جنوبی ایشیا میں واقع بھارت موجودہ دور میں اخلافی
اقدار کھوچکا ہے، سیکولر کہنے والا ملک دور حاضر میں انتہا پسند معصب زدہ
سیاسی و مذہبی جماعتوں کے زیر اثر آچکا ہے، اونچ نیچ ذات پات کی نفرت میں
جھلسنے والا ملک اپنی معاشی و اقتصادی طور پر کمزور ہوتا چلا جارہا ہے،
بھارت کے انتہا پسند سیاسی جماعتوں کو زرہ برابر خیال نہیں کہ ان کی جنتا
بنیادی ضرورتوں سے محروم ہوچکی ہے، یہاں اشرفیہ اور امرا نے غریب جنتا کا
جینا محال کردیا ہے، فلموں اور ڈراموں میں خوشحالی دکھانے سے حقیقت چھپ
نہیں سکتی، شعور اور دانشمندی سے دوری بھارت کو تباہی کی جانب دھکیل رہی ہے
، منفی جذبات سے معاشرتی ماحول پرگندہ ہوچکا ہے، بھارت کی تہذیب اور روایات
کا جنازہ یہاں کے انتہا پسندوں نے نکالا ہے، ہند و مذہب کی مقدس کتاب گیتا
اور رامائن میں کہیں نہیں لکھا کہ ظلم و بربریت کا راج ہو اور انسانی اقدار
کی توہین کی جائے لیکن چند ایک سیاسی و مذہبی جماعتوں کے سبب بھارت آج
دنیا بھر میں شرمندہ نظر آتا ہے، اس خطے میں مسلمانوں اور ہندوں کا راج
رہا ہے لیکن دونوں حکومتوں میں کہیں بھی رعایا کیساتھ اس قدر ظالمانہ سلوک
تاریخ میں کہیں نہیں دیکھا، بھارت کے پڑھے لکھے ذی شعور لوگوں نے آج کی
انتہا پسند جماعت کو اس کا اصل چہرہ دکھانے کی کوشش کیں ،انہیں کوششوں میں
کئی معروف بھارتی ہندوں شخصیات انتہا پسند لوگوں کے ظلم کا شکار ہوئے کسی
کو ہلاک کرڈالا تو کسی کیلئے جینا محال کردیا بحرکیف بھارتی سینا ہو یا
بھارتی سیاسی حکمران اگر چاہیں تو بھارت کو وہی سکون اور ترقی فراہم کرسکتے
ہیں مگر اس کیلئے انہیں خود بدلنا ہوگا ، بھارت کا ہر شہری کو وہی حقوق
دینے ہونگے جس کا بھارتی آئین میں تحریر ہے، بھارت کے آئین ابھی بدلا
نہیں اس میں بھارتی اقلیتوں کے حقوق موجود ہیں لیکن دیکھا جارہا ہے کہ
بھارتی انتہا پسند جماعت اور لوگ اس کو ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں ان کے اس
عمل سے بھارت معاشی ،معاشرتی، مذہبی اور تہذیبی سطح پر برباد ہوجائیگا،
بھارت کی سابقہ وزیر اعظم اندرا گاندھی کئی دہائیوں سے حکمران رہیں لیکن ان
کے دور اقتدار میں کبھی بھی اقلیت غیر محفوظ نہیں رہے، جیسے ہی غیر ذمہ
داروں کے ہاتھوں بھارتی حکمرانی آئی بھارت میں جیسے امن کی فاختہ اڑ کر
کہیں چلی گئی، بغیر نوٹس کیئے کتنے ایسے کیسس ہیں جو جنسی بربریت پر مشتمل
ہیں ،کتنے ایسے کیسس ہیں جو انتہا پسند لوگوں کے ہاتھوں مظلوم بربریت کا
شکار ہوئے، حالیہ دور میں بھارتی پولیس نے بھی اپنی غیر ذمہ داری کا پورا
پورا ثبوت دیا ہے انھوں نے ظالموں اور قاتلوں کو پکڑنے کے بجائے انہیں کے
آگے سر سجودکیا یہی وجہ ہے کہ مجرموں کے حوصلے منفی کاروائیوں مین مزید
تیز ہوئے، بھارت اپنے مخالفین کو اس قدر تک نہیں ہرا سکتا جب تک کہ وہ خود
اپنے آپ میں زندہ ہو، تحقیق اور مشاہدے سے ثابت ہوتا ہے کہ موجودہ دور میں
بھارتی حکمرانوں کی وجہ سے بھارت میں اندرون خانہ حکومتی ناقص پالیسیوں،
