تحریر: میمونہ رحمت
’’عشا کہاں ہو؟‘‘ مہزل نے عشا کو ڈھونڈتے ہوئے آواز لگائی اور برزہ کے کمرے
کے جانب بڑھی ۔ دونوں کی ماموں زاد بہن برزہ جو کہ ان کی بہترین دوست بھی
تھی، اس کا آج نکاح تھا اور یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ دونوں نہ آتیں۔ مجھے تم
سے محبت ہے اگر ۔۔۔ کمرے میں داخل ہوتے ہوئے اس نے عشا کے گنگنانے کی آواز
سنی تو آنکھیں پھاڑ کر اسے دیکھا۔ وہ جو آئینے کے سامنے کھڑی اپنا حجاب
ٹھیک کر رہی تھی مڑ کر دیکھا اور۔۔ اگر ایماں کو تم چاہو۔۔ کہہ کے مصرع
مکمل کردیا ۔ ایمان والا ہونے کے ساتھ ساتھ صوم و صلوت کا پابند اور جہیز
کے تو بالکل خلاف وغیرہ وغیرہ۔۔ نہ میری عشا بہن ایسا نہیں ہوتا، اب یہ
برزہ ہی کی جہیز ڈیمانڈ لسٹ دیکھ لو اے سی تک ان لوگوں نے لسٹ میں لکھوایا
ہوا تھا۔ مہزل معا شرے کی تلخ حقیقت بیان کر رہی تھی۔ مگر وہ تو عشا تھی
یقین سے بھرپور۔
اففف۔۔ ایک تو ہمارا یہ دوست عقبی بھی نہ۔۔ کنوارا ہی مرے گا۔ اس کا کوئی
ارادہ نہیں ہمیں اپنی شادی کی مٹھائی کھلانے کا۔ عقبی اس وقت دوستوں کے
جھرمٹ میں گھرا ہوا تھا اور وہ سب اسے سمجھانے کی بے کار کوشش کر رہے تھے۔
ہاں نا اچھی بھلی جاب اور اب نہیں گھر بسائے گا تو بھلا بوڑھا ہو کر ہاتھ
میں چھڑی تھامے بسائے گا۔ دوست اور لقمہ نہ دے یہ تو ہو ہی نہیں سکتا تھا۔
اوہ ہاں وہ جو انصاری صاحب جناب کو داماد بنانا چاہتے تھے وہ رشتہ بھی اس
نے ہاتھوں سے گنوادیا۔ صرف سادگی کا رونا ڈال کے، کیا تھا اگر ان کی شرائط
مان جاتا۔ یہی چاہتے تھے نا وہ دھوم دھام سے رسومات سے بھرپور شادی۔ بھئی
شادی تو زندگی میں ایک بار ہوتی ہے روز روز کہاں ہوتی ہے بھلا۔ دوستوں کے
نان سٹاپ تبصرے جاری تھے۔ مگر وہ عقبی تھا اپنی زندگی کہ ہرقدم پر اسوہ
حسنہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پر چلنے کی کوشش میں مگن اور اس بات سے بے خبر
کہ اس کے لیے عشا کی صورت میں بہترین جوڑ لکھا جا چکا تھا۔ |