ننھا منا عشق

ماں سے زیادہ بچوں کو کوئی سمجھ ہی نہیں سکتا- بچے اگر منہ سے کچھ نہ بھی کہیں تو ماں سمجھ جاتی ہے کہ وہ کیا چاہتے ہیں- مگر حمزہ کا معاملہ مختلف تھا- اس کی ماں آج تک نہیں سمجھ سکی تھی کہ وہ کس قسم کا لڑکا ہے- وہ اتنہائی با ادب، مخلص، خدمت گزار اور محبّت کرنے والا تھا- اس کے باوجود اس میں کچھ عجیب عادتیں بھی تھیں- وہ اپنی کوئی بھی پریشانی کسی سے شیئر نہیں کرتا تھا- بڑی سے بڑی بات بھی ہوجائے، وہ منہ سے اظہار نہیں کرتا تھا، مگر اس کی ماں جانتی تھی کہ وہ اس کا اثر تو بہت لیتا ہے مگر چپ رہتا ہے- اسے کسی کام کو کروانے کے لیے کچھ کہنا ہی نہیں پڑتا تھا- گھر کی ہر چیز پر اس کی نظر رہتی تھی اور وہ بغیر کسی کے کچھ کہے گھر کے کاموں میں لگا رہتا تھا-

باپ کے مرنے کے بعد جب وہ دس بارہ سال کا تھا، ماں کی یہ کوشش تھی کہ وہ حمزہ کے ساتھ ایسا رویہ رکھے کہ اس کو باپ کی کمی محسوس نہ ہو- وہ چاہتی تھی کہ دوسرے بچوں کی طرح وہ بھی اس سے کسی چیز کی، کسی کھلونے کی ضد کرے، مگر اس نے کبھی کوئی ایسی ضد نہیں کی- اس نے کپڑوں اور جوتوں کے لیے بھی کبھی فرمائش نہیں کی تھی- اس کی ان سب چیزوں کا خیال ماں کو ہی رکھنا پڑتا تھا-باپ زندہ تھا تو اس سے وہ کسی بھی قسم کی فرمائش کرنے سے نہیں جھجکتا تھا- وہ گھر آتا تو اسے اپنی اور دوستوں کی تمام باتیں بتاتا- اس کا باپ بھی اس کی ان باتوں کو بڑی دلچسپی سے سنتا تھا- اپنے باپ کے ساتھ رہ کر اس کے چہرے پر خاص طرح کا اطمینان اور طمانیت کے اثار نظر آتے تھے-

حمزہ میں یہ تبدیلیاں اس کے باپ کی موت کے بعد سے آئی تھیں- باپ کی رفاقت بچوں کو باہمت بناتی ہے اور ان میں خود اعتمادی لاتی ہے- ماں کو احساس تھا کہ باپ کے چلے جانے سے اس کی زندگی میں ایک خلا پیدا ہوگیا ہے- ایک روز اس نے حمزہ کو فون پر کسی دوست سے کہتے ہوۓ سنا تھا "یار باپ نہیں تو کچھ نہیں"- یہ بات سن کر اس کی ماں کا دل بہت اداس ہوگیا تھا-

مرنے سے پہلے اس کا باپ اتنا کچھ چھوڑ گیا تھا کہ اس کے جانے کے بعد ان لوگوں کو کسی قسم کی مالی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا- حمزہ اور اس کی چھوٹی بہن اقصیٰ کی پڑھائی بڑے اچھے طریقے سے چلتی رہی- گھر کے دوسرے معاملات میں بھی کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا-

حمزہ شروع ہی سے پڑھائی میں بہت اچھا تھا اسی لیے اسکول، کالج اور یونیورسٹی تک اس کی اس سلسلے میں کارکردگی قابل رشک تھی- اس کی بہن اقصیٰ کالج میں پڑھ رہی تھی- اس کو کالج سے لانے لیجانے کی ذمہ داری اس نے اپنے سر لے رکھی تھی- پہلے یہ کام وہ اپنی موٹر سائیکل کے ذریعے انجام دیتا تھا، پھر اس نے گاڑی لے لی تو اس کو گاڑی پر لانے اور لے جانے لگا-

وہ پڑھ کر گھر آتا تو اس کی نظر اس بات پر ہوتی تھی کہ امی کو بازار سے کوئی چیز تو نہیں منگوانی ہے، اقصیٰ کو کہیں جانا تو نہیں ہے یا گھر میں اور کوئی کام تو نہیں ہے- جب اس طرف سے اسے اطمینان ہو جاتا تو وہ اپنے مشاغل میں مصروف ہو جاتا- اس کے دوست اس کے پاس آجاتے یا پھر وہ دوستوں کے پاس چلا جاتا- اس کے دوست بھی چند ایک ہی تھے-

