بد دعا یا وہم

منفی سوچ وہ زہر قاتل ہے جو مسلسل سوچنے سے وہم بن جاتا ہے ایک ایسا وہم جو بالآخر حقیقت کا روپ دھار کر دم لیتا ہے۔انسانی نفسیات کی گرہیں کھولتی یہ کہانی

بس کہہ دیا میں نے آپ کو اماں کی بددعا پوری ہو کے رہے گی۔انیلہ نے اپنے شوہر صادق سے بالآخر کہہ ہی دیا۔۔۔دوسری بیٹی کے بعد تو وہ ڈھے سی گئی تھی۔۔ہر پل کانوں میں اماں کی الفاظ گونجتے۔۔۔۔اسے کسی پل چین نا آتا،ہر چیز سے دلچسپی ختم ہو کے رہ گئی تھی۔۔۔زرا زرا سی بات پہ بچیوں کو دھنک کے رکھ دیتی۔۔۔۔وہ دن بدن سائیکو ہوتی جا رہی تھی۔صادق شروع میں تو بیوی کا ساتھ دیتا رہا مگر اب وہ بھی لاتعلق ہوتا جا رہا تھا۔۔

بہت دنوں بعد انیلہ کی کھنکتی آواز سنی تھی۔۔۔ورنہ تو وہ ترس کے رہ گیا تھا۔کبھی تو ہنس کے بولے۔۔خیر تو ہے نیلی۔انیلہ کو وہ شروع دن سے نیلی کہہ کے بلایا کرتا تھا۔۔۔ہاں صادق خیر ہی سمجھو،بس دعا کرنا اماں میرے کال ریسیو کر لیں۔۔۔انیلہ نے بڑی حسرت سے کہا،صادق نے انشاء اللہ کہا ضرور جسے انیلہ سن نا سکی۔۔۔۔

رات گئے صادق گھر لوٹا تو انیلہ اٹوانٹی کھٹوانٹی لیے پڑی تھی۔وہ سمجھ گیا کہ کال ریسیو نہیں کی گئی۔۔۔
امی بس آخری بار معاف کر دیں۔۔اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ کہتی فون بند ہو چکا تھا۔۔۔وہ نئے سرے سے ڈھے گئی،حالانکہ اس بار اس نے چینج نمبر سے کال کی تھی،جو ریسیو بھی کی گئی۔۔۔مگر وہ اپنے مقصد میں ناکام رہی۔۔پچھلے سات سال سے وہ سولی پہ لٹک ہی تھی۔۔۔۔پسند کی شادی اس کے گلے کا پھندہ بن چکی تھی۔۔۔۔جو نا اگلے بنے نا نگلے۔۔۔۔انیلہ نے سات سال پہلے اپنے چچا زاد سے کورٹ میرج کی تھی۔۔جس کے بعد اس کے گھر والوں نے اسے ہمیشہ کے لئے خیر باد کہہ دیا تھا۔۔۔ایک سال تو ہوش ہی نا رہا ۔۔من پسند انسان کا ساتھ انسان کو ایسے ہی دیوانہ بنا دیا کرتا ہے۔۔۔وہ ساتویں آسمان پہ تھی،ہوش تب آیا جب زمین پ پٹخ دی گئی۔۔پہلی بیٹی کی پیدائش کے بعد ہی سسرال تو سسرال جس کے لئے سارا جہاں چھوڑا وہ بھی منہ پھیر گیا۔۔۔پھر دوسری بیٹی پھر تیسری اور چوتھی کے بعد تو جینا اسقدر محال ہو چکا تھا کہ یہ صرف وہی جانتی تھی۔۔۔بیرون ملک مقیم اس کا جیون ساتھی اس سے بات تک نہیں کرتا تھا۔۔۔جرم چار بیٹیوں کی پیدائش تھی۔۔۔جبکہ اسے بیٹا چاہیے تھا۔۔۔۔اماں کی بددعا اسے ہلائے دے رہی تھی وہ چاہتی تھی کہ وہ اسے معاف کر دے تاکہ وہ بیٹے کی ماں بن سکے۔۔۔مگر وہ کال سننے کی روادار نا تھی۔۔۔۔اب تو اسے امید ہی ختم ہو گئی تھی ۔۔اسے لگتا کہ واقعتا وہ سات بیٹیوں کی ماں بنے گی جیسا کہ اماں نے اسے بددعا دی تھی۔۔۔ہر بار بیٹے کی خواہش کرتے کرتے اس کا آنگن بیٹیوں سے بھر چکا تھا۔۔۔بیٹیوں جو چڑیوں کی طرح اس کے آنگن میں مہکتی پھرتیں تھیں اسے ایک آنکھ نا بھاتیں۔۔۔وہ بے چاری سہمی سہمی رہنے لگیں تھیں۔۔۔رحمت تو تھیں ہی یہ رب سوہنے نے فرما دیا تھا زحمت سمجھنے والے یہ بھول گئے تھے کہ اللہ خود کہتا ہے میں بندے کے گمان کے ساتھ ہوں وہ جیسا میرے سے گمان رکھے گے میں ویسا ہی ان سے سلوک روا رکھوں گا۔۔۔اور وہ سچ میں زحمت بن گئی۔۔۔۔بڑی بیٹی ماں کے نقش قدم پر چل نکلی تھی۔۔۔۔اور باقی اول کی منہ پھٹ اور پھوہڑ تھیں۔۔۔۔اس کا وہم سچ میں بدل گیا تھا۔۔۔بددعا میں اثر ہو نا ہو مگر جوبات دماغ اپنے لاشعور میں بٹھا لیتا ہے وہ پوری ہو کے رہتی ہے۔۔۔دماغ میں اتنی طاقت ہے کہ جس بات پہ اسے یقین ہو جاتا ہے وہ اسے کرنے کے ہزاروں راستے ڈھونڈ لیتا ہے۔وہم جو شروع میں منفی سوچ سے شروع ہوتا ہے اتنا طاقت ور عقیدہ کیسے بنتا ہے؟اگر وہ نیورو لیگوسٹک پڑھ لیتی تو ضرور جان لیتی کہ بد دعاؤں سے بھی مہلک انسانی سوچ اور اس کے عقائد ہیں۔سات بیٹیوں کی ماں طلاق کا لیبل لگوا کر دربدر ہو چکی تھی۔

robina shaheen
About the Author: robina shaheen Read More Articles by robina shaheen: 31 Articles with 104013 views I am freelancer and alif kitab writter.mostly writes articles and sometime fiction.I am also editor and founder Qalamkitab blog... View More