غیر ذمہ دارانہ کاروائیوں کے سبب اپنی ہی عوام میں اپنا مقام کھو چکی ہے ،
موجودہ وقت میں بھارت کی کئی ریاستوں میں انتخابات ہورہے ہیں اور انتہا
پسند جماعتیں چاہتی ہیں کہ وہ اس بار نہ صرف جیتیں بلکہ پہلے سے زیادہ
سیٹیں حاصل کریں ، بھارتی انتہا پسند جماعتوں کو سوچنا چاہیئے کہ انھوں نے
اپنے سابقہ دور حکومت میں بھارت کی سیاسی، معاشرتی، معاشی اور مذہبی سطح پر
کس قدر مثبت خدمات پیش کی ہیں، غنڈہ گردی، دھونس گری ڈرانے دھمکانے سے
حکومتیں ہرگز نہیں چلتیں، حکومت چلانے کیلئے اعتدال حکمت و دانائی کیساتھ
چلنا پڑتا ہے ، بھارتی عوام کو خود بھارتی میڈیا نے بہت زیادہ مس گائیڈ کیا
جس کے قصور وار یہاں کی میڈیا بھی ہے، بھارتی میڈیا نے اپنے منصب کو چھوڑ
کر غیر پروفشنل انداز اپناتے ہوئے اوجھٹ جاہل انتہا پسند جماعت اور عناصر
کو توقیت بخشی ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ بھارت کی سالمیت، بقا، خوشحالی
کیلئے حقائق کو پیش کرتے اور مدلل مفکرین مہذب لوگوں کے خیالات عام کرتے
تاکہ بھارت کے مسائل کو بہتر انداز میں حل کیا جاتا لیکن ہوا اس کے مکمل
مختلف،بھارت میں ایسا ٹرین چل پڑا ہے کہ جب تک پاکستان مخالف باتیں نہ کی
جائیں یا پاکستان کو برا بھلا نہ کہا جائے اس وقت تک انتخابات کا جیتنا
محال بن گیا ہے یہ بھی منفی سوچ بھارت کے انتہا پسند لوگوں نے عام جنتا کے
ذہنوں میں نفسیاتی طور پر بھر دی ہے جو بھارت کیلئے شدید نقصان کا باعث بھی
نب سکتی ہے کیونکہ کامیابی کا دارومدار سیاسی جماعتوں کی خدمات پر ہونا
چاہیئے اپنے کالے کرتوتوں کو چھپانے کیلئے پاکستان کے پیچھے چھپنے کی کوشش
کرتے ہیں، یقینا وہ وقت بھی دور نہیں جب بھارت کا ہر ایک ایک شہری اپنے
کلاف ہونے والی سازشوں کو سمجھ جائے گا کہ ووٹ کے حصول کیلئے ہمارے نیتا کس
قدر بھیانک کھیل کھیلتے ہیں، جھوٹ پر عمارت کبھی بھی کھڑی نہیں کی جاسکتی،
انتہا پسند جماعتیں جھوٹ کا سہارا لیکر اگر کامیاب ہو بھی گئیں تو وہ نظام
ریاست نہیں چلا سکیں گیں کیونکہ نظام ریاست چلانے کیلئے وہ کچھ کرنا پڑتا
ہے جو قبل انتخابات بیانات اور وعدؤں کے برخلاف فیصلے کرنے ہوتے ہیں اسی
کیلئے سیانے کہتے ہیں کہ پہلے سوچو پھر بولو!! دنیا نے دیکھا کہ کئی ملکوں
کے سربراہوں نے اپنے اپنے وطن کے ساتھ غداری، نا انصافی کی اور وکی لیکس سے
لیکر پاناما لیکس نے سب کے چہرے عیاں کردیئے ،ان میں پاکستان سمیت بھارت
بھی شامل ہے، پاکستان مٰں ان کے کلاف کاروائیاں جاری ہیں کئی ایک کو سزا
بھی دے دی گئی ہے اور کئی جانے والے بھی ہیں جبکہ بھارت میں ابھی تک ان
کرپٹ عناصر کے متعلق نہ سپریم کورٹ ایکشن لے رہی ہے اور نہ ہی اپوزیشن
جماعت کچھ بول رہی ہے ، پاکستان اپنے سیاسی ڈھانچے کو سنبھالتے ہوئے بہتری
کی جانب گامزن ہے جبکہ بھارت اپنے انتہا پسند اور کرپٹ مافیا کے چنگل میں
بری طرح پھنسا ہوا ہے ، سوچنے کی بات یہ ہے کہ بھارت کی ترقی اور خوشحالی
کیلئے کرپٹ عناصر کے خلاف بلا تفریق ایکشن لینا چاہیئے تاکہ بھارت ہر سطح
پر شفاف اور بہتر نظر آئے تب ہی دنیا بھارت کی آواز کو سننے گی ، کلبھوشن
