اکیسویں صدی کے ابتدائی دس بارہ برسوں کے اردو ادب کے
تجزیے کا یہ سوال بالعموم اور افسانے کے جائزے کا بالخصوص کئی اعتبار سے
غور طلب اور اہم ہے ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انسانی تاریخ کی یہ صدی اپنی
کیفیت ، رجحان اور آثار کا بالکل الگ نقشہ اپنے اوائل ہی سے ہمارے سامنے
لاتی ہے۔ اس کے ابتدائی برسوں میں رونما ہوئے آج اس حقیقت کو سمجھنا ایسا
دشوار نہیں کہ یہ نقشہ دراصل انھی خواہشوں اور خوابوں کی عملی تعبیر سے
ترتیب پا رہا ہے ۔
ادب کا معاملہ یوں تو افراد ، اشیاء، عناصر اور عوامل کے براہِ راست اظہار
سے نہیں ہوتا، لیکن وہ جو ناول اور افسانہ کی بابت کہا جاتا ہے کہ یہ ایک
سطح پر زندگی نامہ ہوتے ہیں۔ اس رو سے دیکھا جائے تو اس دورانیے کے ادب اور
بالخصوص افسانے کی صورتِ حال ہمیں اس عہد میں انسانی زندگی میں پیدا ہونے
والے ارتعاشات کی نوعیت، کیفیت اور اس عہد کے انسان کے دل و دماغ پر ان کے
اثرات سے آگاہ کر سکتی ہے۔ اس طرح ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ
اکیسویں صدی میں انسانی تہذیب و تمدن کے مظاہر کے عقب میں دراصل کون سے
محرکات کارفرما ہیں۔ اس کے ساتھ ہمیں اس نوع کے مطالعے کے توسط سے یہ بھی
جاننے اور سمجھنے کا موقع مل سکتا ہے کہ نئے انسان کے ذہنی رجحانات اور
اکیسویں صدی کی سماجی اقدار کی تشکیل میں کون سے عناصر کس نوع کا کردار ادا
کر رہے ہیں کہ آج کے انسان کا شعور کن تغیرات سے گزرا ہے اور اس کے احساس
کا منطقہ اب کس حد تک اُس کے تجربات سے روشن ہے، اور یہ بھی کہ شعور و
احساس کے مابین ترسیل و ابلاغ کا عمل اکیسویں صدی کے انسان کی زندگی میں کس
نہج اور کس سطح پر ہو رہا ہے۔
اکیسویں صدی میں اُردو ادب تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ہے جہاں ایک طرف
نت نئی اصناف وقت کی ضرورت کے تحت ہو رہی ہیں تو دوسری طرف پہلے سے موجود
اصناف میں فنی اور فکری سطح پر انقلابی تبدیلیاں دونوں سطحوں پر ہو رہی ہیں
یعنی ادب تخلیق کرنے والے اور ادب پڑھنے والے اس سے براہِ راست متاثر ہو
رہے ہیں ۔ ادب میں نئے نئے تجربات کیے جا رہے ہیں۔ اکیسویں صدی میں اردو
ادب کے انداز اور موضوعات کے تنوع میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے ، جس نے شاعری
، افسانے ناول اور تنقید نگاری میں نئے نئے موضوعات پر طبع آزمائی کی راہ
کھولی ہے۔خاص طور پر سعادت حسن منٹو اور احمد ندیم قاسمی نے معرکۃ الآرا
افسانے تحریر کیے ۔ڈاکٹر احسن فاروقی ، نعیم آوری سے انتظار حسین اور زاہدہ
حنا تک اردو افسانہ کئی جہتیں اختیار کر چکا ہے ۔ اکیسویں صدی کا افسانہ
اور ناول سماجی ناہمواریوں ، معاشرے میں بڑھتے ہوئے نفسیاتی معاملات و
مسائل اور گلوبلائزیشن کی حشر سامانیوں سمیت ان گنت موضوعات کو اپنے اندر
سمیٹ رہا ہے ۔ اکیسویں صدی میں اردو ادب میں عموماً اور افسانوی ادب میں
خصوصاً بڑے پیماے پر تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ ایک نئی نسل جو افسانوی
ادب تخلیق کر رہی ہے ۔ وہ ادب بلاشبہ معیاری ادب تخلیق کر رہی ہے۔
اکیسویں صدی میں جدید افسانوی صورتِ حال کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے
کہ اردو فکشن کے سرمائے میں بنیادی حیثیت مختصر افسانے اور ناول کو حاصل
رہی ہے ۔ اس لحاظ سے اردو فکشن نے اب تک تقریباً ڈیڑھ صدی کا لمبا سفر طے
کیا ہے اور اس ایک سو پچاس سالہ دور میں اردو افسانوی ادب میں فنی، فکری
اور موضوعاتی سطح پر بہت وسعت ہوئی ہے۔
اکیسویں صدی کا زمانہ نئی تلاش اور نئی بصیرت کا منظر نامہ سامنے لاتا ہے
جسے اردو فکشن کا خوب صورت دور کہا جاتا ہے ۔ اکیسویں صدی میں افسانوی ادب
نے غیر ضروری اور نامانوس علامتوں سے دامن چھڑا کر ایک نئے تیور کے ساتھ
زندگی کا ہاتھ تھاما ۔ انتظار حسین، قاضی عبدالستار ، الیاس احمد گدی، شفیع
