سیرت النبی ﷺ مشعل راہ

تحریر: ناصر محمود بیگ
آج اکیسویں صدی میں جب کہ دنیا کے سب ہی ممالک تیزی سے ترقی کر رہے ہیں مسلم امہ کے ممالک مسلسل بحرانوں کا شکار ہیں اور پستی و ذلت کی بڑھتے جار ہے ہیں حالانکہ ایک وقت تھا جب مسلمان تعلیمی، سائنسی، اقتصادی، تہذیبی، دفاعی الغرض ہر شعبہ زندگی میں تمام اقوام عالم سے آگے تھے۔ ان کی لائبریریاں اور تجربہ گاہیں علم و فن کا مرکز ہوا کرتی تھیں۔ ان کی قوت و شوکت کایہ عالم تھا کہ دنیا کی تمام قومیں ان کے آگے سرنگوں ہوتی تھیں۔ مگرآج امت کی حالت اقبال کے بقول کچھ یوں ہے
تم کو اپنے آباء سے نسبت ہو نہیں سکتی
تم گفتار وہ کردار، تم ثابت وہ سیارہ

اگر ہم اپنے پیارے پیغمبر جناب محمدﷺ کی حیات طیبہ کے مکی اور مدنی ادوار کا بغور مطالعہ کریں تو آپ ﷺ کی زندگی بھی مختلف مشکلات اور بحرانوں سے گھری ہوئی نظر آتی ہے۔ مگر آپﷺ ان چیلنجز سے جس طرح نبر د آزما ہوئے یہ موجودہ حالات کے تناظر میں امت کے لیے ایک روشن راستہ ہے۔ جس پر چل کر آج بھی یہ امت اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرسکتی ہے۔ سیر تِ طیبہ کے چند روشن پہلو پیش خدمت ہیں جن کوہم بحیثیت امت مشعلِ راہ بنا کران مسائل کو حل کرسکتے ہیں۔

نبیﷺ بحیثیت معلم انسانیت: رسول اﷲﷺ نے فرمایا، ’’بے شک مجھے معلم بنا کر بھیجا گیاہے‘‘۔ اگر ہم آپ ﷺ کی سیر ت طیبہ کا مطالعہ کریں تو آپﷺ نے پانچ بنیادی اقدار کی تعلیم دی۔ اخلاص: دل کی پاکیزگی اور مثبت، تعمیری سوچ۔ صدق: انسان کا قول وفعل میں سچاہونا۔ امانت: معاملات ِزندگی میں دیانت داری۔ ایثار: قربانی دینے کا جذبہ۔ شکر: اپنے رب اور دوسرے انسانوں کا شکر گزار ہونا۔ اسلامی معاشروں کے زوال کا کا ایک سبب ان اخلاقی اقدارکی پامالی بھی ہے اقوام ِعالم نے ہمارے نبیﷺ کی انہی تعلیمات پر عمل کرکے عروج حاصل کیا۔

نبیﷺ بحیثیت ماہر ِمعاشیات: نبی کریمﷺ کی ہجرت مدینہ سے قبل یہی وہ یثرب تھا جس کی معیشیت پر یہود چھائے ہوئے تھے۔ رسول اﷲﷺ کی پالیسیوں ںکی برکت سے یہود کی معیشیت رفتہ رفتہ کمزور ہوتی چلی گئی حتیٰ کہ وہ یہیں سے نکال دیے گئے۔ رسول اکرمﷺ کی ان پالیسیوں کا مختصر جائزہ ملا حظہ فرمائیں جن کو اپنا کر امت محمد یہﷺ آج بھی معاشی مسائل حل کرسکتی ہے۔ مہاجرین اور انصار کے مابین بھائی چارہ قائم کرکے آپﷺ نے رنگ، نسل اور وطن کی قید سے آزادمعاشی نظام کی راہ دکھائی۔ 2 ہجری میں زکوۃ ٰاور صدقات کا نظام قائم کیا اور دولت صرف امیروں تک محدود نہ رہی بلکہ غریبوں اور مساکین وغیرہ میں تقسیم ہونے لگی۔ اس دوران آپﷺ نے مسلمانوں کو صداقت، امانت و دیانت کے اسباق کے ساتھ کاروبار کے وہ گر سکھائے جس میں کسی کی حق تلفی نہ ہو۔