اپنی تعلیم سے فارغ ہوا تو اس کو ایک پرائیویٹ کمپنی میں اچھی سی نوکری مل گئی- اپنے کردار اور محنت کی وجہ سے وہ وہاں بالکل سیٹ ہوگیا تھا- وہاں کا ماحول اسے پسند تھا- اس کا کام میں دل لگ گیا تھا-

ماں اس کی پڑھائی مکمل ہونے اور پھر اس کی نوکری لگ جانے کے سبب بہت مطمئن تھی اور چاہتی تھی کہ اب اس کا گھر بس جائے- اس سلسلے میں اس نے اقصیٰ سے بھی بات کی تھی- اس بات سے اقصیٰ کی خوشی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی- اس معاشرے کی یہ بہت اچھی بات ہے کہ شادی سے صرف لڑکا ہی خوش نہیں ہوتا، اس کے پورے گھر والے خوش ہوتے ہیں- بھابی کا رشتہ ہی ایسا ہے کہ اس میں ماں کی مامتا اور بہن کا پیار جھلکتا ہے- دیور خوش ہوتے ہیں کہ بھاوج کی شکل میں انھیں ایک زبردست حمایتی مل جائے گا جس کے پاس ویٹو جتنی طاقت ہوتی ہے- نند یہ خیال کرتی ہے کہ بھابی کے آجانے سے اسے ایک اچھی سہیلی مل جائے گی – اچھے ساس سسر کو اس کی شکل میں اپنی بیٹی نظر آتی ہے-

ایک روز حمزہ آفس سے گھر آیا تو ماں نے اس کے سامنے اس کی شادی کا تذکرہ چھیڑ دیا، اس کو قائل کرنے کے لیے اس نے یہ دلیل بھی دی کہ شادی کے بعد بچے ہونگے اور بچوں کے ہوجانے سے گھر میں بھی رونق ہو جائے گی- اس کی ماں نے کہا کہ اس کی نظر میں دو چار لڑکیاں ہیں، لیکن اگر وہ کسی سے شادی کرنا چاہتا ہے تو بتادے-

حمزہ نے بتا دیا- زویا نام کی ایک لڑکی اس کے ساتھ یونیورسٹی میں پڑھتی تھی- وہ اس کو پسند کرتا تھا اور زویا کو بھی اس کی پسند پر اعتراض نہیں تھا- ایسا بہت کم ہوتا تھا کہ وہ موبائل پر اس سے بات کرے یا اس کو میسیج وغیرہ کرے- وہ لوگ باہر بھی گھومنے پھرنے نہیں جاتے تھے، اس کے باوجود حمزہ اس کو دل و جان سے چاہتا تھا- یہ اس کا ایک اور عجیب پن تھا کہ جس سے اتنا ٹوٹ کر پیار کرتا تھا، وہ بھی اس کے پیار کی شدت سے ناواقف تھی- ماں کی بات سن کر اس نے کہا کہ اس بارے میں وہ کل بتائے گا-

اگلے روز اس نے زویا سے فون پر بات کی، اور اسے بتا دیا کہ وہ رشتے کے لیے اپنی ماں اور بہن کو اس کے گھر بھیجنا چاہتا ہے- زویا ایک پڑھی لکھی اور سیدھی سادھی گھریلو لڑکی تھی- اسے امید نہیں تھی کہ حمزہ اسے اتنا پسند کرتا ہے کہ رشتے کے لیے گھر والوں کو بھیجے گا- اس نے اپنی ماں کو حمزہ کے بارے میں بتا دیا - اس کی ماں تھوڑی سی فکرمند ہوگئی تھی- اس کے دل میں ایک خدشہ تھا کہ پتہ نہیں زویا کا باپ راضی ہوگا یا نہیں- وہ ایک قنوطی شخص تھا، اپنے فیصلوں کو بہت اہمیت دیتا تھا اور ان پر ڈٹا رہتا تھا- ہاں اور ناں کی اس کشمکش میں بہرحال ماں نے اقصیٰ سے کہہ دیا کہ حمزہ کے گھر والوں کو اس اتوار کو گھر بلا لے-

