خلیل الرحمٰن رمدے ----- ہیرو کبھی ریٹائر نہیں ہوتے

تحریر محمد اسلم لودھی
اس اعتبار سے جسٹس (ر) خلیل الرحمن رمدے قومی ہیرو قرار پاتے ہیں کہ انہوں نے جس جرات اور دلیری سے فوجی آمریت کی موجودگی میں عظیم الشان اور غیر جانبدارانہ فیصلے کئے ان کو نہ صرف پاکستانی قوم بلکہ عالمی سطح پر بھی سراہا گیا ہے ۔آج اگر پاکستان میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں آزاد عدلیہ تمام تر مصلحتوں اور سازشوں کو بالائے طاق میں رکھتے ہوئے آئین اور انسانی حقوق کی پاسداری کررہی ہے تو اس کا سہرا جسٹس (ر) خلیل الرحمن رمدے کے سر بندھتا ہے ۔ڈوگر کورٹ اور اس سے پہلے بہت کم ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ عدلیہ کی جانب سے حکمرانوں کی کرپشن ‘ لوٹ مار اور بددیانتی کے خلاف جرات مندانہ فیصلے کئے گئے ہوں۔ اگر14 اگست 1947 کو ہی ایسی آزاد اور خود مختار عدلیہ معرض وجود میں آجاتی تو آج کرپٹ اور بدیانت فوجی اور سول حکمرانوں نے ملک کی جو حالت بنا رکھی ہے وہ ایسی نہ ہوتی لیکن قدرت کو جب کوئی کام منظور ہوتا ہے تو اسی وقت انجام پذیر ہوتا ہے اس لئے جہاں میں جسٹس (ر) خلیل الرحمن رمدے کو ان کی عظیم خدمات پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں وہاں میری نظر میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری پاکستانی قوم کے وہ عظیم اور انقلابی رہنما ہیں جنہوں نے پاکستان میں 9 مارچ 2007 کو باوردی جرنیلوں کی موجودگی میں ایک طاقتور اور فرعونی صفات کے حامل آرمی چیف کو انکار کر کے انقلاب کی بنیاد رکھ دی تھی جس کی وجہ سے آج پاکستان حق اور انصاف کی جانب کروٹ بدل رہا ہے ۔ پرویز مشرف خود اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اگر وہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے خلاف کاروائی نہ کرتے تو آج صدر پاکستان ہوتے ۔پرویز مشرف کی موجودگی اور رخصتی کے بعد بھی افتخار محمد چودھری سمیت آزاد عدلیہ کے عظیم جج صاحبان نے جن پرآشوب اور توہین آمیز حالات کا سامنا کرتے ہوئے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں اس جرم میں مشرف کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کے خائن اور وعدہ فروش حکمران بھی برابر کے شریک ہیں وکلا کی عظیم جدو جہد اور میاں نواز شریف کے لانگ مارچ کے نتیجے میں جب آزاد عدلیہ بحال ہوگئی تو اس نے دنیا کو دکھا دیا کہ آزاد اور غلام عدلیہ میں کیا فرق ہوتا تھا صرف دو سالوں میں چیف جسٹس اور ان کے عظیم رفقا نے کھربوں روپے کے نہ صرف سکینڈل پکڑے بلکہ موجودہ اور آمرانہ دور کی آئینی ترمیموں کو بھی مسترد کرنے کے ساتھ ساتھ کرپشن اور لوٹ مار کے درجنوں کیسوں کی نشاندھی اور گرفت کر کے یہ ثابت کردیا کہ ملکی سالمیت اور بقا کے لئے آزاد عدلیہ کا وجود کسی نعمت سے کم نہیں ہے آج اگر پاکستان کا وقار دنیا میں پھر میں بلند ہورہا ہے تو اس میں پاکستانی حکمرانوں کا کوئی کردار نہیں ہے بلکہ اس کا تمام تر کریڈٹ آزاد عدلیہ کو جاتا ہے جس نے حج سکینڈل ‘ سٹیل ملز ‘ این آئی سی ایل ‘ لینڈز کیس ‘ این آر او ‘ ایف بی آر میں گھپلوں ‘ معاف کئے جانے والے قرضوں کی واپسی کے لئے سخت ترین اور انصاف برحق فیصلے کئے ان تمام فیصلوں کا کریڈٹ جہاں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور دیگر جج صاحبان کو جاتا ہے وہاں جسٹس (ر) خلیل الرحمن رمدے کا نام عدالتی اور قومی تاریخ میں ہمیشہ سنہری لفظوں سے لکھا جائے گا ۔ میں سمجھتا ہوں کہ خلیل الرحمن رمدے صرف ایک جج کا نام نہیں بلکہ وہ اپنی ذات میں ایک تحریک کا مقام رکھتے ہیں ۔ پاکستانی قوم کی ہمیشہ یہ بدقسمتی رہی ہے کہ عدالتیں ہوں یا دیگر شعبے ہر جگہ ضمیر فروشوں اور مفاد پرستوں کے انبار لگے ہوئے ہیں جو چڑھتے سورج کے سامنے سر جھکانا اور حکمرانوں کے حکم پر کرپشن کو تحفظ فراہم کرنا اعزاز تصور کرتے ہیں لیکن تاریخ میں وہی لوگ زندہ رہتے ہیں جو جسٹس (ر ) خلیل الرحمن رمدے کی طرح حالات کے جبر ‘ باوردی آمروں کی موجودگی میں بھی اپنے ضمیر پر بوجھ اور دامن پر کوئی داغ لگے بغیر آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔میں ان کی عظیم جدوجہد ‘ جرات رندانہ اور روشن ضمیر کو دل کی گہرائیوں سے سلام پیش کرتے ہوئے ان مٹھی بھر مفاد پرست لوگوں کی عقل پر ماتم کرتا ہوں جو ان کی ریٹائرمنٹ پر مٹھائیاں تقسیم کرتے رہے ۔ اس کے باوجود کہ جسٹس خلیل الرحمن رمدے ریٹائر ہوچکے ہیں لیکن چیف جسٹس سمیت آزاد عدلیہ کی بحالی اور آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے انہوں نے کرپشن ‘ بددیانتی اور قبضہ گروپوں کے خلاف جو جرات مندانہ فیصلے کئے وہ ہمیشہ زندہ اور تابندہ رہیں گے ۔ ان دنوں پاکستان میں جس انقلاب کی باتیں کی جارہی ہیں وہ کوئی اور نہیں لائے گا بلکہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری ‘ جسٹس (ر) خلیل الرحمن رمدے اور ان کے رفقا ہی لائیں گے ۔ کیونکہ ہیرو کبھی ریٹائر نہیں ہوتے بلکہ اپنے جرات مندانہ فیصلوں کی وجہ سے وہ ہمیشہ قوم کے دل میں زندہ و تابندہ رہیں گے ۔
Anees Khan
About the Author: Anees Khan Read More Articles by Anees Khan: 124 Articles with 126875 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.