ڈوبتی زندگیاں

تحریر:جویریہ جاوید،پکی شاہ مردان میانوالی
کیسے کیوں اورکب ،جانے کب ڈوب گئی یہ ،جانے کس راہ پہ چھوڑآئے وہ دن جب ایک کی خوشی سب کی خوشی ہوتی ،ایک کا غم سب کا غم ہوتا تھا،وہ دن ہی گئے جب گھرکے افرادایک جگہ بیٹھا کرتے یہ زندگیوں کے ڈوبنے کا سلسلہ یوں مضبوط اور لگا تار نہیں چلا بلکہ یہ مضبوط ہوا تو خوبصورت رشتوں کو نگل کے اس نے بڑھاوا دیا ،توٹیلی ویژن کے ذریعے اپنی عمرمیں اضافہ کرتا رہا ،اس کے سلسلے میں بہت سے معصوم بچپن رک سے گئے،ڈوبتے پلوں میں بچپن تک ڈوب گئے ،کل تک جس دیوار پہ رشتے مضبوط تھے گھر کی دوچار عورتیں ایک گھرکی دیوار ہونے کے باوجود اپنے دلوں میں محبت کی دیوار ہٹنے نہ دیتیں ،اور نفرتیں حائل نہ ہوتے ہوئے دن کا ایک پہر باتوں میں گزارتیں آج ہے جہاں ایک مکاں کی دیواریں اتنی اونچی ہوگئیں ہیں کہ چھتوں پہ بسیرا ہوگیا جہاں پہ حفاظتی جنگلے میں عزتوں کو محفوظ کرنے کا دعویٰ بھی ادھوراہے،اوروہی کل جہاں آدھی گری دیوار بھی کبھی رشتوں کو گرنے نہ دیتی تھی،وہ کل تھا جہاں بوڑھے بیٹھتے بیٹھک لگتی گاؤں کے افراددلچسپی لیتے بوڑھوں کی باتوں میں اورعمررسیدہ لوگ اپنی تفریح سے کرتے،اس دورکا نشہ جوکہ حقہ تھا کبھی اتنا بھیانک نہ سمجھا جاتا جس کے دھوئیں میں چھوٹی،درمیانی اور بڑی عمر کے لوگوں کے قہقہوں کے دائرے تھے،مگر آج ہے جہاں دوسگریٹ سے کینسر،دمہ ،کالی کھانسی جیسی بیماریاں لاحق ہورہی ہیں جہاں کل حقے کا دھواں ہوا میں معلق ہوجاتا وہاں آج سگریٹ کا دھواں ساتھ بیٹھے انسان کی بیماریوں کی وجہ بن رہا ہے ،وہ کل جوگزرگیا جس میں ہمارے خوبصورت رشتے اتنے تیزی سے گزرے کہ پتا تک نہ چلا اس کل کی رفتار اتنی تیزکہ یادوں کے دریچوں سے ہوکہ یوں ہوا کے جھونکے سے محسوس ہوا جونہ تو محسوس ہوسکا نہ درخت کی ٹہنی کومکمل حرکت دے سکا،انسان کی ڈوبتی زندگی میں بڑا سایہ ان اشیاء کا ہے ،جن کے بغیر آج شائد ہی ہم زندگی کو نا مکمل کہتے ہیں،ان اشیاء کو ہم اپنے ساتھ لے کر چلتے ہیں ،کہ شائد انسان سست پڑجائے اور نہ جانتے ہوئے بھی سستی کوہاتھوں میں لئے پھرتے ہیں آج ہماری زندگی کی بنیادی اشیاء میں سے بہترین چیزہی موبائل فون بن گیا ہے،جس کو پاکر انسان خوشی محسوس کرتا ہے ،اور ان رشتوں کی اہمیت ہی نہ رہی جوایک بارکھوجائیں توملنا مشکل ہوتا ہے،مگروہ کچھ لوہے اور پلاسٹک سے بنے کھوکھلے سے کھولنے کو رشتوں کی بنیاد بنادیا جاتا ہے،حال چال پوچھنے کا وقت نہیں ایک پیغام چھوڑدیا جاتا ہے،جوکہ ہوامیں لہروں سے دوسرے تک پہنچتا ہے،اور جواب تک نہ دینے کا وقت اوردولوگوں کے درمیان غلط فہمی کا سبب بنتے ہیں ،کاش یہ دویا تین انسان دل سے اور خوشی سے ایک دوسرے سے کرتا توکتنا خوبصورت اور پرسکون ،نفرتوں سے پاک ماحول میسرآتا،کاش انسان کی نظراس اسکرین سے ہٹ جاتی،جواس کی نظرمیں جدائی کا باعث ہے اور ان رشتوں کی طرف اٹھ جائے جن سے آنکھوں کو خوشی جیسی روشنائی میسرآتی ہے،روشنیوں کے حسین سفرکا خواب جس میں اندھیری راتوں کوقیام ہوتا ہے،اندھیری راتوں میں صبح کی روشنی کو نہ دیکھے،اور صبح کی تروتازہ اور خوبصورت زندگی کودیکھنے کی حقیقت کھوسی جاتی ہے،انسان اس حقیقت کوتوپانہیں سکتا،البتہ کل شام کل نائٹ پارٹی اور کل کی رات کے کھانے (ڈنر)یعنی یوں شام کو رشتوں کے نام کرکے رشتوں کو اس تاریکی میں ڈبودیتا ہے،اور اس حقیقت یعنی دن کی رنگینیوں کو نمازچھوڑکر نیندپوری کرتا ہے ،انسان آج کی نہ سوچ کہ کل جس کا کا کسی کو نہیں پتا،اس سے امیدلگا دیتا ہے،انسان اپنا کل سنوارنے کے لئے آج کی فکرچھوڑدیتا ہے،انسان ایسا کیوں نہیں کرسکتاکہ اپنے کل کوبہتر کرنے کے لئے آج کو بہترکرے ،ہرکل کوبہترکرنے میں آج کی بہتری کا بڑا عمل دخل ہے،انسان کی دوڑایک ہوائی جہازکی سپیڈسے بھی زیادہ ہوتی جارہی ہے،وہیں رشتوں کی ڈور اتنی ہی کچی کہ ان کے کریش ہونے کا خطرہ زیادہ ہوجاتا ہے،انسان کی اس زندگی میں رشتوں کواپنی ہی اہمیت حاصل ہے،جتنی کہ آٹے میں نمک،اگرروٹی میں نمک نہ ہوتوزائقہ اوراس کے نہ ہونے سے نمک کی شدیدسی کمی ہوتی ہے،ویسے ہی انسان جس طرح قدرتی رشتوں پہ دل کے رشتوں رشتوں پہ مصنوعی اشیاء کوترجیح دے رہا ہے،جانے کب یہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائیں کوئی علم نہیں جب ماں باپ کے ہاتھ مددکوآگے بڑھے ،بہنوں اوربھائیوں کے حوصلے کی پروان چڑھتی ہے،تب انسان کواحساس ہوتا ہے،کہ ہم کس دنیا میں جی رہے ہیں اورہم ان رشتوں کوکتنا پیچھے چھوڑکرآگے نکل آئے تھے،آگے پہنچ کر یہ بھی نہ دیکھا کہ پیچھے ہم رشتوں کے خزانے کوچھوڑ کرآگے کھائی کے دھانے پہ کھڑے ہیں سب سے پہلے وہ مضبوط اشیاء ہی دیکھیں گی جس کے پیچھے مصنوعی رشتے چھپے ہوں گے،جس میں خوبصورت رشتوں کو ڈھونڈ نا مشکل ہوگا،دنیا میں فیس بک،وٹس اپ اوربے شمار ایپ پہ ہزاروں نام کے رشتے جائیں گے مگران ہزاروں میں درددل اوراحساس والے رشتے کم ہوں گے،کیوں کہ میں نہیں سمجھتی کہ دوست وہ ہے جوجان دینے کا دعویٰ کرتا ہے،جس کے ساتھ روزگھوما پھراجائے،جس کے آگے یہ کہنے کوبھی شرمندگی ہوکہ یارمیرے پاس پیسے ختم ہیں،آج تک میں نے وہ اولادیں بھی دیکھی ہیں ،جودوست کے لئے ماں باپ سے لڑپڑتیں ہیں،جوکہتی ہیں بابا آج زیادہ پیسے دیجیئے گا مجھے اس دوست کے ساتھ گھومنے جانا ہے،جس کے پاس بڑی گاڑی ہے،میں کم پیسوں کے ساتھ اس کے سامنے شرمندہ نہیں ہونا چاہتا،بلکہ دوست تووہ ہے جومددکرکے بھی نہیں بتاتا،ایک مشہورکہاوت ہے کہ نیکی کردریا میں ڈال انسان کی عقل اور انسان سے غلاف کے پیچھے چھپے انسان کا صبرتب ہی ظاہرہوتا ہے،جب وہ نیکی کرتا ہے،یا کسی کی مددکرتا ہے،کیونکہ گناہ کرکے یا برائی کرکے تواس کوچھپانا توہرکوئی جانتا ہے،مگرنیکی کرکے چھپانا مشکل کام ہے،کیونکہ ہرانسان دوسرے انسان کی نظرمیں اونچا ہونا چاہتا ہے،اور ہرجگہ جتانا آداب اسلام کے خلاف ہے،کیونکہ ہمارے رسول ﷺ کی تعلیمات بھی یہی کہتی ہیں،کہ جب کسی کے ساتھ نیکی کرو توکبھی بھی محفل میں اس کو جتاؤ نہیں تاکہ وہ محفل میں خودکوکمترمحسوس نہ کرے،رشتوں کے اس لمبی سی chainمیں جس میں کچھ ہمارے مخلص توکچھ ہمارے فرضی ہیں کیونکہ ماں باپ سے بڑا کوئی مخلص نہیں براہ کرم ان رشتوں کی قدرکریں اورکبھی بھی ایک رشتے کے لئے دوسرے رشتے کی ڈورکونہ کاٹو،بلکہ کوشش کریں کہ ایسے حالات ہی پیدا نہ ہوں،اوراگرکچھ ایسے حالات بن بھی جائیں توبات چیت اور صلح سے سلجھائیں،اور براہ کرم اﷲ کے بنائے ہوئے ان خوبصورت رشتوں کوکھونے سے ڈریں ،حسداورکینہ سے بچیں کیونکہ دنیا میں رشتے ہی زندگی کوخوبصورت بناتے ہیں،اور خوشیوں کا باعث ہوتے ہیں،مولا ئے کائنات آپ سب کو اور تمام دنیا وعالم میں ہررشتے کو سلامت رکھے ،آمین۔

Talha Khan
About the Author: Talha Khan Read More Articles by Talha Khan: 60 Articles with 40934 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.