مسلم امہ کی حالت زار اور رحمت و مغفرت کی شب درخشاں ’’شب برات‘‘

دشمنوں کے تباہ کن کلچر کو اپنا کر اپنے اسلامی ورثے کو فراموش کرنا دانشمندی نہیں

ہر سال ایک شب آتی ہے۔ جس کے دامن میں نیکیوں کا بسیرا ہوتا ہے۔ جس رات عبادت و طاعت کی بزم سجتی ہے۔ خیالات کی بنجر وادیاں نیکیوں کی بارانِ رحمت سے ہری بھری ہو جاتی ہیں۔صالح و نافع اعمال کے دریا بہنے لگتے ہیں۔ گُلِ ہزارہ کھل اُٹھتے ہیں۔ ایسی شبِ تابندہ جس کے وجود سے صبحِ تابندہ نمودار ہوتی ہے۔ اندھیریاں چھَٹ جاتی ہیں۔عزم و یقیں کے ہزاروں دیے جَل اُٹھتے ہیں۔ اس شب کو عرفِ عام میں ’’شبِ براء ت‘‘ کہا جاتا ہے۔

توشۂ رحمت:
شب برات میں عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ لوگ توبہ کی طرف زیادہ مائل ہوتے ہیں اور اپنے اعمال کی اصلاح کی سمت متوجہ ہوتے ہیں۔ جب کہ ان لوگوں کو بھی تائب پایا گیا جن پر کوئی اچھی بات اثر نہیں کرتی؛ یا جنھیں اصلاحی پیغام عزیز نہیں ہوتے۔ گویا یہ بھی شب براء ت کا انعام ہی ہے کہ؛ رحمتِ الٰہی سے دامن مراد بھرنے کے لیے یاسیت کے اندھیروں میں بھٹکنے والے بھی طاعت و نیکی کی سمت متوجہ ہوتے ہیں۔ اپنے باطن کو نکھارنے اور سنوارنے کی فکر و کوشش کرتے ہیں۔ بڑے بڑے پروگراموں اور جدوجہد یا اجتماعات سے دلوں کی دُنیا میں انقلاب نہیں آتا؛ لیکن یہ کیسی عظیم شب ہے کہ ایک شب کی تابشیں منحرف دلوں کو بھی رحمت الٰہی کی سمت مائل کر دیتی ہیں اور مدتوں کی پیاسی زمیں سیراب ہو جاتی ہے۔یہ رحمت کی شب ہے۔ یہ برکت کی شب ہے۔ گناہوں سے معافی اور براء ت کی شب ہے۔ اس کے دامن سے حیات کی نئی صبح طلوع ہوتی ہے۔جس کی روشنی میں باطن نہایا ہوا ہوتا ہے۔ کاش! اس کی کیفیات کا ادراک پورے سال کیا جاتا تو معاشرے کا حلیہ ہی بدل جاتا۔اعمال کے نافع پہلو برقرار رکھے جاتے؛ گناہوں سے دامن بچا رہتا، شب براء ت کی تبدیلی پورے برس قائم رکھی جاتی تو پورا معاشرہ پاک و ستھرا رہتا۔

موجودہ حالات کا تقاضا:
عہد حاضر میں گناہوں کی سمت طبیعتیں تیزی سے مائل ہو رہی ہیں۔ مغربی مشنریاں اور اسلام دُشمن قوتوں نے مسلمانوں کو اسلامی تعلیمات سے منحرف کرنے کے سامان تیار کر رکھے ہیں۔ قوم غفلت کا شکار ہے۔ ساری دنیا میں مسلمانوں کا لہو پانی سے سستا ہو چکا ہے۔ مارے جا رہے ہیں۔ تباہ کیے جا رہے ہیں۔ ختم کیے جا رہے ہیں۔ تہذیبی و تمدنی لحاظ سے بھی مٹائے جا رہے ہیں۔ اس کے باوجود ہوش میں نہیں آتے۔ بیدار نہیں ہوتے۔ جن تہذیبوں کی اسلام پر یلغار ہے؛ انھیں کے فرسودہ و تباہ کن کلچر کو اپنا کر اپنے اسلامی ورثے کو فراموش کیے دیتے ہیں۔ شب براء ت یہ عہد کریں کہ اب ہم صرف اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جئیں گے۔ اسلامی احکام کے مطابق معاشرے کو ڈھالیں گے۔ ہر فرد خود اپنی اصلاح کا عہد کر لے تو پورا معاشرہ سدھر جائے گا۔ انفرادی تبدیلی پوری قوم کی تبدیلی کی تمہید ثابت ہو گی۔ اس لیے عہد حاصرکا یہ تقاضا ہے کہ ایک شب کی توبہ پوری زندگی کی توبہ بن جائے اس رخ سے سوچیں اور غور کریں۔ ہمیں اپنے دین کی حفاظت کے لیے بیدار ہونا ہے۔اپنی شناخت اور اپنے تہذیبی ورثہ کے تحفظ کے لیے سنجیدہ ہونا ہے۔

شب برا ت رجوع الی اﷲ کی رات ہے تو اس کا وسیع پیمانے پر فائدہ اس طرح اٹھایا جائے کہ اگلی زندگی اسلامی ڈگر پر گزارنے کا پیغام عامۃ المسلمین تک پہنچایا جائے۔ اور یہ صرف فکر سازی سے ہو سکتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ بیداری کا مظاہرہ کریں اور اپنے رب کی بارگاہ میں اپنی اور اپنی قوم کی بھلائی و سربلندی اور سرخروئی کے لیے دعائیں کریں۔ یقین کامل ہے کہ رحمتوں کے بادل امڈیں گے اور موسلا دھار بارش ہوگی، جس کے دھارے گناہوں کے میل دھو دیں گے۔ امیدوں کی سحر نمودار ہو گی۔ یقیں کا اُجالا پھیلے گا۔ اور قوم کو اس کی غفلت سے بیدار ہونے کا موقع بہم ہوگا۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خوابِ غفلت کی چادر تار تار کر دیں۔ اﷲ جل و علا و رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرامین پر عمل کا عزم کریں۔ شکر گزار بندے بنیں۔ اپنے حال سے عبرت پکڑیں۔ اپنی تباہی کا احساس کریں۔ بربادی کا مشاہدہ کریں اور شکر گزار بندے بنیں۔ اعلیٰ حضرت نے بیداری کا یہ پیام سُنایا ہے ؂
دن لَہْو میں کھونا تجھے، شب صبح تک سونا تجھے
شرمِ نبی خوفِ خدا، یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
رزقِ خدا کھایا کیا، فرمانِ حق ٹالا کیا
شکرِ کرم ترسِ سزا، یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
٭٭٭
 

Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 255243 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.