کچھ عرصہ سےمر وف مذہبی سکالر جناب جاوید احد غامدی صاحب
کے بارے میں کچھ ایسی باتیں لکھی جارہی ہیں جو میں نے ان کے ساتھ اپنے بارہ
سالہ تعلق میں سنی نہ دیکھیں۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے یہ عادت سی بنتی جارہی
ہے کہ کسی بھی ایسے شخص کے بارے میں جس کے خیالات سے ہم اتفاق نہ کرتے ہوں
بغیر تحقیق کے زہر اُگلنا شروع کردیتے ہیں۔ اس زہر کا آغاز ہم اسے یہودی یا
قادیانی یا کافرقرار دینے سےکرتے ہیں ، اس کی باتوں کو سیاق و سباق سے الگ
کرکے جھوٹ کی بنیاد پر اپنا مقدمہ تیار کرتے ہیں اور پھر اُسے لعنتی قرار
دے کر دوبارہ جہالت کی نیند سو جاتے ہیں۔اسلام نے سنی سنائی بات پر بغیر
تحقیق کئے یقین کرلینا اور پھر اسے ایک مصدقہ سچائی کے طور پر دوسروں تک
پہنچانے کو ایک قبیح فعل قرار دیا ہے ۔ لیکن ہم انجام سے بے خبر اپنی '
مسلمانیت' کے زعم میں یہ فعل متواتر کیے جاتے ہیں اور کبھی شرمندہ نہیں
ہوتے۔
غامدی صاحب سے میرا تعلق کسی طور بھی پیر ی مریدی والا نہیں ہے ۔وہ خود بھی
پیر بننے یا مرید بنانےکا کو ئی شوق نہیں رکھتے ۔ ان کا احترام کرنے والے
ان کی سادہ اور با وقار شخصیت اور علمیت سے متاثر ہوتے ہیں۔میرا اُن کے
ساتھ تعلق بھی اسی بنیاد اور پیمانہ پر ہے۔ میں نے گذشتہ دس بارہ برسوں میں
اُن کے ساتھ کئی مرتبہ سفر کیا ہے، بیسیوں مرتبہ کھانا کھایا ہے، کئی مرتبہ
مالی لین دین کیا ہے اور اپنے تزر و تدم سوالوں سے زِچ بھی کیا ہے۔ میں نے
ان تمام معاملات میں اُنہیں انتہائی نفیس، دیانت دار، ہمدرد، عاجز اور تحمل
مزاج پایا ہے۔ میں نے کبھی بھی ان کو کسی بھی سوال پر تُرش رَوی اختیار
کرتے نہیں دیکھا ۔
مجھے یاد ہے کہ جب میں مسلمانوں کے جاہلانہ فتووں، ایک دوسرے کے خلاف نفرت
اور کدورت کے بہیمانہ جذبوں، منافقت اور دنیاوی معاملات میں انتہا درجے کی
بددیانتی دیکھ دیکھ کر تنگ آگیا تو ایک دن جب غامدی صاحب اور میں ملائیشیا
میں ان کے گھر کے قریب دریا کے کنارے سیر کررہے تھے، میں نے کہا: غامدی
صاحب میں ایک عجیب الجھن کا شکار ہوں جس کا اظہار میں کھلے عام نہیں کرسکتا
کیونکہ ایسا کرنے پر فوراً کافر اور واجب القتل قرار پائوں گا۔ کہنے لگے
فرمائے کیا بات ہے؟ میں نے کہا کہ جب میں مسلمانوں میں اخلاقی انحطاط کی
انتہا دیکھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے جیسے اسلام اچھا مذہب نہیں ہے۔ غامدی
صاحب نے فوراً ایک جملہ کہا اور میرا برسوں کا دُکھ اور شک دور کردیا ۔آپ
نے فرمایا: آپ بالکل درست کہتے ہیں ۔اسلام اچھا مذہب نہیں ہے لیکن وہ اسلام
جو شکل بگاڑ کر آپ تک پہنچایا گیا ہے (مراد ہےاسلام کی مسخ شدہ تعلیمات)۔
اصل اسلام کچھ اورہے۔ جب آپ اُسے پڑھیں اور سمجھیں گے تو حقیقت آپ پر واضح
ہوجائے گی کہ حقیقی اسلام ان تمام خامیوں اور کوتاہیوں سے پاک ہے جو آج آپ
کو مسلمانوں میں دکھائی دیتی ہیں۔
ایک دن میں نے عرض کیا کہ غامدی صاحب آپ کے خیالات اس قدر لبرل ہیں کہ عام
مسلمان کو جو جاہل ملاں کے تسلط میں ہے ، ہضم نہیں ہوتے۔ آپ نے کہا : بھئی
میں لبرل نہیں ہوں۔ اسلام خود ایک لبرل مذہب ہے جو تمام عقل سے بعید اورظلم
و استبداد پر مبنی باتوں سے مُبرا ہے۔ غامدی صاحب کے اس ' اسلامی لبرلزم'
