زندگی پا جاتا

‎اس دنیا کے جہاں ایک فرقے کا فرد دوسرے فرقے سے نکاح نہیں کر سکتا اگر کرے تو تمام عمر ذلیل ہو گا۔۔ایک ایسی دنیا جہاں نام نہاد شرفاء وقت گزاری کے لیے دوسروں پر تنقید تو کر سکتے ہیں مگر خود تنقید کا نشانہ بننے سے ڈرتے ہیں۔۔ ایسا معاشرہ جس میں کسی ایک کا دکھ صرف اسی کا دکھ ہے دوسروں کو اس سے کوئی سروکار نہیں جہاں لوگ زخم کرید تو سکتے ہیں مگر دکھ بانٹ نہیں سکتے ختم نہیں کر سکتے۔۔ ایسا مذہبی معاشرہ جہاں طلاق یا بیوگی کے بعد عورت کا دوسری شادی کرلینا نا پسندیدہ ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں عورت سراسر مظلوم ہے اور مرد فقط حوس کا پجاری!۔۔ایسا معاشرہ جہاں رونا صرف صنفِ نازک سے منسوب کر دیا گیا ہے مرد چاہ کر بھی رو نہیں سکتا۔۔۔ ایسا معاشرہ جس میں مرد کے جذبات اور احساسات کی کوئی جگہ نہیں۔

‎اس کے ہمسائے میں رہتا تھا وہ، آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا جب اسے پہلی بار جمیلہ سے محبت ہوئی مگر کہہ نہ پایا شاید اس لئے کہ ابھی عمر نہ تھی ان باتوں کی۔

‎دن گزرتے گئے اور کچھ عرصے بعد وہ دوسرے شہر منتقل ہو گیا، گھریلو حالات کے تحت میٹرک کے بعد پڑھائی چھوڑی اور کام کے لئے ملک بدر ہو گیا۔ جاپان جاتے ہی اسے اچھی نوکری مل گئی کچھ دیر لگی مگر سیٹ بھی ہو گیا۔ اچھے دوست بھی مل گئے جو مختلف قومیتیں رکھتے تھے۔ دن اچھے گزر رہے تھے، زندگی نارمل گزر رہی تھی پھر اہسا ہوا کہ اسے ایک اور محبت ہو گئی۔ اس بار علی نے دیر کیے بغیر اعتراف محبت کر لیا مگر قسمت میں شاید دھوکہ لکھا تھا۔

‎کچھ دن سوگ منانے کے بعد زندگی تو نارمل ہو گئی تھی مگر علی کو وہ پہلی محبت یاد آنے لگی، علی نے اس خیال کو جھٹکنے کی بہت کوشش کی مگر دل تھا کہ مانتا ہی نہ تھا۔

‎کچھ کوششوں کے بعد پاکستان کے ایک دوست کی مدد سے علی کو جمیلہ کا نمبر مل گیا اور علی نے سوچا کیوں نہ ایک بار پھر محبت آزمائی جائے اور یہی وہ وقت تھا جب علی نے خود اپنے ہاتھوں اپنی بربادی چنی!