اتوار والے روز حمزہ اپنی ماں اور بہن کے ساتھ زویا کے گھر پہنچا- وہ دونوں اندر گھر میں چلی گئیں، وہ شازیہ کے باپ کے ساتھ ڈرائنگ روم میں بیٹھ گیا- شازیہ کا باپ بظاہر تو حمزہ کو خوش اخلاق اور نرم گو لگا، مگر حمزہ سمجھ گیا تھا کہ وہ دوہری شخصیت کا مالک ہے- اس نے حمزہ سے اس کے بارے میں پوچھا ، تعلیم اور نوکری کے بارے میں سوالات کیے پھر ادھر ادھر کی باتیں شروع کردیں- اتنی دیر میں زویا کا چھوٹا بھائی وہاں آیا اور باپ کو بلا کر اندر لے گیا-

اس کی واپسی جلد ہی ہوگئی تھی- وہ آکر خاموشی سے بیٹھ گیا پھر کچھ دیر بعد بولا "حمزہ بیٹے ماشااللہ تم بہت اچھے اور ہونہار لڑکے ہو- تمہاری امی نے میری بیوی سے زویا کے بارے میں بات کی تھی- میں اسی سلسلے میں اٹھ کر اندر گیا تھا- برا مت ماننا، اسے ہماری مجبوری سمجھنا ہم خاندان سے باہر رشتے نہیں کرتے"-

"جی اچھا"- حمزہ نے کہا اور اٹھ گیا- شازیہ کے باپ کے چہرے پر شدید حیرت کے اثار نظر آئے- اسے تو یہ توقع تھی کہ حمزہ اس سلسلے میں سوال جواب کرے گا اور اسے قائل کرنے کی کوشش کرے گا مگر اس کی اس "جی اچھا" نے اسے حد درجہ حیران کردیا تھا-

"امی چلیے"- حمزہ نے بلند آواز میں اپنی ماں کو آواز دی اور وہاں سے اٹھ کر باہر نکل گیا- چلتے وقت اس نے زویا کے باپ سے الوداعی کلمات بھی نہیں کہے تھے-

اس کا چہرہ سپاٹ تھا مگر دل و دماغ کی کیفیت کچھ اور تھی- وہ ایک حقیقت پسند اور صاف گو شخص تھا- وہ نہ کسی سے خوشامد کرواتا تھا اور نہ خود اس نے کبھی کسی کی خوشامد کی تھی چاہئے معاملہ کتنا ہی بڑا اور اہم کیوں نہ ہو- وہ باہر نکل کر گاڑی میں آکر بیٹھ گیا-

تھوڑی دیر بعد اس کی ماں اور بہن بھی آگئیں- وہ لوگ بھی حمزہ کی طبیعت سے واقف تھیں، اس نے اس ملاقات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا اس لیے وہ بھی خاموش ہی رہیں- انہوں نے سوچا تھا کہ اگر حمزہ نے کچھ پوچھا تو بتا دیں گی کہ منع ہوگیا ہے- مگر اس کی نوبت نہیں آئ- حمزہ نے کچھ پوچھا ہی نہیں- اس کی ماں اور اقصیٰ دونوں ہی بہت افسردہ تھیں- اقصیٰ کو تھوڑا سا غصہ بھی تھا- وہ سوچ رہی تھی کہ زویا کے باپ نے اچھا نہیں کیا- اتنا اچھا لڑکا جتنا کہ اس کا بھائی ہے، چراغ لے کر بھی ڈھونڈنے سے نہیں ملے گا-

ماں کو تو حمزہ کی عادتوں کا پتہ تھا ہی، اسے احساس تھا کہ وہ زویا کو دل و جان سے چاہتا ہوگا، مگر اپنی عزت نفس اسے بہت عزیز تھی- زندگی کے اس اہم معاملے میں بھی اس نے زویا کے باپ کو اپنی باتوں سے قائل کرنے کی کوشش نہیں کی ہوگی- کسی چیز کو حاصل کرنے کے لیے گڑگڑانا اور خوشامد کرنا اس کی شروع ہی سے عادت نہیں تھی-

اگلے روز حمزہ نے زویا کو فون کیا- زویا بھی افسردہ تھی، اس نے کہا "اب کچھ کرنا بیکار ہے- ہمارے خاندانی معاملات میں ابّو کا فیصلہ آخری ہوتا ہے"- حمزہ نے فون بند کردیا-

واقعہ اگرچہ بہت بڑا تھا مگر اس کے باوجود حمزہ کے معمولات میں کوئی تبدیلی نہیں آئ، وہ ہی آفس، وہ ہی چند دوست اور اس کا پسندیدہ کھیل بیڈمنٹن- اس روز کے بعد اس کے منہ سے زویا کا نام کسی نے بھی نہیں سنا-

