ُڈیالیسز سے جنگ

بسم اللہ الرحمان الرحیم
ڈیالیسز کے بارے میں چند معلومات

• ڈیالیسز کیا ہے۔جب ہمارے گردے کسی وجہ سے ناکارہ ہوجاتے ہیں ۔گردے سیال مواد کو صاف کرکے پیشاب کے زریعہ سے زہریلے مواد کو جسم سے نکال دیتا ہے۔اگر یہ مواد باہر نہ آسکے تو انسان کے اندر پیدا ہونے والے زہر سے انسان بیمار ہوجاتا ہے۔
• اس کے دو بنیادی علاج ہیں۔
• ڈیالیسز کے زریعہ سے اس کے جسم کی صفائی کی جائے۔
• ایک ڈیالیسز تو کسی طبی ادارہ میں جاکر ڈاکٹرز اور نرسز کی نگرانی میں کیا جاتا۔جس کے لئے چار گھنٹے کے لئے آپ کو بیڈ پر لگا تار لیٹنا پڑتاہے۔جس کے دوران مشین کے زریعہ سے آپ کے جسم سے پر دو پتلی نالیاں سوئیوں کی مدد سے ایک رگ میں پیوست کی جاتی ہیں۔ایک نالی سے خون نکل کر مشین میں پہنچتا ہے ۔اس کی صفائی کے بعد دوسری نالی کے زیعہ وہ صاف خون جسم میں واپس پہنچنا شروع ہو جاتا ہے۔یہ عمل چار گھنٹے تک مسلسل ہوتا ہے۔
• دوسرا آپ اسپتال س سے قواعد وضوابط کے ساتھ ایک مشین اپنے گھر بھی رکھ سکتے ہیں۔لیکن زیادہ تر لوگ بوجوہ اسپتال ہی جانا پسند کرتے ہیں۔
• دوسرا علاج ٹرانسپالانٹ ۔۔اگر جیب اور ڈاکٹرز اجازت دیں تو ٹرانسپلانٹ بھی ممکن ہے۔لیکن یہ قسمت کی بات ہے۔میرے علم کے مطابق اگر گرد ہ مل بھی جائے تو بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ نیا ملنے والا گردہ بھی ناکارہ ہوجاتا ہے۔بعض اوقات آپ کی دیگر بیماریاں بھی اس عمل میں حائل ہوجاتی ہیں۔
• طریق کار۔
• یہ علاج ایک ہفتہ میں تین بار ہوتا ہے۔
• اس کادورانیہ چار گھنٹے سے زائد ہوتا ہے۔
• اسپتال میں آنے جانے اور علاج کے لئے دن کا بیشر حصہ اسی بھاگ دوڑ میں گزر جاتا ہے۔
• ڈاکٹر مریض کی صحت کے مطابق اس کا وزن مقرر کردیتا ہے۔اس کے بعد جب بھی ڈیالیسز کے لئے آتا ہے۔اسے اپنا وزن کرنا ہوتا ہے۔جس قدر اس کے مقررہ وزن سے زائد ہوگااسے نکال لیں گے۔ڈیالیسز کے بعد آپ کا وزن وہی ہونا چاپیے ۔جو پہلے مقرر تھا۔
• مریض کے بازو میں کسی مناسب جگہ پر اپریشن کرکے ایک باریک سا پائپ ڈال لیا جاتا ہے۔جسے فِسٹولا کہتے ہیں۔
• ہر دفعہ یہاں پر دو مختلف جگہوں پر سوئیوں سے پیوستہ نالیاں لگائی جاتی ہیں۔ایک نالی سے خون مشین تک پہنچتا ہے جبکہ دوسری نالی سے صاف ہو کر واپسی کا سفر کرتا ہے۔
• اگر سیال مواد جسم میں رہ جائے تو پھر مختلف جگہوں پر سوج ہوجاتی ہے۔زیادہ تر ٹخنوں اور پنڈلیوں کے ابھار سے چیک کرتے ہیں۔
• اگر پانی زیادہ جمع ہوجائے تو سانس لینے کی تکلیف ہوجاتی ہے۔
• اگر جسم یا دیگر متعلقہ ماحول اور سامان کی صفائی کا مناسب خیال نہ رکھا جائے۔تو مریض انفیکشن کا شکار ہوجاتا ہے۔جو کافی تکلیف کا سبب ہوتی ہے۔
• بہت سارے مریض جو ایشین ممالک میں سفر پر جاتے ہیں۔ مناسب سہولیات اورمعیار صفائی کی کمی کے باعث وہاں جاکر انفیکشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔
• ڈیالسز کے آغاز سے لے کر اختتام تک تین بار بلڈ پریشر چیک کیا جاتا ہے۔
• بلڈ پریشر کے زیادہ یا کم ہونے کی صورت میں نرسز بنیادی حل نکال لیتی ہیں۔اس دوران کسی بھی ایمر جینسی سے نمٹنے کے لئے متعلقہ کڈنی ڈاکٹرز سے رابطہ رہتا ہے۔