کا کیس ہو یاپٹھان کوٹ یا پھر پلواما حملہ ان تمام معاملات واقعات کو جنتا
کے سامنے حقائق پیش نہیں کیئے گئے اور کئی من گھڑت کہانیاں بھی پیش کی گئیں
جس کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر بھارت کو منہ کی کھانی پڑی ، بہتر ہوتا
کہ بھارت کی سمجھدار لوگ سمجھداری کا ثبوت دیں اور منفی پالیسیوں کے بجائے
مثبت اقدامات کے ذریعے بھارت کو دنیا کی ترقی کیساتھ جوڑیں، یونائیٹڈ نیشن
آرگنائزیشن (یو این او) کے تمام اراکین کا دعویٰ ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ
حق و سچ کی بات کی ہے اور اپنے کیسس میں سچائی پر مبنی ثبوت بھی پیش کیئے
ہیں اور پاکستان ہمیشہ سے جینوا معاہدہ کی پاسداری کرتا چلا آرہا ہے جبکہ
بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول کی با قائدہ تسلسل کیساتھ خلاف ورزی کا
سلسلہ جاری ہے، محققین کا کہنا ہے کہ بھارتی سیاست دانوں نے اپنی جنتا کو
ہمیشہ گمراہ کیا اور اس گمراہی میں بھارتی میڈیا نے بہت بڑا کردار ادا کیا
ہے جبکہ میڈیا کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ حقائق کو روشناس کرے لیکن افسوس
کہ بھارتی میڈیا کا کردار ہمیشہ سے مشکوک رہا دوسری جانب پاکستانی میڈیا نے
اس بابت اپنی مکمل پروفیشنل ذمہ داری نبھائی، بین الاقومی میڈیا نے اس بابت
کہ دیا تھا کہ بھارت اصل جنگ نہیں بلکہ میڈیا کی جھوٹی خبروں سے جنگ جیتنا
چاہتا ہے جو کہ ناکام ثابت ہوئی، بھارت اور پاکستانی حکومتیں اور عسکری
قیادتیں اچھی طرح جانتی ہیں کہ جنگ کسی بھی مسلے کا حل نہیں اگر جنگ مسلط
کی جائے تو دونوں جانب بھاری نقصان کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا اب وقت ہی
بتائے گا کہ بھارت میں اانے والی حکومت حکمت و دانائی کا ثبوت دیتی ہے کہ
جذباتی طریقہ کار پر اپنے اوپر حاوی کرتی ہے لیکن پھر وہی بات کہ اگر اب
بھارت نے پاکستان پر کسی بھی قسم کی شر انگریزی کی تو ممکن ہے پاکستان وہ
سبق سیکھائے گا کہ بھارت کو اپنے کیئے پر پچھتانا پڑیگا کیونکہ بھارت کو
اچھالنے والے یہودیوں اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس مین بھارت کو پاکستان کو
نقصان ہے انہیں نہیں اور اس طرح یہودی یعنی اسرائیلی پاکستان سے اپنی نفرت
کی آگ بجھانے کیلئے بھارت کو قربانی کا بکرا بنا کر اپنی خوہشات کی تسکین
حاصل کرنا چاہتا ہے ، یہی بات پاکستان کے وزیراعظم رمان خان بھی کہ چکے ہیں
کہ بھارت جنگی جنون سے باہر آجائے اپنی قوم کیلئے تعمیری اقدامات کرے اور
ہم بھی کریں کیونکہ جنگ سے سوائے دونوں کو نقصان کہ کچھ حاصل نہیں ، وہ
کہتے ہیں نا کہ اگر دشمن بھی دانائی کی بات کرے تو مان لینی چاہیئے بہتر
یہی ہے کہ دونوں ممالک مسلہ کشمیر کے حل کیلئے بار چیت کا دائرہ بڑھائیں
اور بھارت مقبوضہ جموں کشمیر سے فوج بلالے اور اسی طرح پاکستان بھی ،کوشش
کریں کہ تحمل برباری کیساتھ دونوں ممالک کے مسائل کے حل کی جانب قدم
بڑھائیں اسی مین سب کا بھلا ہے ۔۔۔۔۔۔۔!!
|