کچھ عرصہ کے بعد اس کی ماں نے پھر اس سے شادی کی بات کی- انہوں نے کوئی بہت ہی اچھی سی لڑکی دیکھ رکھی تھی- اس نے اپنی ماں کے دونوں ہاتھ پکڑے اور بولا "امی آج کے بعد آپ یہ تذکرہ نہیں کریں گی- اگر ایسی کوئی بات ہوئی تو میں آپ سے خود ہی کہہ دوں گا"- اس کی ماں اس کو بچپن ہی سے جانتی تھی- اسکی عجیب و غریب عادات سے وہ اچھی طرح واقف تھی، ایک ٹھنڈی سانس بھر کر خاموش ہوگئی-

ایک روز وہ گھر آیا تو اس کے کانوں میں ایک کھنکتی سی بڑی ہی پیاری کسی بچے کے ہنسنے کی آواز آئ- بچوں کی ہنسی ایسی ہی دلکش ہوتی ہے کیونکہ وہ دل سے ہنستے ہیں- آواز اس کے بہن کے کمرے سے آرہی تھی- یہ سوچ کر کہ شائد اس کی کوئی سہیلی آئ ہوئی ہے، وہ اپنے کمرے میں چلا گیا- ابھی وہ جوتے اتار رہا تھا کہ اس کے کمرے کا دروازہ ہلکے سے کھلا- اس نے سر گھما کر دیکھا- دروازہ کھولنے والی ڈھائی تین سال کی ایک نہایت حسین و جمیل ننھی منی اور گوری چٹی لڑکی تھی- اس نے لمحہ بھر کو اندر جھانکا- حمزہ کو اپنی طرف دیکھتا پا کر وہ جلدی سے ٹک ٹک کرتے ہوۓ واپس بھاگ گئی- حمزہ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی-

ماں نے اس کا کھانا کمرے میں ہی پہنچا دیا تھا- وہ ابھی کھا کر فارغ ہی ہوا تھا کہ اقصیٰ اس بچی کو گود میں اٹھائے اس کے کمرے میں آگئی-

"بھائی جان- یہ ہمارے نئے پڑوسی ہیں- دیکھیں کتنی پیاری بچی ہے- دوپہر سے ہی ہمارے گھر میں ہے اپنی امی کے پاس جانے کا نام ہی نہیں لے رہی"-

حمزہ نے اس کے گال تھپتھپانے کے لیے ہاتھ آگے کیا تو اس نے جلدی سے منہ پیچھے کر لیا اور مڑ کر حمزہ کی بہن کے شانے پر سر رکھ کر اپنا ایک پاؤں ہلانے لگی-

حمزہ کو وہ معصوم اور پیاری سی بچی بہت اچھی لگی تھی- اقصیٰ نے اس کا نام ماریہ بتایا تھا- حمزہ نے اس کو مختلف چیزیں دے کر اپنی طرف مائل کرنا چاہا، مگر وہ اس کو قریب آتا دیکھ کر اقصیٰ کے پیٹ پر ایک پاؤں جما کر اچک جاتی- اس طرح وہ سمجھتی تھی کہ حمزہ کی پہنچ سے دور نکل جائے گی- بہرحال تھوڑی دیر بعد اس کو جو چیز پسند آئ تھی، وہ تھی شٹل کاک- اس نے دونوں ہاتھوں میں ایک ایک شٹل کاک تھامی، پھر ایک ہاتھ کی کہنی حمزہ کی بہن کے گال پر رکھ کر دوسرے ہاتھ سے دروازے کی طرف اشارہ کرنے لگی- حمزہ کی ماریہ سے یہ پہلی ملاقات تھی اور وہ حمزہ کو بہت اچھی لگی تھی-

شام کو ایک نوجوان لڑکی ان کے گھر آئ- وہ ماریہ کی ماں شازیہ تھی- وہ اسے گھر لے جانے کے لیے آئ تھی- ماریہ ماں کے ساتھ جانا ہی نہیں چاہ رہی تھی. بڑی مشکل سے گئی- اس کے بعد تو یہ روز کا معمول بن گیا- حمزہ آفس چلا جاتا، اقصیٰ کالج- گھر میں حمزہ کی ماں ہوتی اور ایسے میں ماریہ صاف ستھرے کپڑے پہن کر اپنی ماں سے ضد کرکے ان کے گھر آجاتی-

