اگربنظر عمیق جائزہ لیا جائے تو یہ بات اظہر من الشمس ہے
کہ تصوارت اقبال محض ملی،فکری،نظری،اور فلسفہ پر مشتمل خیالات کے عکاس ہی
نہیں ہیں۔بلکہ مقصدِ تصورات اقبال میں پنہاں وہ درس ،تعلیم اور ملی تربیت
ان کی اصل روح اور اساس ہیں۔اقبال کے تصورات مسلمانانِ برصغیرکے دل و دماغ
کے صفحہ قرطاس پر اس طرح خامہ فرسائی کرتے ہیں کہ ان پر عمل پیرائی دراصل
نوجوانان مسلم کی خوابیدہ صلاحیتوں کو اجا گر کرنے کے ساتھ ساتھ اس میں
شاہین صفت کا متحمل نوجوان بنا نابھی ہے۔علامہ محمد اقبال اپنے فلسفہ و
افکار میں دراصل انسانیت،خودی و بے خودی،ملت اسلامیہ ،عشق قرآن اور عشق
مصطفی ﷺ کا پرچار کرنے والا ایسا فلاسفر مفکر دکھائی دیتے ہیں جس کا فلسفہ
حیات اطاعت الہی سے شروع ہو کرعشق مصطفی پر جا کر ختم ہو جاتا ہے۔
ہر کہ رمزِ مصطفی فہمیدہ است
شرک را در خوف مضمر دیدہ است
عشق ِ مصطفی کا اظہار اس سے بہتر شائد ہی کسی شاعر،ادیب،صوفی یا مفکر نے
کیا ہو جو علامہ اقبال اپنے خیالات کو شعری پہناوا پہنا کے کیا ہے۔عشق
مصطفی میں کسی اور کا خوف یا خیال ،ایک لمحہ کیلئے بھی آنا اقبال کے نزدیک
شرک کے مترادف ہے۔گویا ذات باری تعالیٰ کی عبادت و ریاضت میں رائی برابر
بھی کسی اور کا خیال آپ کو حلقہ شرک میں داخل کر دیتا ہے تو ایسے ہی عشق
مصطفی میں کسی اور کا خیال لانا بھی اقبال کے ہاں شرک سے کم نہیں۔اقبال تو
خاک یثرب کو بھی دو عالم سے بہتر و مقدس سمجھتے ہیں۔اقبال کے نزدیک خاک
مدینہ دونوں جہانوں سے قیمتی،بابرکت اور آنکھوں کا سرمہ ہے۔
خاک یثرب از دو عالم خوشتر است
آں فلک شہر کہ آنجا دلبر است
اقبال کہتے ہیں کہ مدینہ کی خاک دو عالم سے بڑھ کر ہے،یہ ٹھنڈی ہواؤں کا
شہر ہے،جہاں ہم سب کا دلبر موجود ہے،ایک اور شعر میں علامہ اقبال اپنے دل
کی کیفیت کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانش افرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف
علامہ اقبال خاک مدینہ و یثرب کو اپنی آنکھوں کا سرمہ ایسے ہی بنانے کے لئے
تیار نہیں ہو گئے،یقینا درج ذیل واقعات و احادیث ان کی نظر میں ضرور ہونگے۔
رسول اکرم تحیۃ و التسلیم ﷺ جب بھی سفر سے مدینہ واپس تشریف لاتے اپنی
سواری کو تیز فرما دیتے،چہرہ مبارک بلند فرماتے اور کہتے کہ
’’یہ ہوائیں طیبہ ہیں‘‘
جو گرد و غبار چہرہ انورپر پڑ جاتااسے صاف نہ کرتے ۔آپ ﷺ فرماتے کہ’’اس ذات
کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے مدینہ کی خاک میں شفا ہے‘‘
حضرت مسلمہ ؓ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’مدینہ منورہ کا غبار کوڑھ
