پچھلے چند روز سے میڈیا پر کابینہ میں رد وبدل کی خبریں
پوری شدومد کے ساتھ چل رہی ہیں، اکھاڑ پچھاڑ کا سلسلہ پوری تندہی کے ساتھ
جاری ہے، ردوبدل اپنے عروج پر ہے، اگر یہ بات تسلیم بھی کر لی جائے کہ وزیر
خزانہ اسد عمر کی معزولی کی وجہ انکی کارکردگی تھی تو کیا اِس استعفے سے
ملکی معیشت بہتر ہو سکتی ہے؟ کیا روپے کی قدر میں کمی، اسٹاک مارکیٹ میں
مسلسل مندی، کاروباری طبقے کی شکایات، ٹیکس کی کم کلیکشن، بجلی، گیس اور
پٹرول کی بڑھتی قیمتیں، IMF سے ناکام مذاکرات جیسے سب الزامات اسد عمر کے
سر ہو گئے؟ کیا وہ اکیلے اس بدحالی کے ذمہ دار تھے؟ کیا وہ اتنے بااختیار
تھے کہ یہ سب فیصلے خود کر سکیں اور اگر وہ ان سب فیصلوں میں بااختیار نہیں
تھے تو پھر اُنہیں قربانی کا بکرا کیوں بنایا گیا؟ اِس استعفیٰ کی بنیاد
اگر واقعی کارکردگی کو مان لیا جائے تو اسکا مطلب یہ ہے جن سے استعفیٰ نہیں
لیا گیا ان کی کارکردگی لاجواب ہے، تو کیا تسلیم کیا جائے کہ وزیر ریلوے
شیخ رشید کی وزارت کی کارکردگی بہت اچھی جا رہی ہے؟ اس کا کیا یہ بھی مطلب
ہے کہ مراد سعید نے کمیونیکیشن اور پوسٹل سروسز میں وہ کارہائے نمایاں سر
انجام دیئے ہیں جو رہتی دنیا تک امر رہیں گے یا پھر زرتاج گل کی وزارت سے
مکمل اطمینان ہے، یا پھر وزیر دفاع نے اپنی لازوال کارکردگی سے تن تنہا
دشمن ملک کو شکست دے کر اپنی وزارت بچا لی ہے یا پھر فیصل واوڈا نے پانی،
بجلی سمیت منسلک تمام ملکی مسائل حل کر دکھائےہیں، یا پھر شاہ محمود قریشی
نے خارجہ امور میں کوئی بہت اہم سنگ میل طے کرتے ھوئے عالمی منڈی میں ھماری
اشیاء کی مانگ اسقدر بڑھ گئی ھے کہ اندرون ملک موجود ایکسپورٹ کیلئے مال ہی
نہیں بچا، یا پھر وزیر قانون فروغ نسیم نے تمام قانونی گتھیاں سلجھا لی ہیں
اور ملک میں قانون کی عملداری ہو گئی ہے اور انصاف ھر شہری کی دہلیز پر
دستیاب ھے، یا پھر شفقت محمود نے تعلیم کا ایسا لاجواب نظام متعارف کروا
دیا ھے کہ ایجوکیشن مافیا تھر تھر کانپ رھا ھے؟ دیکھا جائے تو ان سب
وزارتوں کا حال بھی عین وہی ہے جو اسد عمر کی وزارت کا تھا۔ پھر قربانی کا
بکرا چند وزارتیں ہی کیوں بنیں، جھرلو ہر طرف کیوں نہیں پھر گیا؟ یہ سوالات
ایسے ہیں جو حکومت کی بے بسی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
کابینہ کے ردوبدل کے تماشے میں دلچسپ امر یہ تھا کہ پوری کابینہ اس تبدیلی
سے بے خبر تھی۔ شیریں مزاری آخری لمحے تک اس خبر کو سوشل میڈیا کی جعلی
خبر سمجھتی رہیں، فواد چوہدری کئی دن اس خبر کی تردید کرتے رہے، اسد عمر