جاوید ، احمد یوسف، نیر مسعود ، عبداﷲ حسین، عابد سہیل، مستنصر حسین تارڑ،
اقبال مجید، بانو قدسیہ، اشفاق احمد، حسین الحق ، مشتاق احمد نوری، شموئل
احمد، شوکت حیات، صلاح الدین پرویز، جوگندر پال، مشرف عالم ذوقی، ترنم
ریاض، قاسم خورشید، مظہر الزماں خاں، عمیرہ احمد، اے حمید، بلراج بخشی،
ابنِ صفی، خاقان ساجد، ابوالفضل صدیقی، احمد داؤد، احمد ندیم قاسمی، انیس
ناگی، رضیہ بٹ، غلام الثقلین نقوی، فاطمہ ثریا بجیا، غلام عباس، حاجرہ
مسرور، محمد منشا یاد، ممتاز مفتی، مرزا حامد بیگ، علی اختر، گلزار ملک اور
اخلاق حیدرآبادی جیسے بہت سارے افسانہ نگاروں اور ناول نگاروں نے فکشن کی
حسیت میں تبدیلی لانے کی شعوری کوشش کی۔ ان سب نے مل کر تھیم، ہیئت اور
محاورہ کا ایک بڑا حلقہ پیدا کیا۔ عالمی ادب میں افسانے کی پیش رفت اور اس
کے تخلیقی امکانات کی توثیق سے ان کی ادبی حیثیت مسلّم ہو گئی۔
اکیسویں صدی میں مختصر افسانہ لکھنے والوں میں ایک معروف نام اخلاق
حیدرآبادی کا بھی ہے، جنھوں نے مختصر افسانے کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھال
پر پیش کیا۔ پریم چند نے ’’حبِ وطن‘‘ کے مختصر دیباچہ میں تصور ادب کے بارے
میں کہاہے:
’’ہر ایک قوم کا علم ادب اپنے زمانے کی سچی تصویر ہوتا ہے جو خیالات قوم کے
دماغوں کو متحرک کرتے ہیں اور جذبات قوم کے دلوں میں گونجتے ہیں۔ وہ نظم و
نثر کے صفحوں میں ایسی صفائی سے نظر آتے ہیں جیسے آئینے کی صورت۔‘‘(۱)
ان کے افسانوں میں ہندی الفاظ اور ہندوستانی معاشرہ کی بھی منظر کشی ہے۔
بحیثیت افسانہ نگار پریم چند سے متاثر نظر آتے ہیں کیونکہ اُن کا موضوع بھی
عام آدمی اس کی زندگی، تجربات اور حقیقت ہے۔ اخلاق حیدرآبادی کے افسانوی
مجموعہ ’’ادھوری تحریر‘‘ کے دیباچہ میں ڈاکٹر انوار احمد رقم طراز ہیں:
’’اخلاق حیدرآبادی کی معصومیت ، انسان دوستی اور بخیہ گری کا میں دل سے
قائل ہوں ، اس لیے انھیں بہت اچھے انسانوں میں شمار کرتا ہوں، بلکہ وہ کسی
خانقاہ کے کبوتر کی طرح پاکیزہ اور جان لیوا شکل کے روبرو خود سپردگی کے
عالم میں دکھائی دیتے ہیں، مگر ایسا معصوم اور اُجالا رہنے پر مصر شخص
افسانہ بھی لکھ سکتا ہے ، چاہے اس نے پردیس کا کشٹ کاٹا ہو ، مختلف مزاج کے
لوگ دیکھے ہوں اور اپنے تخیل کے روزن کو مشاہدہ خیال کیا ہو، یہ میرے لیے
کسی قدر تعجب آمیز تھا ، میں نے اُن کے افسانے پڑھے اور اُن سے زیادہ تر
تخلیقات کے تجربے اور تاثیر نے اس کتاب کو غیر معمولی بنا دیا ہے۔‘‘(۲)
ادب کی کسوٹی پر وہی ادب کھرا اترتا ہے جس میں تفکر ہو، آزادی کا جذبہ ہو،
حُسن کا جوہر اور تعمیر کی روح ہو، زندگی کی حقیقتوں سے نظریں چرانے کے
بجائے اس کا سامنا کرائے۔
اخلاق حیدرآبادی نے اپنے افسانوں میں اکیسویں صدی کے سیاسی، تہذیبی اور
سماجی رجحانات کو سامنے رکھتے ہوئے لکھے ہیں۔ کیوں کہ اکیسویں صدی کا آغاز
ہی دہشت ، بربریت اور جنگ و جدل سے ہوا ہے۔ تاہم اس حقیقت کو فراموش نہیں
کیا جاتا کہ افراد کی طرح ادوار یا زمانے بھی Isolationمیں ظہور نہیں کرتے
اور نہ ہی ان میں رونما ہونے والی تبدیلیاں آناً فاناً یا شب آفریدہ ہوتی
ہیں۔ افراد کے رویّوں کی طرح زمانے کا مزاج بھی مختلف عوامل کے زیرِ اثر
تبدیلی کو ظاہر کرتا ہے۔ اخلاق حیدرآبادی نے ان تمام صورتِ حال کو مدِ نظر
رکھتے ہوئے اپنے افسانوں میں زندگی کی بھرپور عکاسی دکھائی ہے۔ ان کے
افسانوی مجموعہ کا نام ’’ادھوری تحریر‘‘ ہے۔ان کے بیشترافسانوں کا موضوع
’’عورت‘‘ ہے۔ عورت اور اس سے جڑے معاشی مسائل اور ضروریات اس کی کمزوریاں
اور ہمت بھی اُن کے افسانوں کا موضوع ہے۔
اخلاق حیدرآبادی نے اپنے افسانوں میں کرداروں کی نفسیات اور واقعات کے
معاشرتی پس منظر کو ایک لمحے کے لیے نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیا۔ ایک
پرمقصد سوچ کے ساتھ زندگی کو بامعنی بنانے اور اُسے سہل بنانے کی خواہش بھی