شازیہ ایک نوجوان عورت تھی- چند سال پہلے اس نے محبت کی شادی کی تھی- اس شادی پر اس کے گھر والے راضی نہ تھے- اس نے گھر والوں سے بغاوت کردی اور شادی کر لی- شادی کا ایک سال ہنسی خوشی گزرا اور ماریہ پیدا ہوئی- اس کے شوہر کو بڑی مایوسی ہوئی، اس کو لڑکے کی پیدائش کی امید تھی-

وہ شوہر سے دل سے محبّت کرتی تھی اور شوہر محبّت اپنے ذہن سے کرتا تھا- زمین آسمان جتنا بڑا یہ فرق اکثر شادی کے بعد ہی سامنے آتا ہے- شازیہ کا باپ ایک امیر کبیر شخص تھا- اس کا ایک وسیع کاروبار تھا جس کو چلانے میں اس کے بھائی بھی باپ کی مدد کرتے تھے- اس کے شوہر نے اسے مجبور کیا کہ وہ جائداد میں سے اپنا حصہ مانگے- وہ کوئی کاروبار کرنا چاہ رہا تھا- شازیہ نے اس بات کو گوارہ نہیں کیا- جس گھر کو وہ خود ٹھکرا کر چلی آئ تھی، دوبارہ وہاں نہیں جانا چاہتی تھی- اس بات پر روز روز جھگڑے ہونے لگے اور پھر ایک روز بات اتنی بڑھی کہ طلاق پر جا کر ختم ہوئی-

وہ ہر طرف سے کٹ کر رہ گئی تھی- ابھی اس کی زندگی شروع بھی نہ ہوئی تھی کہ ختم ہوگئی- اسے سب سے زیادہ فکر ماریہ کی تھی- اس کا دل یہ سوچ سوچ کر بھر آتا تھا کہ اسے باپ کے بغیر زندگی گزارنا پڑے گی- اسی دوران اس کے باپ کا انتقال ہوگیا- اس کے بھائیوں نے اس سے تعلقات منقطع کر لیے تھے مگر ماں ماں ہوتی ہے، وہ رابطے میں رہتی تھی- ماں کی کوششوں سے اسے باعزت طریقے سے باپ کی چھوڑی ہوئی دولت میں سے حصہ مل گیا تھا- جائداد میں ایک بڑی سی کوٹھی تھی، بھائی اس سے ناراض تو تھے مگر انہوں نے اس کی قیمت کے حساب سے اس کا بھی حصہ دے دیا تھا- شازیہ کو پیسے کی طرف سے بے فکری ہو گئی تھی- اس نے اپنی چھوڑی ہوئی پڑھائی کو پھر سے شروع کردیا- وہ ایم فل کر رہی تھی اور بعد میں پی ایچ ڈی کرنے کا بھی ارادہ تھا-

اس سے پہلے بھی وہ کرائے کے گھر میں رہتی تھی- مگر یونیورسٹی آنے جانے میں دشواری ہوتی تھی کیوں کہ وہ گھر یونیورسٹی سے دور تھا- اس نے وہ گھر چھوڑ دیا اور اس نئے گھر میں آگئی- اس گھر میں آنے کا یہ فائدہ تھا کہ یونیورسٹی بالکل قریب پڑتی تھی اور اس کا کافی وقت بچ جاتا تھا- ماریہ کی دیکھ بھال اور گھر کے دوسرے کاموں کے لیے اس نے کل وقتی ایک ملازمہ رکھ لی تھی جس سے اسے بڑی آسانی ہو گئی تھی-

زندگی میں اب اس کے لیے کوئی کشش نہیں رہ گئی تھی، جس کی خاطر اس نے اپنا خاندان چھوڑا تھا اور ذلت اٹھائی تھی، وہ ہی اسے چھوڑ گیا تھا اور یہ کوئی نئی بات نہ تھی- لڑکیوں کی شادی میں جب بڑے بیچ میں پڑتے ہیں تو لڑکے کو بھی احساس ہوتا ہے کہ اگر کچھ غلط کرے گا تو جوابدہی کرنا پڑے گی، جو لڑکیاں خود سے شادی کر لیتی ہیں، اس سہولت سے محروم ہو جاتی ہیں- شازیہ بھی ماں باپ کی بات نہ ماننے کا خمیازہ بھگت رہی تھی، اس کا اسے احساس تھا- یہ اکثر مردوں کی فطرت ہوتی ہے، وہ عورت کو تنہا کرنے کے بعد اپنا اصلی روپ دکھاتے ہیں- شازیہ کے ساتھ بھی یہ ہی ہوا تھا- بہت کم مرد ایسے ہوتے ہیں جو گھر والوں کی مرضی کے بغیر شادی کرنے والی لڑکیوں کو عزت دیتے ہیں اور ان کے ساتھ زندگی بھر نباہ کرتے ہیں باقی تو شادی کے بعد ہونے والی لڑائیوں میں اس بات کو بھی طعنہ بنا لیتے ہیں-

