پہنچی ہوئی دعا

میرا ہمیشہ سے باپ کی طرف جھکاؤ رہا اور ماں تو لگتا تھا کہ وہ ہے ہی ان کاموں کے لیے اور باپ میرا ہیرو میری محبت میرا دوست حالانکہ ماں ہی بچاتی ہے کسی کوتاہی پر اور اس سے ڈر نہیں لگتا اور وہ تو ہے ہی اپنی اور باپ نے کبھی سختی نہ کی مگر ان کی آنکھیں ہی کافی ہوتی تھیں خوف کھانے کے لئے اور سب سے زیادہ یہ کہ وہ ناراض نہ ہوں اور یہ ناراضگی کا خوف ہی ہے مثبت خوف کہ محبوب ناراض نہ ہو جاے اور شائد اسی طرح کا خوف ہونا چاہئے خدا سے کچھ بزرگوں کے مطابق جو کہ اس کا الٹا ہے جو مولوی صاحبان بتاتے ہیں -

اور میں کسی سے دعا کے لیے بھی نہ کہتا تھا کہ مجھے کیا پڑی کسی سے کہنے کی میں خود کرسکتا ہوں اور کسی پہنچے ہوے کے پاس تو پہنچنے کا کیا سوال کہ میں خود پہنچا ہوا ہوں اور اسی لیے پہنچ نہ سکا اور دوسروں کی پہنچ سے دور رہا اور نہیں پہنچا تو پہنچ جاوں گا اور ضرورت بھی کیا ہے پہنچنے کی اور دعا کو پہنچنا چاہیے جو ہر ایک کی پہنچتی ہے بلکہ جو نہیں پہنچا اس کی فوراً پہنچتی ہے مگر زندگی میں کچھ ایسے موڑ آے کہ جس کے بعد دعا کی طاقت کا اندازہ ہوا اور خوب اندازہ ہوا اور قدرت کے کچھ راز جس میں دوسرے کی دعا کسی خاص وقت کی دعا کسی مقام پر کی ہوی دعا نیک آدمی کی دعا اور غریب کی دعا اور انجانے کی دعا باپ کی دعا اور ماں کی دعا کی اہمیت کا اندازہ ہوا اور دعا بھی میں بس باپ ہی کی سمجھتا تھا مگر ایک دفعہ ایسا ہوا کہ مجھے اندازہ ہوا کہ ماں کا کہا ایک جملہ دعا کی شکل اختیار کرسکتا ہے کہ بیٹھے بیٹھے ایسے ہی ایک دفع کہ دیا کہ کچھ لکھ لیا کرو کم از کم جو جملے بولتے ہو وہ تحریر کی شکل میں لے آو حالانکہ نہ ان کا ادب سے واسطہ نہ میرا وہ تو بس بڑوں کا ادب اور گھر آنے والوں کی خدمت اور شوہر کی خدمت اور میرا تو اس سے بھی شائد کم ہی واسطہ تھا سواے گنتی کی چند کتابیں اورکورس کی کتابیں تو بس نمبر لانے کے لیے اور ان کے اس جملہ کے ایک سال کے اندر اندر ایسا لکھنے کا شوق ہوا کہ شرمیلے نین سے نین ملانے کا شوق پیچھے رہ گیا اور وہ نین اب کہیں اور چین ڈھونڈ رہے ہونگے اور میں پڑھنے کے شوق سے نکل کر کاروبار کے شوق سے ہوتا ہوا بے ادب دنیا سے ادب کی دنیا میں آ نکلا اور اب بھٹکے ہوے مسافر کی طرح آگے جانے کا رستہ تلاش کر رہا ہوں اور کسی نے کہا کہ افسانہ بھی لکھیں تو میں نے پوچھا وہ کیا ہوتا ہے ؟اور اب یہاں با ادب کھڑا ہوں کسی استاد یا صاحب دعا کے انتظار میں اور شاعری اور نثر میرے دوست بن چکے ہیں اور میری حیات میں شریک ہو کر شریک حیات بن چکے ہیں اور میں ابھی سطح پر ہوں اور تحریر میں آہستہ آہستہ ڈوب رہا ہوں اور ابھی ڈوبا تو نہیں ہوں اور تنقید کرنے والوں کو سجاد بھای کی غزل سنارہا ہوں

ساحل پہ کھڑے ہو تمہیں کیا غم چلے جانا
میں ڈوب رہا ہوں ابھی ڈوبا تو نہیں ہوں
اے وعدہ فراموش میں تجھ سا تو نہیں ہوں
ہر ظلم تیرا یاد ہے بھولا تو نہیں ہوں
چپ چاپ سہی مصلحتاً وقت کے ہاتھوں
مجبور سہی وقت سے ہارا تو نہیں ہوں
مضطر کیوں مجھے دیکھتا رہتا ہے زمانہ
دیوانہ سہی اُن کا تماشا تو نہیں ہوں

اور جو دیکھا ہے اور دیکھ رہا ہوں اور جو سوچ رہا ہوں اسی کو لکھ رہا ہوں
اور وہ کسی کی دعا ہے جو مجھے یہاں تک لے آی اور دعا مانگنے کو کہا بھی گیا ہے

وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِـىٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ

اور تمہارے رب نے فرمایا ہے مجھے پکارو میں تمہاری دعا قبول کروں گا

Noman Baqi Siddiqi
About the Author: Noman Baqi Siddiqi Read More Articles by Noman Baqi Siddiqi: 255 Articles with 290734 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.