رکھی۔ اکیسویں صدی کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کے افسانوں میں
معاشرتی اُلجھن، تضاد اور معاشرتی مسائل نمایاں ہیں۔ اُن کو زندگی کا
افسانہ نگار کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ ان کے افسانے زندگی کے ترجمان ہیں
۔ ان تمام افسانوں میں معاشرتی مسائل اور معاشرہ بدرجہ اتم موجود ہے۔
اخلاق حیدرآبادی نے اخلاق کے معیاروں ، معاشرتی اُلجھنوں ، اقتصادی
ناہمواریوں، نفسیاتی کیفیتوں اور تہذیبی اقدار کا بہت قریب سے مشاہدہ کیا
ہے اور اس نظریے کو کہیں بھی خود احتسابی کی نظر سے اوجھل نہیں ہونے دیا۔
ان کے تمام افسانوں میں معاشرہ اپنے مختلف پس منظر کے ساتھ جلوہ افروزہے ۔
ان افسانوں میں’’ سوسائٹی گرل‘‘ اور’’ دس کا نوٹ‘‘ اپنے اسلوب اور ہیئت کے
لحاظ سے ایک ہی پس منظر میں مختلف واقعات کی ترتیب کے ساتھ لکھے گئے افسانے
ہیں بلکہ’’ سوسائٹی گرل‘‘ جو کہ ان کے افسانے کا نام ہے۔یہ تو نام ہی
معاشرے کو ظاہر کرتا ہے اور معاشرے کی لذت پرستی کا شکار ایک لڑکی کو جو
محض خاندان کی کفالت کے لیے اپنی زندگی اس گندے اور غلیظ پیشے کی نذر کر
دیتی ہے جیسے کہ افسانے میں معاشرتی پس منظر کی عکاسی کی گئی ہے:
’’جس دفتر میں کام ہوں اس میں کرشن بھی کام کرتا ہے کیا وہ لوگوں کو بتائے
گا نہیں، کہ ایک عزت دار کہلانے والے بہن بھائی کیسے ہیں۔‘‘(۳)
درج ذیل لائنر میں معاشرہ اور معاشرتی مسائل نمایاں ہیں۔ ایک اور جگہ یوں
لکھتے ہیں:
’’شاید اس دُنیا کی ریت ہے کہ اس دُنیا میں جو دوسروں کو زندگی دینے کا
ادھیکار دیتے ہیں، لوگ اُن سے زندہ رہنے کا ادھیکار چھین لیتے ہیں۔‘‘(۴)
ایک قلم کار کا ذہن عام لوگوں کے مقابلے میں زیادہ حساس ہوتا ہے ۔ وہ سماج
میں پیش آنے والے واقعات کو اپنے قلم سے نہ صرف تاریخ کا حصہ بناتا ہے بلکہ
اس کو نئے اسلوب میں پیش کر کے عام انسانوں کو سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
اخلاق حیدرآبادی کا افسانہ ’’دس کا نوٹ‘‘ کا مرکزی خیال بھی سوسائٹی گرل سے
ملتا جلتا ہے۔ بس نوعیت کا فرق ہے ۔ افسانے کا مرکزی موضوع زندگی کی بنیادی
ضروریات کا حصول ہے ۔ جس میں انسان کی سب سے بڑی ضرورت پیٹ کے ایندھن کا
بندوبست کرنا ہے ۔ انسان سب کچھ برداشت کر سکتا ہے لیکن بھوک نہیں۔ بھوک ہی
تو ہے جو انسان سے غلط صحیح ہر طرح کے کام کرواتی ہے۔اُسے اس ان دیکھی منزل
کی طرف بھی چلنے پر مجبور کر دیتی ہے جہاں سے لوٹنا مشکل ہی نہیں ناممکن
بھی ہو ۔
اخلاق حیدرآبادی کے افسانوں کی یہی خاص خوبی ہے کہ انھوں نے عورت کے المیے
کو اُبھارنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ اردو افسانوں میں عورت کا کردار خصوصاً
تقسیمِ ہند کے بعد خاص اہمیت کا حامل رہا ہے کیونکہ عورت ہر جگہ اور ہر دور
میں مرد کی ہوس پرستی کا شکار ہوتی ہے۔اخلاق حیدرآبادی کا افسانہ ’’سوسائٹی
گرل‘‘ اس کی زندہ مثال ہے۔ اُن کے افسانوں میں حقیقت کا رنگ نمایاں ہے۔ ان
کے افسانوں میں اظہار، اسلوب، تکنیک کے تجربات نمایاں ہیں۔یہ افسانہ زندگی
کی تلخ حقیقت کی عکاسی کرتا ہے ۔ یہ ایک ایسی طوائف کی کہانی ہے جو ایک
غریب مگر شریف گھرانے سے تھی لیکن غربت اور تنگ دستی نے اُسے یہ پیشہ
اپنانے پر مجبور کر دیا اور اُس کا خاوند مجبوری اور بے بسی کی تصویر بنے
گھرکی عزت نیلام ہوتے دیکھتا رہا۔ایک حساس اور باعزت دل رکھنے کے باوجود وہ
کچھ نہیں کر پایا ۔ کیونکہ مزدوری اور محنت کرنے کے لیے بھی جسم و جان کا
ہونا ضروری ہے جس کے باعث کوئی اُسے کام تک نہیں دیتا۔ وہ زندگی کے مفہوم
کو سمجھتا ہے جیسے وہ خود کہتا ہے:
’’مگر موت اتنی سستی نہیں ہوتی‘‘
’’زندگی تو ہوتی ہے‘‘
’’میں زندگی کو موت میں بدل سکتا ہوں‘‘
’’تم زندگی کے معنی بھول گئے ہو یا سمجھ نہیں رہے‘‘
’’میں صرف رشتوں کے معنی سمجھتا ہوں‘‘(۵)
کہانی میں اخلاق حیدرآبادی کا اختصاص ، جزئیات نگاری اور کرداروں کے نویکلے