‎رسمی گفتگو شروع ہوئی اور کچھ دنوں بعد تکلف بھی ختم ہو گیا۔ جمیلہ اچھی طرح جانتی تھی کہ ان دونوں کا ایک ہونا بالکل ناممکن ہے، ذات پات، رنگ و نسل کی شدت پسندی کے درمیان یہ ہرگز ممکن نہ تھا کہ جمیلہ اور علی نکاح کے بندھن میں بندھ پاتے۔یہ سب جانتے ہوئے اور یہ بھی جانتے ہوئے کہ وہ خود کسی دوسرے کو پسند کرتی ہے،جمیلہ نے اسے امید دلائی اور علی سہانے خواب دیکھنے لگا۔ اس کے ساتھ کعبہ کا طواف کرنے سے لے کر جنت میں اس کے ساتھ گھومنے تک کے خواب دیکھ چکا تھا علی۔ اب محبت محبت نہ رہی تھی، جمیلہ کا عشق اب لہو بن کر علی کی رگوں میں دوڑ رہا تھا۔ دوسری طرف جمیلہ کے لیے یہ محظ ایک آپشن تھا، ہو گیا تو ٹھیک ورنہ اپنا محبوب تو یہیں ہے۔اور یہ کیا کم تھا کہ جمیلہ کو اسے سننے والا کوئی مل گیا تھا۔ جمیلہ کے لیے جو وقت گزاری تھی وہی علی کے لیے زندگی کا مقصد بن گئی۔ جمیلہ کی خاطر علی اپنے رب کے بہت قریب ہو گیا۔۔۔اسکے بغیر زندگی گزارنے کا تصور بھی علی کی گھٹن کا باعث بنتا۔۔جمیلہ جانے انجانے میں مکمل طور پر اسے اپنی عادت ڈال چکی تھی۔۔۔جمیلہ کے بغیر علی اب کچھ نہ تھا وہ کھائے، پیئے، سوئے بغیر تو کئی دن گزار سکتا تھا مگر جمیلہ کے بغیر ایک لمحے کا بھی گزرنا اسکے لیے کسی عذاب سے کم نہ تھا۔۔۔اپنے دیوانگی میں گم۔۔۔علی۔۔۔اس بات سے بے خبر تھا۔۔۔کہ۔۔۔اسکا وجود جھوٹ کے حالے میں۔۔گم ہے۔۔۔سب جھوٹ۔۔یہ دنیا جھوٹ۔۔یہ معاشرہ جھوٹ۔۔حقیقت جھوٹ۔۔اور۔۔جمیلہ۔۔۔اسکی محبوبہ بھی ایک جھوٹ ہے۔۔تمام حالات جھوٹ۔۔ہر بات جھوٹی، ہر ہمدردی ہر تسلی جھوٹی۔۔ ہر خوبصورت لمحہ جھوٹ۔ سوائے اسکے اپنے وجود کے، اسکے آس پاس سب جھوٹ ہی تو تھا۔۔۔مذہب سے لے کر رنگ و نسل تک کا جھوٹ، فرقہ واریت میں بٹا ہوا جھوٹ۔۔۔جہاں ہر شخص نے اپنا مذہب خود بنا رکھا ہے۔۔اپنی کمزوریاں پس پردہ کر کے ہر شخص نے کہیں مذہب میں گنجائش چھوڑی ہے اور کہیں کسی معصوم پر مذہب تنگ کیا۔۔۔یہ خودساختہ مذہب تو محض نفس کی تسکین ہے۔ حقیقی مذہب تو محبت ہے۔۔۔عشق ہے۔۔مگر ہاں۔۔۔محبت نام نہاد مذہبوں اور شرفاء کے پیٹ نہیں بھر سکتی افسوس کہ انکی عزتیں صرف محبت کے دم پر قائم نہیں رہ سکتیں!

‎اس جھوٹ کے حصار میں کھڑا علی۔۔جو خود کو خوش نصیب سمجھ کر اپنی قسمت پر ناز کر رہا تھا، سوچ رہا تھا کہ کسی بھی طرح سب کو منا لے گا۔۔اپنی زندگی پا لے گا۔۔ مگر جن سب کو منانا تھا وہ ایک سے تو نہ تھے، وہ تو کئی رنگوں میں بٹی دنیا کے واسی تھے۔۔اس دنیا کے جہاں ایک فرقے کا فرد دوسرے فرقے سے نکاح نہیں کر سکتا اگر کرے تو تمام عمر ذلیل ہو گا۔۔ایک ایسی دنیا جہاں نام نہاد شرفاء وقت گزاری کے لیے دوسروں پر تنقید تو کر سکتے ہیں مگر خود تنقید کا نشانہ بننے سے ڈرتے ہیں۔۔ ایسا معاشرہ جس میں کسی ایک کا دکھ صرف اسی کا دکھ ہے دوسروں کو اس سے کوئی سروکار نہیں جہاں لوگ زخم کرید تو سکتے ہیں مگر دکھ بانٹ نہیں سکتے ختم نہیں کر سکتے۔۔ ایسا مذہبی معاشرہ جہاں طلاق یا بیوگی کے بعد عورت کا دوسری شادی کرلینا نا پسندیدہ ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں عورت سراسر مظلوم ہے اور مرد فقط حوس کا پجاری!۔۔ایسا معاشرہ جہاں رونا صرف صنفِ نازک سے منسوب کر دیا گیا ہے مرد چاہ کر بھی رو نہیں سکتا۔۔۔ ایسا معاشرہ جس میں مرد کے جذبات اور احساسات کی کوئی جگہ نہیں۔۔۔ ایسا معاشرہ جہاں ایک فاحشہ کے لیے سینکڑوں گالیاں موجود ہیں مگر اسکے ہاں جانے والا حاجی صاحب، چوہدری صاحب، رانا صاحب اور بس صاحب ہی ہے۔۔ایسا گھٹیا معاشرہ جہاں ایک نشئی قبرستان جیسی عبرتناک جگہ پر اکیلی جوان لڑکی کو دیکھ کر نظریں جھکا کر رستے سے ہٹ جاتا ہے مگر مذہبی علوم رکھنے والا مولوی مسجد جیسی خوبصورت جگہ میں اپنے کم سن طلبہ کے ساتھ جنسی تشدد کرتے نہیں ڈرتا، جہاں معصوم کلیاں مسلی جاتی ہیں اور میرے اور آپ جیسے شرفاء صرف افسوس کرتے رہ جاتے ہیں۔۔ایسا بیمار معاشرہ جس میں شادی محض جنسی خواہشات کی تکمیل اور نسل بڑھانے کا نام ہے۔۔ ایسا مذہبی معاشرہ جہاں مذہبی آزادی ہوتے ہوئے بھی کوئی اپنی مرضی سے شادی نہیں کر سکتا، جہاں نام نہاد عزت کی بقاء ان معصوموں کے حوالے ہے جو محبت کے سوا کچھ نہیں چاہتے!