شازیہ کو اس نئی جگہ پر رہنے والے لوگ اور ماحول پسند آیا تھا- خاص طور سے اسے اقصیٰ بہت پسند آئ تھی- وہ پہلے ہی روز اس سے گھل مل گئی تھی اور ماریہ کو اپنے ساتھ گھر لے آئ تھی- بعد میں ماریہ کو وہ لوگ اتنے پسند آئے تھے کہ وہ وہیں رہنا پسند کرنے لگی-

ماریہ کی وجہ سے حمزہ کی امی کا بھی دل لگ گیا تھا- جب حمزہ اور اقصیٰ گھر میں نہیں ہوتے تھے تو وہ ان کی ماں کے ساتھ ہی رہتی تھی-

کچھ عرصہ بعد اقصیٰ کو شازیہ کی زبانی اس کی دکھ بھری داستان بھی پتہ چل گئی- اقصیٰ نے یہ تمام باتیں اپنی ماں اور حمزہ کو بتائیں- حمزہ نے تو اس پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا مگر اس روز کے بعد سے اس کی ماں نے شازیہ کا زیادہ خیال رکھنا شروع کر دیا- اس کی غلطی کے باوجود انھیں اس سے ایک ہمدردی سی ہو گئی تھی اور اس کے لیے ان کے دل میں ایک نرم گوشہ پیدا ہوگیا تھا-

چند ہفتوں بعد ماریہ کی ایک بات سب نے محسوس کی- وہ حمزہ سے زیادہ قریب ہوتی جا رہی تھی- حمزہ میں بھی کئی تبدیلیاں دیکھنے میں آئ تھیں- وہ ٹائم سے گھر آجاتا تھا کیونکہ ماریہ اس کا انتظار کر رہی ہوتی تھی- حمزہ نے بیڈ منٹن کھیلنے جانا بھی بند کردیا تھا- وہ ماریہ کو لے کر قریب کے ایک پارک میں جا بیٹھتا یا پھر اپنے کمرے میں اس کے ساتھ رہتا اور دونوں بستر پر ٹیک لگائے بڑے اسکرین کی ایل ای ڈی پر کارٹون دیکھتے رہتے -

پھر کچھ دنوں بعد یہ بات بھی دیکھنے میں آئ کہ ویسے تو ماریہ سارا دن حمزہ کی ماں اور اقصیٰ کے پیچھے پھرتی تھی، مگر حمزہ کی موجودگی میں وہ انھیں نظر انداز کرنے لگی- رفتہ رفتہ وہ حمزہ سے اتنی مانوس ہوگئی کہ اس کے بغیر ایک پل بھی نہیں رہتی تھی اور ہر دم اس سے چپکی رہتی- وہ اسے اسی کی زبان میں کہانیاں سناتا، اس سے کھلونوں سے کھیلتا- وہ کوئی کام کرتا تو ماریہ کوشش کرتی کہ اس کا ہاتھ بٹائے- اس کو حمزہ کے علاوہ اب کسی کی بھی پرواہ نہیں تھی- حمزہ گھر میں ہو یا نہ ہو وہ اسی کے کمرے میں رہنا پسند کرتی- وہ اس کو حمزہ کہہ کر ہی بلاتی تھی- اس کے منہ سے اپنا نام لینا حمزہ کو بہت اچھا لگتا تھا-

یہ سب چیزیں دیکھ کر حمزہ کی ماں تشویش میں مبتلا ہوگئی- حمزہ جتنی جلدی اور جس قدر ماریہ سے اور ماریہ اس سے مانوس ہو گئی تھی، اس بات نے اسے بہت پریشان کردیا تھا- وہ سوچتی تھی کہ شازیہ کب تک یہاں رہے گی، ایک دن تو اسے اپنی بچی کے ساتھ واپس جانا ہوگا، ہوسکتا ہے اس کے بھائی ترس کھا کر اسے معاف کردیں اور اپنے ساتھ لے جائیں- وہ جائے گی تو ماریہ کو بھی ساتھ لے جائے گی- ماریہ چلی گئی تو حمزہ اس کی جدائی کیسے برداشت کرے گا- احساس بے بسی اسے اندر سے توڑ پھوڑ کر رکھ دیتا تھا-