پن کا بیان اکیسویں صدی کے تناظر میں کیا ہے۔ اس پر زبان و بیان کا کمال
ایک رنگ جماتا ہے ۔ موضوعات کی وسعت کہانیوں کے پلاٹ سے پھیل کر بعض صورتوں
میں عالمگیریت کو چھو لیتی ہے، کردار بعض ایسے تخلیق کیے ، جو سراسر حقیقی
ہونے کے باوجود نہایت انوکھے ، دل چسپ اور یاد رہ جانے کے لائق ہیں اور
بلاشبہ اردو ادب میں بھی یہ یادگار کرداروں کی صف میں جگہ پاتے ہیں۔زندگی
کا تعلق معاشرے سے ہے اور معاشرتی بے حسی کی چکی میں پسنے والا یہ غریب شخص
جب زندگی سے تنگ آ جاتا ہے ۔مایوسی اور بیزاری حاوی ہو جاتی ہے تو خودکو
موت کے حوالے کر دیتا ہے لیکن مرنے سے زندگی کی تلخی ختم تو نہیں ہوتی، وہ
تو اپنی جگہ موجود ہے ۔ نجانے کتنی جمیلہ غربت کی چکی میں پستے پستے خود کو
فنا کی بھینٹ چڑھا دیتی ہیں۔ یہ صرف معاشرے کے صاحبِ اختیار لوگوں کی بے
حسی کا نتیجہ ہے کہ وہ اپنے ارد گرد غریب، ضرورت مند اور محتاجوں کا خیال
رکھنے کے بجائے محض اپنی زندگی میں مصروف ہیں۔
افسانہ ’’ڈھلتا سایہ‘‘ اخلاق حیدرآبادی کے اسلوب کی ایک خاص بات ان کی
اختصار پسندی ہے ۔ وہ نہ صرف اختصار پسند ہیں بلکہ وہ اپنے مختصر الفاظ میں
اپنی بات کے ابلاغ پر بھی قدرت رکھتے ہیں۔ ان کے افسانوی موضوعات میں
اکیسویں صدی کے معاشرے کا کردار نمایاں نظر آتا ہے ۔ ان افسانوں میں
ناہموار معاشرے کے نظام اقدار کی تصویریں کھینچی ہوئی ہیں جو معاشرے میں
زندگی بسر کرنے والے مختلف طبقات کے افراد کی حرکات و سکنات کو بے نقاب
کرتے ہیں۔
افسانے میں جنریشن گیپ کی خوب صورت اور سچی تصویر پیش کی گئی ہے۔ بزرگوں کے
خیالات نئی نسل کے خیالات سے بہت مختلف ہیں۔ وہ اپنی روایات اور اقدار کو
ہی بقا سمجھتے ہیں۔اکیسویں صدی میں یہاں انسان نے ترقی کے بہت سے مدارج طے
کر لیے ہیں ۔وہاں روایات اور اقدار دم توڑتی نظر آرہی ہیں۔ اخلاق حیدرآبادی
اپنی روایات اور اقدار کو ہی بقا سمجھتے ہیں۔ اس سے جُدا ہونا ہی ان کے فنا
ہونے کا باعث بن جاتا ہے ۔ یہ ایک بہت بڑا معاشرتی مسئلہ ہے جس سے اکیسویں
صدی کا انسان دوچار ہے۔ نئے انسان کے لیے پرانے روایات سے سمجھوتا ممکن
نہیں اور یہی رویہ روایات اور اقدار کے امین کو ابدی نیند سُلا دیتا ہے۔
اکیسویں صدی کا جدید انسان اپنے بزرگوں اور اُن کے اسلاف کو عزت اور قدر کی
نگاہ سے دیکھنے کے بجائے ان کے جذبات کو مجروح کرتا چلا جاتا ہے اور
نتیجتاً اُن سے چھٹکارہ پانے پر اطمینان محسوس کرتا ہے۔افسانے کی یہ سطریں
اس معاشرتی مسئلے کی نمایاں عکاسی کرتی ہیں :
’’نئے پرانے کا جو جھگڑا صدیوں سے چلا آ رہا ہے اُسے کیسے سلجھایا جاسکتا
ہے ، سوائے اس کے کہ ابا جی حالات کے ساتھ سمجھوتہ کر لیں۔‘‘(۶)
یہ ایک متوسط طبقے کی کہانی ہے جب کہ امیر لوگ تو بزرگوں اور اُن کے خیالات
کو برداشت کرنے کی نوبت نہیں نہیں آنے دیتے اور والدین کو اولڈ ہاؤس چھوڑ
آتے ہیں۔ نئی اقدار نے بنی نوعِ انسان کو تہذیب تو سکھا دی لیکن احساسات و
جذبات کا گلا گھونٹ دیا اور ہر وہ چیز جو نئے تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھال
نہ سکے فنا ہو جاتی ہے۔
افسانہ ’’دو نمبر‘‘ اخلاق حیدرآبادی کے افسانوں کا واضح مقصد زندگی کی
حقیقتوں کو تلاش کرنا ہے ۔ وہ زندگی کے حُسن اور اُس کے حسین پہلوؤں پر کم
ہی نظر رکھتے ہیں۔ بلکہ اُن کی نظر تو حقائق کے حُسن پر رہتی ہے اور وہ
زندگی کے ان پہلوؤں میں بھی حُسن دیکھتے ہیں جو بظاہر حسین نہیں ہوتے لیکن
اپنے فن اور اسلوب کی بدولت اس کو حسین بنا دیتے ہیں ۔ اُن کے افسانوں کا
نمایاں وصف فقروں کا برجستہ اور مختصر ہونا ہے۔ تمام کہانی کرداروں کے
ذریعے آگے بڑھتی ہے ۔ افسانہ ’’دونمبر‘‘ ایک ایسے شخص کے گرد گھومتا ہے جو
کہ معاشرتی طفیلیہ ہے۔ ہمارے معاشرے میں مطلبی اور خود غرض لوگوں کی کمی
نہیں ہے اور ایسے لوگ جو خود غرضی اور مطلب سے پاک ہیں اگرچہ تعداد میں بہت