نبیﷺ بحیثیت حکمران: تاجدارمدینہﷺ نے اپنے دور حکمرانی میں چند اصول و ضوابط وضع کیے جن پرعمل کرکے ہمارے حکمران آج بھی امت مسلمہ کے زخموں پر مرہم رکھ سکتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا، ’’میری امت کے کسی بھی معاملے کا جو نگران ہے اگر عوام پر وہ سختی کرے تو اے اﷲ تو بھی اس پر سختی کر اور اگر وہ عوام پر نرمی کرے تو اﷲ تو بھی اس پر نرمی فرما‘‘۔ (بخاری:2804) غزوہ احزاب کے موقع پر اپنے ہاتھوں نے خندق کھودکر آپﷺ نے اربابِ اختیار کو سبق دیا کہ مشکلات میں اسباب کو اختیا رکرنا، حکمت عملی کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کرنا اورحو صلہ بلند رکھنا شیوہ پیغمبری ہے۔ آپﷺ نے اپنے دور حکومت کے آغاز میں ہی سفارتی ادارہ کو منظم کی اور روم و فارس جیسی عظیم سپرپا ورز کے بادشاہوں تک اسلام کا پیغام پہنچایا جو کہ آج مسلم ممالک کی خارجہ پالیسی کا حصہ ہونا چاہیے۔ (سیرت النبیﷺ:شبلی: ج؛۱)

نبیﷺ بحیثیت داعی و مبلغ: اﷲ کریم نے اپنے محبوبﷺ سے فرمایا، ’’(اے نبیﷺ)اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اور ان سے بحث کرواس طریقہ سے جو بہترین ہو۔ (النمل:125) اور پھر جس خوبصورت انداز میں آپﷺ نے دین حق کی دعوت اقوام عالم کے سامنے رکھی اس کو اپنا کر آج بھی داعیانِ اسلام اپنے دین کا بہتر تشخص دنیا کے سامنے پیش کرسکتے ہیں۔

نبیﷺ بحیثیت رہبر و رہنما: اعلان نبوت سے پہلے حجرا سود کی تنصیب پر مکہ کے مختلف قبائل کے درمیان کشمکش اور تصادم کی فضاپیدا ہوگئی۔ ایسے نازک وقت میں رسول اﷲﷺ نے ایک سیاسی قائدبن کردانشمندانہ فیصلہ کیا اور ایک چادر میں حجراسودر کھ کر تمام قبائل کے سرداروں سے وہ چادر اٹھوائی اور اس طرح وہ بحران ٹل گیا۔ اب زخموں سے چور اور ٹکڑوں میں بٹی امت کے سیاسی اورمذہبی قائدین کواس حسن کردار کو اپنا نے کی ضرورت ہے۔

نبیﷺ بحیثیت سپہ سالار: ایک جنگی معرکے میں اسامہ بن زیدؓ نے ایک ایسے شخص کو قتل کردیا جس نے آخری وقت میں کلمہ پڑھ لیا تھا۔ اس پر آپﷺ غصے میں آگئے اور فرمایا، ’’کیا تم نے اس کا دل چیرکر دیکھ لیا تھا کہ اس نے اخلاص سے کلمہ پڑھا تھا یا اپنی جان بچانے کے لیے پڑھا تھا‘‘۔ (بخاری :4019) ایک طرف پیارے آقاﷺ کی کلمہ گو مسلمان کے بارے اتنی احتیاط اوردوسری طرف ہم آج کے مسلمان کسی قدر دلیر ہوگئے ہیں کہ بہت جلد مسلمانوں کواسلام سے خارج کرکے تہہ تیغ کر نے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ ہمیں ان رویوں کو بدلنا ہوگا۔

آج امتِ مسلمہ جن مسائل سے دو چار ہے ان کے حل کے لیے سرور کونینﷺ کی سیرت مبارکہ کے علمی، اخلاقی، ابلاغی، معاشی، سیاسی اور عسکری پہلووں سے رہنمائی لینے کی ضرورت ہے وگرنہ اسلامی انقلاب کی تمام ترکوششیں مجلسوں، احتجاجوں، ریلیوں، کانفرنسوں اور تحریروں تک ہی محدود رہیں گی اورآنے والا ہر نیا سال اس امت کو زوال کی طرف ہانک رہا ہوگا۔

 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1028621 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.