پھر ایک دن حمزہ کی ماں کا خدشہ ٹھیک ثابت ہوگیا- شازیہ کے بھائیوں کی محبّت نے جوش مارا- وہ ماں کے ساتھ شازیہ سے ملنے آگئے- انہوں نے بہن کی خطا معاف کردی تھی- اس کی دکھ بھری زندگی جو وہ بیٹی کے ساتھ گزار رہی تھی اس نے انھیں نرم دل کر دیا تھا-

دو تین دن بعد حمزہ کی ماں کو یہ اطلاع ملی کہ وہ شازیہ کو اپنے گھر میں رکھنے کو تیار ہیں اور اسے ساتھ لے جا رہے ہیں- اس خبر سے حمزہ کی ماں کو ایک اطمینان سا ہوا- اس نے سوچا کہ ماریہ چلی جائے گی تو حمزہ بھی اسے بھول بھال جائے گا اور دوبارہ سے اپنی گزشتہ دلچسپیوں میں لگ جائے گا-

ماریہ کے جانے کی خبر حمزہ کو ملی- اس کے چہرے سے تو کچھ پتہ نہیں چلا کہ اس خبر نے اس کے دل پر کیا اثر کیا ہے- اس نے اقصیٰ سے صرف اتنا کہا "چلو اچھا ہوا وہ لوگ اپنوں میں چلے گئے"-

اسی رات گیارہ بجے شازیہ کا فون آیا- اس نے اقصیٰ کو بڑی شرمندگی سے بتایا کہ ماریہ نے رو رو کر برا حال کرلیا ہے- وہ حمزہ حمزہ کی رٹ لگائے ہوۓ ہے- دوپہر کو اسے تیز بخار نے بھی آ لیا تھا- اس نے کہا کہ وہ اپنی امی سے پوچھ کر بتا دے کہ اگر وہ اجازت دیں تو میں آیا کے ساتھ اسے بھیج دوں؟"-

اقصیٰ اور اس کی ماں خود ماریہ کو بہت یاد کررہی تھیں- اس کے تیز بخار کا سن کر وہ پریشان ہوگئیں- انھیں احساس تھا کہ ماریہ حمزہ سے بہت پیار کرتی ہے- اس کی طبیعت کا خراب ہوجانا ایک فطری عمل تھا- یہ تمام باتیں سوچ کر انہوں نے شازیہ سے کہہ دیا کہ وہ ماریہ کو بھیج دے-

جب ماریہ آئ تو وہ اقصیٰ اور اس کی ماں کو نظر انداز کر کے سیدھی حمزہ کے کمرے کی طرف بھاگی- حمزہ ٹی وی دیکھ رہا تھا- وہ دوڑ کر اس سے لپٹ گئی اور چیخیں مار مار کر رونے لگی- حمزہ نے بھی اسے خود سے لپٹا لیا اور مسکرا کر ماں کو دیکھنے لگا-

بچوں کی ضد کے آگے تو بڑے بڑے بھی ہار مان لیتے ہیں- ماریہ نے اپنے گھر جانے سے صاف انکار کر دیا تھا اور وہیں رہنے لگی- اس بات سے ماں فکرمند تو بہت ہوتی تھی مگر جب وہ ماریہ کو دیکھتی تو اسے ترس بھی آجاتا- نرم دل والے جب کسی کو محبّت میں اتنا آگے جاتا دیکھتے ہیں تو انھیں بھی اس سے ہمدردی محسوس ہونے لگتی ہے- محبّت ہی تو ایک ایسا جذبہ ہے جس پر کسی کا بس نہیں چلتا- حمزہ کی ماں بھی ایک نرم دل عورت تھی اور انسان کے ان جذبوں سے اچھی طرح واقف تھی- چاہے وہ انسان ماریہ جتنے ہوں یا حمزہ جتنے-