زیادہ نہیں ہیں لیکن یہی معاشرے کا حُسن ہیں جو ایسے لوگوں سے دھوکہ کھانے
کے باوجود اپنی نیک نیتی اور اچھائی نہیں چھوڑتے۔ ’’دونمبر‘‘ ایک ایسی
کہانی کا موضوع ہے ۔افسانے کی درج ذیل سطور کہانی کے موضوع کو نہ صرف واضح
کرتی ہیں بلکہ سماج میں ایک تاریک پہلو کی طرف اشارہ بھی کرتی ہے:
’’اس کی پے سلپ کی فکر چالیس ہزار سے زیادہ ہی تھی۔ مجھے اپنی دس ہزار کی
سیلری یاد آ گئی ۔ ہماری سیلری میں ہی فرق نہیں تھا بلکہ نیتوں میں بھی فرق
تھا ۔مجھے وہ پورا نیت کا ’’ولی‘‘ لگا تھا۔‘‘(۷)
اخلاق حیدرآبادی کو سماجی ادیب کہا جائے تو یقیناً بے جا نہ ہو گا کیونکہ
ان کی تحریر سماج سے جڑی ہے۔ ایک حساس افسانہ نگار کا دل سب کے ساتھ دھڑکتا
ہے اور دوسروں کے دکھ پر کڑھتا ہے ۔ ان کو عذاب میں مبتلا دیکھ کر کرب
محسوس کرتا ہے۔ وہ سماجی ناانصافی کو اپنی ذات کے حوالے سے دیکھتا اور
محسوس کرتا ہے ۔ اسی طرح ان کے افسانوں کے موضوعات بھی زندگی کے دوزخ کے
بیان سے باہر نہیں بلکہ اندر سے ہیں۔ ان کے افسانوں میں داخلیت کا رجحان ہے
اور ہر افسانہ میں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے انھوں نے ذاتی طور پر اس کا
ادراک کیا اور بہت قریب سے اسے محسوس کیا اپنے ہر افسانے میں وہ نفس بہ نفس
موجود ہیں۔
سمرن کا ایثار یقیناً دور خے معاشرے میں اسے سب سے ممتاز کر دیتا ہے اور
آخری وقت میں رمیش کا ساتھ نبھاہنے کا فیصلہ بھی یہ ظاہر کرتا ہے کہ معاشرے
میں اکیلی عورت کا کیا مقام ہے ۔۔۔۔ اکیلی عورت کے لیے زندگی کے سر دو گرم
کو سہنا کس قدر کٹھن ہو جاتا ہے اور اسے ایک مرد کے سہارے کی ضرورت بہر طور
رہتی ہے۔
اس میں دو پہلو نمایاں ہوتے ہیں۔ا یک تو یہ کہ عورت کتنی مضبوط ہو سکتی ہے
کہ حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کی ہمت رکھتی ہے اور دوسری طرف ہی کتنی
کمزور اور بے بس نظر آتی ہے کہ لوگوں کے طعن و تشنیع سے بچنے کے لیے اسے
مرد کے سہارے کی ضرورت رہتی ہے۔ افسانے کی یہ سطور دیکھیں:
’’کہاں چلی گئی بھابھی؟ ‘‘سہمی ہوئی انامیکا بولی۔
’’جہاں بھابھی کو پہلے ہی چلے جانا تھا۔ جانے دو اب انھیں ویسے بھی کافی
دیر کر دی انھوں نے ۔جیون کے لیے کچھ شب و روز ہمارے نام کر دیے۔‘‘(۸)
افسانہ ’’منی پلانٹ‘‘ کو پڑھ کر کہا جا سکتا ہے کہ اخلاق حیدرآبادی ایک عام
آدمی کے افسانہ نگار ہیں۔ اسے کبھی وہ شہر کے کسی دور افتادہ محلے میں
ڈھونڈ نکالتے ہیں یا کبھی کسی دیہات میں۔ ان کی تحریرکا نمایاں وصف یہ ہے
کہ پہلے وہ گرد و پیش کی تصویر کھینچتے ہیں کیونکہ ان کے لیے یہ تصور کرنا
بھی ممکن نہیں کہ کوئی انسان اپنے ماحول اور معاشرے سے کٹ کر محض اپنی ذات
میں گم ہو کر زندگی بسر کر رہا ہو۔ ان کا ہر کردار اپنے آپ میں سرمست نہیں
بلکہ اپنے ماحول کا ایک لازمی جزو ہے ۔ معاشرے سے کٹ کر کوئی بھی لکھی ہوئی
تحریر معاشرے اور زندگی کی صحیح ترجمانی نہیں کر سکتی اور نہ ہی اس کے دکھ،
کرب اور غم و خوشی کو بیان کر سکتی ہے ۔
’’منی پلانٹ‘‘ افسانہ کا موضوع اور مرکزی کردار بھی درج بالا افسانے کی طرح
عورت ہے۔ ایک عورت جو شوہر کے وفات پا جانے کے بعد اپنی اکلوتی بیٹی کی
پرورش کرتی ہے اور ایک فیکٹری میں ماں اوربیٹی دونوں کام کرتی ہیں لیکن
معاشرہ اکیلی عورت کو کبھی بھی اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتا اور یہی چیز
بھانپتے ہوئے ’’ماں‘‘ جس کو پوری کہانی میں صرف ’’ماں‘‘ کے نام سے پکارا
جاتا ہے ۔فیکٹری کے مالک اکرم بابو کے ساتھ شادی کا فیصلہ کر لیتی ہے اور
روایتی مالکوں سے ہٹ کر اکرم بابو نہایت شریف، نیک دل اور اچھے انسان ثابت
ہوتے ہیں جس پہ گڑیا پہلے تو لوگوں کی باتوں میں آ کر اس اقدام کو غلط سمجھ
بیٹھتی ہے لیکن جلد ہی وہ سمجھ جاتی ہے کہ اکرم بابو ایسے انسان ہیں جو عام
لوگوں سے ہٹ کر ہیں اور اس کی ماں کو اچھی زندگی اور اسے ایک باپ جیسی شفقت
