگریزی بولنے کی وجہ سے نوکری پکی آپکی ۔۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آج
کل کے طلباء اساتذہ کا احترام ہی نہیں کرتے نا ہی انہیں استاد کے مرتبے
کاعلم ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آج کل کہ طلباء صرف سوشل میڈیا میں ہی اپنی
دنیا قایم کر چکے ہیں ۔ اور موبائل فونز اور سوشل نیٹ ورکنگ کے بغیر منٹ
بھی نہیں رہ سکتا ہیں ۔ اور کھیل کود سے دور ہو چکے ہیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ
آج کل کے بچے اتنے صحت مند زندگی گزارنے سے قاصر ہیں ۔ آ ے دن بیمار ھڈیو ں
کی تکالیف میں مبتلا ۔۔ نام اسکولوں کا ہی ایسا رکھ دیا جاتا ہے کہ اس لفظ
کا کوئ معنی ہی نہیں ملتا لغت میں ۔ ۔۔۔۔یہ ہی وجہ ہے کہ آج کل کے بچے نقل
کر کے پاس ہونے کو ترجیح دیتے ہیں ۔حد تو یہ ہے کہ اکثر اوقات طلباء سگریٹ
نوشی کرتے ہوئے دکھتے ہیں لیکن ان اسکولوں میں کوئی روک تھام نہیں بلکہ
انہیں غرض ہے تو صرف فیس سے ۔ایک بھاری قیمت جو یہ اسکول مالکان وصول کرتے
ہیں ۔ یہ حال ہونے کے باوجود بھی فیس اچھے اسکولوں سے چند سو روپے زیادہ ہی
ہیں ۔ شاید اس میں کچھ غلطی ہماری بھی ہے کہ ہم کبھی اندر جا کر ماحول
دیکھنے کی ذہمت ہی نہیں کرتے ۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ دیکھیں کہ کن
ہاتھوں میں دے رہے ہیں ہم اپنی قوم کے بچوں کا مستقبل کیونکہ یہ ہی ہمارے
ملک و قوم کا سرمایہ ہیں اور ایک دن ہمارے ملک کے لئے فخر کا باعث بنیں گیں
۔ جبھی ٹآج کل کے بچے ٹیوشن پڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں ، اگر اسکولوں میں
ماہر اساتذہ رکھے جائیں تو شاید ان ٹیوشن کی نوبت پیش نہ ائے ۔ ملک میں
بےروزگاری سے متاثر والدین پس کر رہ گئے ہیں ۔ اسکولوں کی بھاری فیس اور
پھر ٹیوشن کی مد میں ایک رقم جیب پر بھاری پڑھتی ہیں۔۔اس طرح ہم خود اپنی
قوم کے مستقبل کو تباہ کر رہےہیں ۔تعلیم کے میدان میں ہمارے پیچھے رہ جا نے
کی یہ ایک بڑی وجہ ہے ۔اسکول مالکان خود کم تعلیم یافتہ ہوتے ہیں بس
کاروبار کے لئے تعلیم کے میدان میں آ تے ہیں ۔ اعلی حکام سے یہ گذارش ہی کی
جا سکتی ہے کہ نئے اسکولوں پر نگرانی کی جاے اور کچھ حصول و قواعد قایم کئے
جائیں جن پر عمل کرنا لازمی قراردیا جائے اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف
سخت کارروائی کی جائے ۔ تاکہ اپبے ملک و قوم کا نام ہر میدان میں نمایاں
رہے، اور ہمارے ملک کے بچے کسی سے پیچھے نا رہیں ۔ ہمارے اکثر طلباء احساس
کمتری میں مبتلا ہو جاتےہیں جب وہ اعلی سطع پر جاتے ہیں اور انہیں ایسے
طلباء سے مقابلہ کرنا پڑھتا ہے ، جن کا تعلق اچھے اسکولوں سے ہوتا ہے اور
انہیں ایسے اساتذہ ملے ہوتے ہیں جو اپنے مضامین میں مہارت رکھتے تھے۔ یہ ہی
وجہ ہے کہ آج کل ایک واضع فرق دیکھائی دیتا ہے ایک عام گلی محلے کے اسکولوں
کے طلباء اور ایک اچھے نامور اسکول کے طلباء میں ۔ ایک جیسی تعلیم مہیا
کرنا حکومت کے فرائض میں شامل ہوتا ہے ۔ دنیا میں بہت سے ممالک ایسے بھی
موجود ہیں جہاں بنیادی تعلیم مفت فراہم کی جاتی ہے ۔ ہماری حکومت مفت تعلیم
فراہم نہیں کر سکتے تو کم از کم کوئ قانون ہی نافذ کردے ۔ محکمہ تعلیم تو
قایم کر رکھا ہے حکومت نے لیکن شاید صرف نویں اور دسویں کے امتحانات ہی سے
تعلق ہے اس شعبے کا ۔ اپنی قوم کے بہتر مستقبل کے لئے ہمیں یہ اقدام کرنا
پڑے گا کہ اپنے طلباء کو اعلی تعلیم یافتہ اساتزہ اور اچھے صحت مندانہ
ماحول والے اسکول فراہم کرے جا ہیں ۔۔
|