اس کو اچھی طرح رخصت کرنے کے بعد ایک اطمینان کی کیفیت
لیے زندگی زرا تیزی سے آگے بڑھی ، کاروبار اور گھر بار میں دل لگا ، اور
ایک آزادی اور ہلکا ہلکا محسوس کرنے کے ساتھ ساتھ ، پیار کی یاد بھی کہیں
دل میں موجود تھی ۔
ایک خیال سا آیا کہ یہ آزادی ہی رہے ۔ اور کچھ دن ایسے ہی رہیں ۔
آج وہ جلدی واپس آگئ ہے ۔
اس کے آتے ہی وہ آزادی کا خواب چکنا چور ہو گیا جب اس کے چکنے گالوں اور
کاجل والی آنکھوں پر حامد کی نظر پڑی اور سانولی کی آنکھوں نے اسے پھر سے
قید کر دیا ۔
پھر سے اس کے قریب جانے کا شوق اور اس کے کپڑے پہنے کا زوق اس کے اندر
موجود پیار کو بھڑکانے لگا اور اس سے جدا ہونے کا خوف پھر سے دھڑکانے لگا
اور اور اس کے ہوش و حواس کھڑکانے لگا۔
اس نے اپنے آپ کو مشکل سے سنبھالا اور اپنی سوچ کو کھنگالا ، پیار کو خدمت
کے رنگ میں ڈھالا مگر پرانے پیار کی ایک دبی دبی سی آواز آئ
"مجھے کیوں نکالا "
اسی سے ملتی جلتی آواز سیاست میں بھی گونج رہی تھی کی اپنے پرانے ساتھی کو
جس سے معیشت سنبھل نہ پائ اور جس کو ادا کرنا تھا قرض کی پائ پائ جس سے بڑی
خوش فہمیاں اور امیدیں وابستہ تھیں ، اس نے وہ عزت نہ پائ ، نکال دیا گیا
کیونکہ بڑھ گئ ہے مہنگائ اور اب لوگ یاد کرنے لگے ہیں اس کو جس نے کبھی
معیشت کی عزت بڑھائ اور اس کی ہو گئ تھی چند بڑوں سے لڑای اور اب عوام کی
دبی دبی آواز آئ کی پھر
"اسے کیوں نکالا" |