دے سکتے ہیں ۔ وہ پڑھی لکھی اور سمجھدار ہے وہ سمجھ جاتی ہے کہ اکیلی بے
سہارا زندگی گزارنے کا وقت کس قدر تلخ ہوتا ہے اور بالفرض اس کی ماں شادی
نہیں بھی کرتی تو خود جب وہ بیاہی جائے گی تو اس کی ماں کس آسرے پر زندہ
رہے گی اور بڑھاپے میں کون اس کی خبر گیری کرے گا۔ جیسے افسانے میں ’’ماں‘‘
بیمار پڑتی ہے اور لڑکی ہونے کا احساس اُسے بہت کچھ باور کرا جاتا ہے :
’’رات کو اچانک ہائے! ہائے! کی آواز سُن کر گڑیا کی آنکھ کھُل گئی۔
’’کیا بات ہے ماں؟ گڑیا نے ماں کے ماتھے پر ہاتھ رکھا تو گھبرا گئی۔ بخار
سے ماتھا تپ رہا تھا۔ ماں کی بگڑی ہوئی حالت دیکھ کر وہ پریشان ہو گئی۔ اب
کیا کرے؟
دیوار والی گھڑی نے رات کے دو بجا دیے۔
باؤ جی کی موت کے بعد آج پہلی بار اسے اپنے لڑکی ہونے کا احساس ہو رہا
تھا۔‘‘(۹)
’’میں اور میری جنت ‘‘افسانے کا مرکزی موضوع ایک کڑی اور تلخ حقیقت سے
وابستہ ہے ۔ ایک ماں اپنے چھ، سات بچوں کو اکیلے ہی پالتی ہے ۔ ان کی پرورش
کرتی ہے ۔ان کی ہر ضرورت کا خیال رکھتی ہے ۔چھوٹی سے چھوٹی ضرورت سے لے کر
بڑی سے بڑی خواہش تک ان پر قربان کرنے کے لیے تیار رہتی ہے لیکن جب یہی
اولاد جوان ہو جاتی ہے تو ان کے لیے ایک ماں کو سنبھالنا اور اس کی چھوٹی
چھوٹی ضروریات کا خیال رکھنا کس قدر گراں گزرتا ہے ۔
یہ ایک بہت سنگین معاشرتی مسئلہ ہے کہ کیوں ہم نے اپنے بزرگوں کی عزت کرنا
چھوڑ دی ہے۔ وقت کی زد میں تنے بہہ گئے ہیں کہ بوڑھے ماں باپ کے لیے وقت
نہیں ہوتا ۔ کیوں اس بات کو فراموش کر دیا ہے کہ ’’دنیا مکافاتِ عمل ہے‘‘
یعنی ہم جو بوئیں گے وہی کاٹیں گے ۔ وہ بہن بھائی جو شادی ہونے سے پہلے تک
ایک دوسرے پر جان چھڑکتے ہیں عملی زندگی میں جاتے ہی اس قدر خود غرض بن
جاتے ہیں کہ انھیں اپنے علاوہ کسی کی ضرورت دکھائی ہی نہیں دیتی۔
یہ افسانہ ایک ایسی مڈل کلاس فیملی کے درمیان گھومتا ہے جس میں چھ بہن
بھائی ہیں جو سب شادی شدہ ہیں۔ دو بھائی ماں کے ساتھ اکٹھے رہ رہے ہیں جب
کہ باقی بھائی علیحدہ اپنی گرہستی چلا رہے ہیں ۔چھوٹا بھائی بڑے کو مسلسل
زچ اور پریشان کرنے کے جتن میں لگا رہتا ہے اور اس کی شدید کوشش ہے کہ بڑا
بھائی یہ گھر چھوڑ دے اگرچہ بڑا بھائی جو کہ خود اپنی کہانی بیان کر رہا
ہیکہ اسے اپنی ماں سے شدید لگاؤ ہے اور وہ ماں کو چھوڑ کر کہیں نہیں جانا
چاہتا۔ چھ بہن بھائیوں میں صرف وہی ایسا بیٹا ہے جسے ماں کی پرواہ ہے باقی
ایک بہن ہے جو مصنف کے بقول
’’بہن جس کی خوش حالی اور سکھ کے لیے دن رات اﷲ سے دعائیں مانگتے ، وہ جب
بھی آتی گالیوں کی ’پرت‘ بھر کر لاتی۔ مجھے شرم بھی آتی اور کبھی غصے سے
پھٹ جاتا۔‘‘(۱۰)
یہ معاشرے کا دستور ہے کہ جو جتنا زیادہ مخلص اور دیانت دار ہو اسے اتنی ہی
تکلیف دی جاتی ہے اور اس کے ہر عمل کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، ہر طرف
سے مایوس اور تنگ ہو کر بالآخر مجبور ہو کر اسے وہ گھر چھوڑنا ہی پڑتا ہے
لیکن وہ اپنی ماں کا بدستور خیال رکھتا ہے کیونکہ ماں کہ یہ الفاظ اسے دلی
سکون اور طمانیت بخشتے ہیں کہ ماں کو بہر طور اس کا خیال ہے:
’’چھوٹے نے غلط کیا ہے۔ میں اپنا حصہ تم دونوں کو دینا چاہتی ہوں۔‘‘(۱۱)
اخلاق حیدرآبادی اپنی ان چھوٹی چھوٹی ، مختصر مگر مؤثر کہانیوں کے ذریعے
انسان کا ضمیر جھنجھوڑتے ہیں۔ اسلوب کی سادگی اور پر اثر الفاظ کا استعمال
قاری پر گہر اتاثر چھوڑتے ہیں۔انھوں نے اکیسویں صدی کے تناظر میں اُن مسائل
کو نمایاں کیا ہے جو آنے والی صدی سے قاری کے لیے آزمائش کے طور پر سامنے
آئیں گے۔
’’بھوک ‘‘ کی کہانی روٹی، کپڑا اور مکان عام آدمی کی پوری زندگی انھی تین
عناصر زندگی کے گرد گھومتی رہتی ہے باقی دو میسر نہ بھی آئیں تو بھی روٹیک
کے بغیر زندگی کے شب و روز نہیں کٹتے۔ علم ذہنی آسودگی اور زندگی گزارنے کے
ڈھنگ تو سکھا سکتا ہے لیکن بھوک بہر طور نہیں مٹا سکتا۔ عام آدمی کے لیے