ایک روز حمزہ نے اپنی ماں سے کہا "امی بہت دنوں سے آپ نے میرے گھر بسانے کی بات نہیں کی- کیا بھول گئیں؟"-
ماں خوش ہوگئی- "کیا تم نے کوئی لڑکی دیکھ لی ہے؟"-
"لڑکی تو نہیں دیکھی- مگر میں چاہتا ہوں آپ شازیہ سے میری شادی کروادیں"- حمزہ نے ایک دم سے سے کہا- اس کی ماں بھونچکی رہ گئی اور حیرت سے حمزہ کا منہ تکنے لگی-
"مگر تم نے تو شازیہ کو دیکھا تک نہیں- ایک مرتبہ بھی اس سے نہیں ملے ہو- اس کے باوجود اتنا بڑا فیصلہ؟"- ماں نے کہا-
"لڑکی کو دیکھنا نہ دیکھنا میرے لیے اس بات کی اہمیت نہیں رہ گئی ہے- جس کو دیکھا تھا اس سے بھی کہاں ہوئی"- اس نے پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا- اس کی بات نے ماں کو بھی رنجیدہ کردیا- بولی "مجھے کوئی اعتراض نہیں مگر ایک مرتبہ پھر سوچ لو"-
"میں نے اچھی طرح سوچ لیا ہے"- حمزہ نے کہا "یہ ہی ایک ایسا طریقہ ہے جس سے ماریہ ہم سے کبھی دور نہیں ہوگی- امی آپ کو پتہ ہے بغیر باپ کے بچوں کی زندگی کیسے گزرتی ہے- میں ابّو کو کبھی نہیں بھول سکتا- ان کی کمی میری زندگی میں ہمیشہ رہے گی- ماریہ مجھ سے، آپ سے اور اقصیٰ سے اتنی مانوس ہوگئی ہے کہ ہم لوگوں سے جدائی اس پر مزید ایک ظلم ہوگا"-

حمزہ کے فیصلے پر ماں نے کوئی حجت نہیں کی- اگلے روز وہ اقصیٰ کے ساتھ شازیہ کے گھر گئی اور اس کے رشتے کی بات کی- شازیہ کے گھر والے بھی یہ ہی چاہتے تھے کہ اس کا دوبارہ گھر بس جائے اس لیے انہوں نے ہاں کرنے میں دیر نہیں لگائی-

سب سے زیادہ حیران شازیہ تھی- اسے اچھی طرح یاد تھا کہ حمزہ نے کبھی اس کو نہیں دیکھا تھا بات کرنا تو دور کی بات- اس کے علاوہ وہ ایک طلاق یافتہ عورت تھی جس نے گھر والوں کی مرضی کے بغیر شادی کی تھی اور طلاق کی شکل میں اس کی سزا بھی پا لی تھی- اس نے سوچا کہ حمزہ کے اتنے بڑے فیصلے کا سبب ماریہ ہی تھی- جس طرح ماریہ حمزہ کے بنا نہیں رہ سکتی تھی، ویسے ہی حمزہ اس کے بغیر نہیں رہ سکتا تھا- یہ سوچ کر اس کا دل بھر آیا کہ اس سارے معاملے میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے- مگر پھر یہ سوچ کر اس نے دل کو تسلی دی کہ غلط فیصلے کرنے کی سزا تو ملتی ہی ہے، اسے بھی ملی- لیکن وہ خوش تھی کہ اب اس کی بیٹی محروموں کی طرح زندگی نہیں گزارے گی- اسے ایک محبّت کرنے والا باپ جیسا شخص مل جائے گا-

شادی بڑی سادگی سے ہوئی تھی- رات گیارہ بجے حمزہ ماریہ کے ساتھ مسکراتے ہوۓ السلام و علیکم کہتا ہوا کمرے میں داخل ہوا- اسے دلہن بنا دیکھ کر ایک لمحے کو تو ماریہ ٹھٹکی مگر پھر اسے نظر انداز کرکے وہ حمزہ کی طرف مڑی اور کہا "حمزہ- آئس کریم"-

حمزہ نے ہنس کر شازیہ سے کہا "میڈم- ڈریس چینج کر لو- ہم آئس کریم کھانے چل رہے ہیں"-

تھوڑی دیر بعد حمزہ، اقصیٰ، ماریہ اور شازیہ گاڑی میں بیٹھ کر گھر سے نکل رہے تھے- شازیہ پیچھے بیٹھی ہوئی تھی- اس نے حمزہ کو دیکھا- اس کے چہرے پر پھیلی معصومیت اور بھولا پن دیکھ کر وہ سوچنے لگی کہ اگر انسانی روپ میں فرشتہ آجائے تو وہ بالکل حمزہ جیسا ہوگا- وہ اپنے دل میں بہت خوشی اور اطمینان محسوس کر رہی تھی- اس نے دل ہی دل میں حمزہ سے کہا "حمزہ میں بہت بری ہوں، کاش آپ مجھے پہلے مل گئے ہوتے- یہ میرا عہد ہے کہ میں آپ کی اتنی خدمت کروں گی اور ایسا بن کر دکھاؤں گی کہ ایک روز ماریہ جتنا پیار آپ مجھ سے بھی کرنے لگیں گے"-

(ختم شد)

Mukhtar Ahmad
About the Author: Mukhtar Ahmad Read More Articles by Mukhtar Ahmad: 70 Articles with 121919 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.