‎علی اس حقیقت سے نا آشنا نہ تھا مگر اسے امید تھی کہ وہ آزاد ہے کیونکہ وہ کسی پنجرے میں نہ پیدا ہوا تھا وہ تو آزاد ہی پیدا ہوا تھا۔اسے پوری امید تھی کہ وہ اپنی خوشیاں پا لے گا، زندگی پا لے گا۔ اسی امید کے ساتھ علی نے ہمت جٹائی اور اپنے گھر والوں سے بات کی مگر اسے صاف صاف جواب سنا دیا گیا کیونکہ جمیلہ نہ تو اس کے خاندان سے تھی نہ ہی اسکے فرقے سے، نسل و ذات بھی ایک نہ تھی دونوں کی اس لیے اسے کوئی امید نہ دلائی گئی۔

‎علی نے ٹھان لی کہ وہ کچھ بھی کرے گا مگر جمیلہ کے لیے گھر والوں کو ضرور منائے گا۔ دوسری طرف بے حس جمیلہ نے اسے اپنی محبت سے آگاہ کیا۔۔۔علی کے اعصاب شل ہوئے۔۔کئی منوں کا بوجھ علی کو اپنے سینے پر محسوس ہوا۔۔۔یہ سچ علی کی روح تک کو چیر گیا۔۔ جمیلہ نے جھوٹے آنسو دکھائے، معافی مانگی اور اجازت چاہی۔۔۔شاید یہ محبت تھی یا جمیلہ کے لیے علی کی عقیدت، اس نے کانپتے ہاتھوں اور نم آنکھوں سے اسے جانے دیا۔۔علی نے اسے جانے دیا کیونکہ وہ اسے مقید نہیں کر سکتا تھا اسکی خوشیوں میں رکاوٹ نہیں بن سکتا تھا اسکے خوابوں کے سامنے دیوار بن کر حائل نہیں ہو سکتا تھا اسے الجھنوں میں گھرا ہوا نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔۔ علی تو چاہتا تھا کہ اس کے سارے دکھ اپنے سر لے لے، اسکی ساری پریشانیاں علی سے ٹکرائیں۔۔اور جمیلہ۔۔۔ جاتے جاتے کچھ امید اور بڑھا گئی۔۔جاتے جاتے کہہ گئی کہ وہ علی کے گھر والوں کا انتظار کرے گی۔۔۔اور۔۔۔نصیبوں کے لکھے ہوئے کو قبول کرے گی
‎_وہ خود تو بھنوروں کو لیے گھومتی رہی_
‎_اور اسکو خط میں لکھتی رہی انتظار کر!_

‎مگر علی۔۔۔وہ کیسے کر سکتا تھا یہ۔۔اسکا عشق اسے کیسے اجازت دیتا کہ وہ محبوب کو اسکے محبوب سے جدا کرے۔۔وہ اپنے عشق کی خوشیاں چاہتا تھا۔۔۔علی خود تو دہکتے انگاروں پر لیٹ سکتا تھا مگر اپنے عشق پر دھوپ بھی برداشت نہ کر سکتا تھا۔ دوسری طرف وہ یہ بھی جانتا تھا کہ جمیلہ کسی اور سے محبت کرتی ہے اور جمیلہ کے گھر اور خاندان والے وہ تھے جنہیں محبت سے کوئی سروکار نہیں، کوئی مرے یا جیے۔۔فرق ہی کیا پڑتا ہے۔۔۔ اگر کسی چیز سے فرق پڑتا ہے تو وہ عزت ہے۔۔۔عزت۔۔سچی یا جھوٹی؟۔۔عزت۔۔جو واقعی ہے بھی یا نہیں۔۔ نام نہاد عزت۔ اگر انکا ایک ہونا یہ شرفاء ممکن کر بھی دیتے تو بھی وہ جانتا تھا کہ جمیلہ کے دل میں اس کی پہلی محبت ہمیشہ کہیں نہ کہیں موجود رہے گی!
‎_مجھ سے پہلے بھی تھا عشق کسی اور سے اسے_
‎_ہم اگر ایک بھی ہو جاتے تو ڈھائی ہوتے!_