بھوک ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے جب کہ امیر آدمی کے لیے تعیش پرستی اور نمائش
کیسے کی جائے سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ’’بھوک ‘‘بھی ایسے ہی شخص کی کہانی ہے جو
حصولِ رزق کے لیے شہر میں آ کر گردشِ حالات میں ایسے پھنس گیا کہ دامن
چھڑانا بھی مشکل ہو گیا۔ وہ بار بار اپنا موازنہ کمرے میں ا س کی کتابیں
کُترتے ہوئے چوہوں سے کرتا ہے:
’’اس سے اچھے تو چوہے ہیں جو بھوکے آدمی کے گھر میں کتابوں کی جلد سے اپنا
پیٹ تو بھر لیتے ہیں۔ اس لیے کہ آٹے کی لئی تو جلدوں کو بھی لگتی ہے ، مگر
وہ اپنا پیٹ نہیں بھر سکتا۔‘‘(۱۲)
ہمارے معاشرے میں ایسے بیشتر لوگ ہیں جو غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی
گزار رہے ہیں ۔مستحق لوگوں کی در پردہ امداد انھیں عام زندگی گزارنے میں
مدد دے سکتی ہے اور یہی معاشرے کے خوش حال لوگوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ
مستحقین کی در پردہ مدد کریں تا کہ انھیں بھی کسی قسم کی خجالت محسوس نہ ہو
اور وہ بھی عام ضروریات زندگی سے استفادہ کر سکیں۔
افسانہ ’’آخری لکیر‘‘ اخلاق حیدرآبادی کا ایسا افسانہ ہے جس میں سیاسی اور
سماجی دونوں حوالے ملتے ہیں۔ افسانے کا مرکزی موضوع سرحد کی وہ لکیر ہے جس
نے دونوں ممالک کے درمیان حد بندی قائم کر دی ہے ۔ مصنف ایک سوال اٹھاتا
ہے:
’’دونوں طرف کے لوگ جب تیسرے ملک میں مل کر بیٹھتے ہیں تو ایک ساتھ کھانا
کھاتے ہیں ۔ ایک ساتھ رہتے ہیں۔ دُکھ سکھ میں جان دیتے ہیں تو اپنے ملکوں
میں آ کر اپنی اپنی کیوں پڑ جاتی ہے؟‘‘(۱۳)
پھر اس کا جواب بھی خود ہی دیتے ہیں کہ یہ سب سیاست دانوں کی خو د غرضی کا
نتیجہ ہے۔خون کے رشتے کی طرح زبان کا رشتہ بھی اٹوٹ ہوتا ہے جسے کوئی بھی
نہیں توڑ سکتا لیکن مفاد پرست سیاست دان اپنی سیاست چمکانے کے چکر میں
دونوں طرف کی عوام کو دھوکے میں رکھتے ہیں ۔جیسا کہ مصنف کے ہندوستانی دوست
خط میں لکھتے ہیں:
’’میں کہتا ہوں جب دونوں طرف کے عوام کو ایک دوسرے کے سامنے کھڑا کیا جائے
تو ’’جب گلے دونوں ملے، گلہ جاتا رہا۔‘‘(۱۴)
مصنف کا نکتہ نظر یہ ہے کہ ہم سرحدی حد بندیوں اور سیاست دانوں کی بیان
بازیوں کے بجائے اگر عوام کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوشش کریں تو گلہ
ختم ہو جائے گا اور امن و آتشی کی فضا پروان چڑھے گی۔
’’الیکشن‘‘ افسانے کا مرکزی موضوع سیاست اور سیاسی ماحول ہے کہ کسو طرح
سیاست صرف حکومت بنانے اور بگاڑنے میں ہی عمل دخل نہیں کر سکتی بلکہ سیاسی
اثر و رسوخ کس طرح جائز و ناجائز کاموں کی پیروی بھی کرتا ہے۔
کالج میں جنرل سیکرٹری کے عہدے کے حصول کے لیے تین گروپ میدان میں اترتے
ہیں جس میں سے ایک سیاسی جماعت کے سرگرم کارکن ریاض احمد جیت جاتا ہے اور
اسی خوشی میں کالج ایک دن بند رہتا ہے ۔ ریاض احمد چونکہ سیاسی بیک گراؤنڈ
رکھتا ہے لہٰذا اسی کے اثر و رسوخ کے بل بوتے پر اس کے گروپ کے لڑکے اس کی
جیت جانے کی خوشی میں جلوس نکالتے ہیں اور توڑ پھوڑ کرتے ہیں ۔ جس سے بازار
میں ایک ریسٹورنٹ کے مالک کا بہت نقصان کر دیتے ہیں جس سے مالک پولیس میں
رپورٹ درج کرتا ہے اور پولیس کالج کے لڑکوں کو پکڑلے جاتی ہے جس پر ریاض
احمد کہتا ہے:
’’دوستو! یہ ہماری عزت کا سوال ہے ۔ہمارے ہی کالج کے کچھ ساتھی پولیس پکڑ
کر لے گئی ہے ۔ ہمیں چاہیے کہ پولیس کو بتا دیں کہ ہماری کتنی طاقت ہے تا
کہ آئندہ سے طالب علموں کو پکڑنے کی جرأت نہ کر سکے۔‘‘(۱۵)
اور یوں ریاض احمد کی سربراہی میں ایک بہت بڑا جلوس نکلتا ہے اور ایک
شرارتی لڑکا موقع کا فائدہ اٹھا کر ایک پتھر پولیس والے کے منہ پر دے مارتا
ہے اور دونوں پارٹیوں کے بیچ ڈنڈوں اور پتھروں کا آزادانہ تبادلہ شروع ہو
جاتا ہے اور دونوں طرف کافی خون بہتا ہے اور نقصان ہوتا ہے حتیٰ کہ کچھ