کو دور کرتا ہے‘‘
علامہ محمد اقبال تا عمر مدینہ منورہ کے تصوراتی مسافر رہے۔عمر بڑھنے کے
ساتھ ساتھ سوئے مدینہ سفر اور حاضری کی آشیفتگی کو شعری صورت میں مہمیز
لگاتے رہے۔یہ وارفتگی سانس کی ڈور ٹوٹنے تک جاری و ساری رہی۔اپنی تصوراتی
حاضری کا پیام باادب الفاظ میں عرض کرتے رہے کہ حضور ﷺ مجھے اپنے دربار میں
طلب فرما لیجئے،کہ میری روح بے چین،دل مضطرب اور آپ کی یاد کی کسک حاضری کا
تقاضا کرتی ہے۔
اے کہ وادی کرد را سوزِ عرب
بندہ خود را حضور خود طلب
اگرچہ یہ سفر تصوراتی ہے مگر اقبال اس تصوراتی سفر میں بھی ادب و احترام
اور توقیر و تکریم کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے بلکہ تصوراتی عازم سفر میں
جزیات و کل کو لمحہ لمحہ چشمِ قلم سے دیکھتے ہوئے نوکِ قلم کرتے ہوئے ہمنوا
مسافروں کو بھی شہرِ مدینہ کے ادب و آداب اور آپ ﷺ کے حکم کی تعمیل کے
انداز سکھا رہے ہوتے ہیں۔دراصل یہ وہ محفل ہے یہاں مسند نشین ﷺ کی نگاہوں
کا فیض ہر شخص کے لئے جاری و ساری ہے،حکیم ہو کہ کلیم دیدار کی کرنیں ہر
جھولی کا مقدر ٹھہریں گی۔
حکیماں یا کلیماں دوش بر دوش
کہ ایں جا کس نگوید ’’لن ترانی‘‘
اقبال کے خیالات کا قافلہ جب مدینہ مقدس میں جا بسیرا کرتا ہے تو دربار
مصطفی میں علامہ کی عجب کیفیت ہو جاتی ہے ،اقبال چشم ِ تصور سے دیکھتے ہیں
کہ فنا کو دوام بخشا جارہا ہے،اسرارِ حیات منکشف ہو رہے ہیں،بارگاہِ ادب
میں صوفی،فقیر،فلسفی،مبلغ،مورخ،سب جمع ہیں مگر اہل کارواں نہائت ادب سے
اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ جاتے ہیں۔ایسے میں اقبال کے عشق کا شعلہ بھڑک اٹھتا
ہے،اور اقبال زارو قطار رونا شروع کر دیتے ہیں اور ایک عرض کرتے ہیں۔
تو فرمودی رہ بطحا گرفتم
گر نہ جز تو مارا منزلے نیست
اقبال کی ذات میں دراصل عشق مصطفی کا کمال،آنکھوں کا جلال،چہرہ کا جمال،قلب
و نظر کا سکون،خود داری ،ملت اسلامیہ کا درد،نورِ مصطفی اور چشم حبیبﷺ کے
فیضان سے ہے۔اور وہ اس بات کا اقرار اپنے اس شعر میں یوں بیان کرتے ہیں۔
بچشم ِ من نگہ آوردہ تست
فروغ لاالہ آرودہ تست
آقا میری آنکھوں کو آپ نے نگاہ بخشی لاالہ کی تابناکی آپ نے ہی مجھے عطا کی
اور چشمِ کرم کی نورانی کرنوں کی روشنی میری قسمت کا سرمایہ بنا دیا۔اور
اقبال کے نزدیک یہ سب بفیض نگاہ مصطفی ﷺممکن ہوا ہے وگرنہ بندہ خاکی کی کیا
اوقات؟اس طرح کی کیفیات کا اظہار اقبا ل اپنے اشعار میں رو رو کر فرماتے
ہیں۔
دلش نالہ چرا نالہ نداند
نگاہے یا رسول اﷲ نگاہے |