• ڈیالیسز ایک موذی مرض ہمارے معاشرہ میں بہت ہی خطرناک شمار ہوتا ہے۔یہ حقیقت ہے چند دہائی قبل اس مرض کا شکار کچھ ہی عرصہ کے بعد راہی ملک عدم ہوجاتا تھا۔کیونکہ متوسط ممالک میں اس کا علاج معاشی طور پر ایک آدمی کے لئے ناقابل برداشت ہوتا تھا۔اب تو پاکستان میں بھی اس کا علاج قابل برداشت ہے۔
• لیکن ایک طبقہ اب بھی اس کے اخراجات برداشت کرنے سے قاصر ہے۔مجھے سپین کے ایک اسپتال میں ایک پاکستانی مریض سے ملاقات ہوئی۔جو گردے ناکارہ ہونے کی وجہ سے زیر علاج ہے۔یہ مریض یہاں محنت مزدوری کے لئے آیا ہو ا ہے اسی دوران اسے یہ مرض لاحق ہوگئی۔کہنے لگا کئی ماہ سے اسپتال میں پڑا ہوں۔کوئی پُرسان حال نہیں ہے۔میں نے کہا ۔آپ واپس وطن اہل خانہ کے پاس چلے جائیں ،کہنے لگا،پاکستان میں ڈیالیسز کے اخراجات میرے لئے ناقابل برداشت ہیں۔اور یہی حقیقت ہے۔کیونکہ سنا ہے۔ایک سیشن کے متفرق اخراجات دس ہزار روپے کے قریب آجاتے ہیں۔اس کا مطلب یہ کہ ایک ماہ میں ایک لاکھ روپے سے زائد خرچ ہوجاتے ہیں۔یہ رقم ایک عام پاکستانی شہرکی سکت سے بالا ہے۔
• حقیقت یہ ہے۔یہ بیماری اگرچہ تکلیف دہ مرض ہے۔لیکن ایسی بھی نہیں ہے کہ نعوذ باللہ آپ معذور ہوجاتے ہیں۔
• میں نے بہت سے ایسے مریض دیکھے ہیں پندہ بیس سال سے ڈیالیسز کرارہے ہیں اور اس کے ساتھ معمول کے مطابق زندگی بسر کررہے ہیں۔
• اس مرض کا مقابلہ دوائیوں سے زیادہ آپ نے اپنے رویہ سے خود کرنا ہے۔جرمنی میں ایک نوجوان کے گردے ختم ہوگئے۔ڈاکٹرز نے ڈیالسز شروع کرادئے۔لیکن لوگوں کی خوفناک باتیں سن سن کر بددل ہوگیا۔ڈیالسز سے اسے خوف پیدا ہوگیا۔ڈیالیسز کرانے سے انکار کردیا۔جس کے باعث بیچارہ جلد فوت ہوگیا۔
• اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ دنیا کا ہر انسان کسی نہ کسی بیماری کا شکار ہے۔مجھے بھی ایک بیماری ہے جس کا نام گردوں کا ناکارہ ہونا ہے۔اس لئے میں بھی عام انسانوں کی ہی طرح ہوں۔
• میں جب بیمار ہوا۔دوسرے احباب کی باتوں نے نفسیاتی طور پر زیادہ بیمار کردیا۔ڈیالیسز کی خاطر اسپتال گیا۔یہ ایک کشادہ سا ہال تھا۔جس میں بہت سارے مریض تھے۔میرے قریب ایک انگریز خاتون کا بیڈ تھا۔اس سے علیک سلیک ہوئی۔اس سے بیماری کے بارے میں پوچھا اس نے بتا یاکہ عرصہ بارہ سال سے زیر علاج ہوں ۔نیز بتایا کہ اسپتال سے کافی دور رہتی ہوں۔روزانہ ایک گھنٹہ ڈرائیو کرکے یہاں آتی ہوں اور رات گیارہ بجے اتنا ہی ڈرائیو کرکے واپس جاتی ہوں۔نیز اس نے بتایا کہ میرا ایک بیٹا جو یونیورسٹی میں پڑھ رہا ہے۔میں اسے ایک بیمارماں نہیں دینا چاہتی۔ تاکہ اسے کسی قسم کا احساس کمتری نہ پیدا ہو۔
• اس کی باتوں کا مجھ پر مثبت اثر ہوا۔میں نے سوچا یہ ایک عورت ہوکر اتنی مضبوط ہے ،میں تو مرد ہوں۔میں گھر گیا اور اگلے روز اپنی گاڑی نکالی اور پھر معمول کی زندگی شروع کردی۔اب اس بات کو چھ سال ہوگئے ہیں ،اللہ کے فضل سے ڈیالیسز نے کبھی بھی میرے معمولات میں اثر نہیں کیا۔
• اے آزمانے والے یہ نسخہ بھی آزما
• میں نے اپنے محلہ میں اپنی کونسل سے ایک پلاٹ لے رکھا ہے۔جس میں میں اپنے فارغ اوقات میں کام کرتا ہوں۔میں نے بہت سی سبزیاں لگا رکھی ہیں۔ہر پودا کے اُگنے پھر اس کے بڑھنے، اس پر پھل پھول لگنے سے مجھے بہت زیادہ خوشی ہوتی ہے۔اس کے بعد وہ سبزیاں،پھل اور پھول میں اپنے دوستوں کو تحفہ میں دے دیتا ہوںجو صحت کے لئے ایک مجرب نسخہ کا کام دیتی ہے۔
• آخری بات۔اللہ کاشکر ادا کریں۔اس کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کریں۔اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہوں۔آ پ آج بھی بہت سے لوگوں سے بہتر زندگی گزار سکتے ہیں۔
• وقت سب پر آنا ہے۔لیکن وقت سے پہلے ہی اپنے آپ کو معذور نہ بنادیں۔
گر قبول افتد زہے عز وشرف

 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Munawar Khursheed
About the Author: Munawar Khursheed Read More Articles by Munawar Khursheed: 47 Articles with 52425 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.