مزید لڑکے گرفتار کر لیے جاتے ہیں لیکن سیاسی جماعتوں کی بیان بازی اتنی
بڑھ جاتی ہے کہ مجبوراً پولیس کو دباؤ میں آ کر لڑکوں کو رہا کرنا پڑتا ہے۔
افسانہ ایک سنگین مسئلے کو اُجاگر کرتا ہے کہ کس طرح سیاسی اثر و رسوخ اور
طاقت کا نشہ نوجوان ذہنوں کو خراب کر سکتا ہے اور کس طرح ان کی طاقت اور
جذبات کو مثبت استعمال کرنے کے بجائے منفی پراپیگنڈہ میں تبدیل کر سکتا ہے
۔مصنف سوچنے پر مجبور ہو کر رہ جاتا ہے کہ اس نوجوان نسل کا مستقبل آخر کیا
ہے ؟ جن کی ترتیب اس قدر غلط بنیادوں پر استوار ہے وہ آنے والی زندگی میں
کس نہج پر ہوں گے ۔سیاست میں عوامی طاقت کا استعمال عوامی فلاح و بہبود کے
لیے ہونا چاہیے لیکن اس کا مقصد ہی غلط قرار دیا گیا ہے ۔ہمارا اعتبار اس
قدر اٹھ گیا ہے کہ ہم سیاست دانوں کو قطعی اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے ۔ہم ان
پر بھروسا نہیں کر سکتے۔
انصاف کے معیار کو کم جب کہ طاقت کے معیار پر فیصلے ہوتے ہیں جو زور آور ہے
وہی کامیاب ہے یعنی جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا راج ہے۔ افسانے کی آخری سطر
قاری کو گہری سوچ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے:
’’ریسٹورنٹ کا مالک کسی گہری سوچ میں گم ، پھٹی پھٹی آنکھوں سے جلوس کو
دیکھ رہا تھا۔‘‘(۱۶)
اخلاق حیدرآبادی نے سیاست اور سماج دونوں کی منظر کشی اپنے افسانوں میں کی
ہے ۔ خصوصاً سماج اور سماج سے جڑے سنگین مسائل کو اجاگر کیا ہے ۔ ان کے
افسانوں میں گیرائی اور گہری سوچ ملتی ہے جو قاری کو تحیر میں ڈالنے کے
ساتھ ساتھ سوچنے پر بھی ابھارتا ہے اور اس کا ضمیر جھنجھوڑتا ہے۔ زمانے کی
تلخیوں کی بھیانک مگر سچی تصویروں کو ہمارے سامنے لے آتے ہیں اور ہمیں
رومان انگیز اور سحر زدہ کہانیاں سنا کر سلاتے جنہیں بلکہ زمانے اور زندگی
کے ان زخموں پر سے پردہ ہٹاتے ہیں جن سے خون رس رہا ہے جو ہماری توجہ اور
تشفی کے طالب ہیں۔ ان کے افسانے لوگوں سے دردمندی کرنے اور ان کا دکھ محسوس
کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔ ان کے افسانوں سے یہ تاثر ملتا ہے ؛کہ وہ اس وقت
لکھتے ہیں جب وہ متاثر ہوتے ہیں ۔ وہ سارے درد اور آشوب آگہی کو کہانی میں
سمیٹ لیتے ہیں۔
ان کی کہانیوں کے بطون میں ان گنت کہانیوں کا سلسلہ ہے۔ ان کہانیوں میں
انسان اور انسانی زندگی کی بدلتی ہوئی حالتیں، معاشرتی رویے ، سماجی
منافقتیں ، مذہبی اور سیاسی استحصال اور انسان کی موجودہ صورتِ حال کی
حقیقی کہانیاں پوشیدہ ہیں۔
زندگی کا ادیب وہی شخص ہو سکتا ہے جو زندگی کی صحیح ترجمانی کرے۔ اس کی
تصنیف زندگی کی صحیح ترجمان ہو۔ صرف سطحی باتیں نہ ہوں بلکہ گہرائی ہو۔ اس
کا رجحان داخلی ہو اور دوسروں کے دکھ ، درد اور کرب اس طرح محسوس کرے جس
طرح وہ کیفیت خود اس پر گزری ہو۔ زندگی کی تلخیوں اور کرب سے گزر کر کندن
بن جانے والے ہی زندگی کے صحیح ترجمان ہیں۔
حوالہ جات
۱۔ پریم چند،مقالہ: مختصر افسانہ کا فن،مشمولہ:اردو ادب کی مختصر ترین
تاریخ، از ڈاکٹر سلیم اختر، لاہور: سنگِ میل پبلی کیشنز، تیسواں ایڈیشن،
۲۰۱۰ء، ص:۴۴۲
۲۔ انوار احمد، ڈاکٹر، دیباچہ، فیصل آباد: شعبہ اُردو، گورنمنٹ کالج
یونیورسٹی، ۲۰۱۰ء
۳۔ اخلاق حیدرآبادی، ادھوری تحریر،سوسائٹی گرل، ص:۱۰
۴۔ ایضاً، ص:۱۱
۵۔ اخلاق حیدرآبادی، ادھوری تحریر، دس کا نوٹ، ص:۲۳
۶۔ اخلاق حیدرآبادی، ادھوری تحریر، ڈھلتا سایہ، جص:۳۰
۷۔ اخلاق حیدرآبادی، ادھوری تحریر، دو نمبر،ص:۳۹
۸۔ اخلاق حیدرآبادی، ادھوری تحریر، بس اب اور نہیں، ص:۵۹
۹۔ اخلاق حیدرآبادی، ادھوری تحریر، منی پلانٹ،ص:۶۳
۱۰۔ اخلاق حیدرآبادی، ادھوری تحریر، میں اور میری جنت، ص:۶۷
۱۱۔ ایضاً،ص:۶۷
۱۲۔ اخلاق حیدرآبادی، ادھوری تحریک، بھوک، ص:۷۵
۱۳۔ اخلاق حیدرآبادی، ادھوری تحریر، ص:۸۲
۱۴۔ اخلاق حیدرآبادی، آخری لکیر، ص:۸۲
۱۵۔ اخلاق حیدرآبادی، ادھوری تحریر، الیکشن، ص:۹۵
۱۶۔ ایضاً، ص:۹۶ |