’’ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے‘‘ والا شعر پڑھتے رہے۔ شفقت
محمود ٹی وی پر وزارتوں کی تبدیلی پر کہتے رھے کہ آخر تک مجھے اس تبدیلی
بارے کچھ علم نہیں تھ۔ دیگر اراکین اسمبلی بھی اسے جعلی خبر سے ہی تعبیر
کرتے رہے۔ یہ فیصلہ کب ہوا؟ کس نے کیا؟ کون کون مشاورت میں شامل رہا، اس کے
بارے میں حکومت خاموش ہے۔ وزراء بھی تبصروں سے گریز کر رہے ہیں۔ کیا اس طرح
کے فیصلوں سے پہلے کابینہ کا اجلاس ہونا ضروری نہیں تھا؟ کیا اس اچانک
تبدیلیوں کے فیصلے سے قبل اپنی پارٹی کے منتخب اراکین اسمبلی کو اعتماد میں
لینا ضروری نہیں تھا؟ کیا کسی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کی بھی ضرورت نہیں
تھی؟ کیا وزیراعظم ہاؤس میں اس بارے اجلاس کا ھونا وقت کی اہم ضرورت نہیں
تھی؟ چند دن پہلے جہانگیر ترین ایک دفعہ پھر پی ٹی آئی کے اجلاسوں میں
وارد ہونا شروع ہو گئے تھے۔
ابھی تک کابینہ میں ردو بدل کی خبریں اس تسلسل سے آ رہی ہیں کہ کچھ پتا
نہیں چل رہا کہ کون سی وکٹ گری ہے، کون سا بیٹسمین آؤٹ ہوا ہے اور ابھی کس
نے آؤٹ ھونا ھے۔ وزیروں میں سے کتنے ایسے ہیں جو الیکشن لڑ کر آئے اور
کتنے ایسے ہیں جو پیراشوٹ سے وارد ہوئے؟ کتنے ووٹ کی طاقت کے بل پر اسمبلی
میں براجمان ہیں اور کتنے منظور نظر وزیر مقرر ہوئے ہیں۔ اگر تبدیلی کی
بنیاد کارکردگی کو درست مان بھی لیا جائے تو پھر جن وزراء کرام کے محکموں
میں تبدیلی کی گئی ہے، ان سے کیا آئندہ بہتری کی کیا توقع کی جا سکتی ہے؟
یہ کیسا معیار ھے کہ ایک وزارت میں بری کارگردگی دکھانے کی سزا میں آپ کو
نئی دوسری وزارت سے سرفراز فرما دیاجائے؟ اگر ایک وزیر ایک وزارت میں ناکام
رہا تو وہ دوسری وزارت پر بہترین کارکردگی کا مظاھرہ کیسے کرسکتاھے؟
میڈیا میں گزشتہ سے صدارتی نظام کی بحث چل رہی ہے۔ پارلیمانی نظام کی بے
بسی ثابت کرنیکی کوشش کی جا رہی ھے۔ صدارتی نظام کو نجات دہندہ قرار دیا جا
رہا ہے۔ صدراتی نظام کی خوبیوں اور خامیوں پر ٹاک شوز میں سیر حاصل گفتگو
کی جا رہی ہے۔ دیکھنے میں آرھا ھے کہ بعض ٹاک شوز میں صدارتی نظام کے فوائد
گنوائے جا رہے ہیں۔ ایک شخص کی حکمرانی کے خواص بیان کئے جا رہے ہیں۔ ٹیکنو
کریٹس کی فعالیت کے فضائل گنوائے جا رہے ہیں۔ کابینہ میں اچانک آفت کی طرح
کے ردو بدل کے بعد اب صدارتی نظام جیسی بحث کو ختم ہو جانا چاہئے۔ ہمیں
تسلیم کر لینا چاہئے کہ اب اس ملک میں ٹیکنو کریٹس کی حکومت آچکی ہے،
مشاورت کا معاملہ ختم ہو چکا ہے کیا یہ ذھن نشین کر لینا چاہیئے کہ بغیر
کسی آئینی ترمیم کے صدارتی نظام لاگو ھوچکا؟ |