‎جمیلہ چلی گئی۔۔اپنے پیچھے بربادی چھوڑ کر۔۔۔بربادی! علی کی بربادی۔۔۔علی کی زندگی چلی گئی۔۔وہ زندگی نہ پاسکا۔۔ اب قہقہوں میں نہ کوئی دلچسپی رہی نہ نماز میں کوئی سرور رہا نہ دوستوں میں کوئی دلچسپی رہی۔۔ علی اب بھی زندہ ہے اک مورت کی مانند۔۔اسے جمیلہ سے کوئی بدلہ کوئی جواب نہیں چاہیے شاید اس معاشرے سے بھی۔ وہ اک ایسے طوفان میں کھڑا ہے جہاں اسے تھامنے والا کوئی نہیں اسے سمجھنے والا کوئی نہیں، اور یہ طوفان خاموشی کا طوفان ہے۔ علی کے اندر اب بھی کئی جنگیں چل رہی ہیں، زندہ رہنے کی جنگ چلتے رہنے کی جنگ۔۔۔۔۔جمیلہ اب بھی خوش ہے بہت خوش ہے اپنے محبوب کے ساتھ۔۔کیا خبر۔۔۔کسی روز مکافات عمل آ گھیرے اسے۔۔کیا خبر وہ بھی گزرے اس سے۔۔کیا خبر وہ بھی رو رو کر مرے۔۔۔کیا خبر روز محشر جب نفسا نفسی کا عالم ہو گا تب علی ڈھونڈے جمیلہ کو اس سے اس کے کیے کا جواب طلب کرے اور خدا سے انصاف مانگے۔۔۔مگر۔۔نہیں۔۔علی جمیلہ کو ضرور ڈھونڈے گا مگر کسی جواب کے لیے نہیں۔۔۔وہ انصاف ضرور مانگے گا مگر محبت کے بدلے معاشرے کے لیے کسی سزا کے لیے نہیں۔۔۔ اسے جمیلہ سے بھی جمیلہ چاہیے، خدا سے بھی جمیلہ اور انصاف میں بھی صرف جمیلہ چاہیے۔۔

‎یہ معاشرہ اور جمیلہ اب بھی اپنی مستی میں گم ہیں!کچھ نہیں بدلا۔۔ نام نہاد شرفاء، معاشرہ اور مذہب اب بھی وہیں ہیں۔۔ اب جو پڑھنے جا رہے ہیں آپ، از برائے خدا اسکا مطلب مت نکالیے گا۔ لعنت ہو ایسے خود ساختہ مذہب پر خود ساختہ فرقوں پر، خود ساختہ ذاتوں پر۔۔لعنت ہو نام نہاد عزت پر لعنت ہو جمیلہ پر۔۔۔لعنت ہو ان تمام عناصر پر جن سب نے مل کر علی کی محبت کا گلا گھونٹا۔۔لعنت اس سوچ پر جس نے علی کا عشق اس سے چھینا۔۔۔ لعنت مذہب کی ردو بدل پر۔۔۔لعنت ایسے مذہب پر جسے عشق کا دشمن بنایا گیا، یہاں مذہب اسلام کی بات ہرگز نہیں ہو رہی۔۔بات اس خود ساختہ مذہب کی ہو رہی ہے جس میں نام نہاد مسلمانوں نے خود کو فرقوں میں بانٹ رکھا ہے جہاں مسلمان ہوتے ہوئے بھی دوسرے فرقے کے فرد کو برداشت کرنا مشکل ہے۔بات اس مذہب کی ہو رہی ہے جس کے ماننے والے دوسرے فرقے کے مسلمان کو کافر جانتے ہیں۔۔۔ اسلام تو محبت کا مذہب ہے عشق کا مذہب ہے امن کا مذہب ہے برابری کا مذہب ہے محبت کا دشمن ہرگز نہیں۔۔محبت کے دشمن پر لعنت۔۔ان شرفاء پر لعنت جو نام نہاد عزت کی بقاء کی خاطر معصوم زندگیاں برباد کرتے ہیں۔۔ اس رنگ و نسل، ذات پات پر لعنت جو محبت کی دشمن بنی۔ تمام حالات، ہمدردیوں اور تسلیوں پر لعنت۔۔لعنت ایسی شادی پر جس کا مقصد محض تسکین ہو۔۔لعنت اس سوچ پر جو محبت کی راہ میں رکاوٹ بنے۔۔لعنت جمیلہ اور اس جیسی ددجنوں لڑکیوں پر جو کئی علی برباد کر چکی ہیں۔۔ لعنت ان تمام عناصر پر جو نہ ہوتے تو شاید علی محبت پا جاتا۔۔زندگی پا جاتا!
‎بقلم
‎ امیر ہ شہزاد
 

Shahzad Ali
About the Author: Shahzad Ali Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.