کا یہ نتیجہ نکلا کہ وہ طبقہ جو جاہل مولوی سے ہمیشہ یہی سنتا رہا کہ اگر
وضو صحیح طریقہ سے نہیں کرو گے تو تمہارے اعضاء کو تپتے لوہے سے داغ
دیاجائےگا۔ اگر فلاں پیر یا فقیر کے پاس جائو گے تو خدا تمہیں بیٹا دے گا۔
نیل پالش لگا کر نماز پڑھو گی تو تمہاری نماز نہیں ہوگی۔ اگر فلاں آیت کو
اتنی مرتبہ پڑھو گے تو سو حجوں کو ثواب ملے گا وغیرہ وغیرہ، غامدی صاحب سے
سخت ناراض ہوگئے کہ انہوں نے ایسی تمام لغویات کو اسلام کی اصل تعلیمات کے
خلاف قرار دے دیا۔ جبکہ وہ خدا کے بجائے مردہ لوگوں کو پوجنے اور ان سے
اپنی مرادیں پوری کروانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔ دوسرا طبقہ جو عقل
ِسلیم کا حامل تو تھا لیکن راہنمائی کے بغیر ان باتوں کا متبادل یا ان
خرافات کا توڑ نہیں جانتا تھااور مذہب سے دور ہوتا جارہاتھا، غامدی صاحب کے
عقلی دلائل سن کر فوراً ان کی طرف کھینچا چلا آیا کیونکہ ان پر اب خرافات
اور تعلیمات کافرق واضح ہوگیاتھا۔ آج دنیا بھر میں خاص طور پر ترقی یافتہ
ممالک میں غامدی صاحب کو اسلام کا حقیقی ترجمان تسلیم کیا جاتاہے۔
غامدی صاحب پر ایک الزام یہ بھی لگایا جاتا ہے کہ وہ منکر حدیث ہیں۔یہ
الزام بھی وہ طبقہ لگاتاہے جس نے کبھی غامدی صاحب کو خود سنا نہ ان کی
کتابیں خود پڑھیں۔ غامدی صاحب کے لیکچرزاور ان کی کتابوں میں آپ کو بے شمار
احادیث نظر آئیں گی جوانہوں نے اپنے استدلال اور نکتہ نظر کو واضح کرنے کے
لئے پیش کی ہیں ۔ ہاں احادیث کے بارے میں ان کا یہ کہنا ہے کہ صرف اُن
احادیث کو درست مانا جانا چاہیے جو قران کی تعلیمات سے مطابقت رکھتی ہیں۔
انحضرت ﷺسے کسی بات کو منسوب کرنا ایک انتہائی نازک معاملہ ہے۔کسی بھی غلط
بیانی یا سیاق وسباق کے بغیر آپ ﷺ کی بات کو بیان کرنا دین میں فتنہ وفساد
کا باعث بن سکتا ہے۔ جس کی مثالیں ہم صدیوں سے دیکھ رہے ہیں ۔ہر فرقہ اپنے
موقف کو درست ثابت کرنے کے لیےایسی احادیث پیش کردیتاہے جو دوسرے فرقے کی
بیان کردہ احادیث سے متصادم ہوتی ہیں۔ ایسے میں آپ کس کی حدیث کو درست قرار
دیں گے۔ لہذا سب سے بہتر پیمانہ قران کریم ہے۔جو حدیث اس پیمانے پر پورا
اُترے اسے تسلیم کرنے میں کوئی لیت و لعل نہیں ہونی چاہیے۔
اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جس شخص سے کوئی بات منسوب کی جائے اس کا ذمہ دار
وہ شخص قرار نہیں دیا جاسکتا۔ مثلاً میں نے غامدی صاحب کے بارے میں کچھ
باتیں لکھی ہیں۔ میری ان باتوں کی صداقت کی ذمہ داری غامدی صاحب پر عائد
نہیں ہوتی، مجھ پر عائد ہوتی ہے کہ جو میں نےاُن سے سنا وہ میں صحیح طریقہ
سے بیان کر پایا ہوں یانہیں؟ کیا سیاق و سباق سے میں نے وہی نتیجہ اخذ کیا
تھا جو غامدی صاحب کا مقصود تھا؟میرے الفاظ کے چنائو سے غامدی صاحب کی اصل
بات کا مفہوم تو نہیں بدل گیا؟ یہ اور ایسے بہت سے انسانی عوامل ہیں جو ایک
شخص کی بات کو دوسروں تک پہنچانے میں اثر انداز ہوتے ہیں۔ لہذا حدیث کو
بیان کرنے میں یہ دیکھنا ازحد ضروری ہے کہ وہ قرانی تعلیمات سے مطابقت
رکھتی ہے یانہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں دین ِاسلام کو سمجھنے اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنے کی
توفیق عطا فرمائے آمین۔ |