خداکرے کہ میری یہ تحریرصدابہ صحراثابت نہ ہواوریہ
حکمرانوں کے محلات کے بلند وبالا دروازوں پر ان مفلوک الحال لوگوں کی طرف
سے دستک کاذریعے بنے۔ ان لوگوں کی آوازیں ہمیشہ دبی جاتی ہیں اوران کے بچے
بھوک، افلاس، بیماریوں اورپیاس کی شدت سے تڑپ تڑپ کرمر ے جارہے ہیں ۔انکی
حالت زار توجہ کی منتظرہے کہ حکمران وقت اپنی مصروف زندگی اورکابینہ کے
گوناگوں مسائل میں سے کچھ لمحات نکال کر، ملک کے اس مفلوک الحال طبقہ کی
حالت زارپرتوجہ دے۔
وزیراعظم صاحب نے اقتدارمیں آنے سے پہلے قوم سے بہت وعدے کئے تھے ۔ انکی
باتیں انکی صورت کی طرح دلاویزتھیں اورپراثربھی تھیں کیونکہ بقول اقبال ،
دل سے جوبات نکلتی ہے اثررکھتی ہے۔ ہمارابھی قوی یقین تھاکہ یہ ساری باتیں
دل سے نکلتی ہیں اوراس وجہ سے اس ملک کے عوام بالخصوص وہ مفلوک الحال طبقہ
، جس کانوحہ میں بیان کررہاہوں، بے حدمتاثرہوا۔انہی لوگوں نے عمران خان کو
مشکل کی اس گھڑی میں اپنامسیحاسمجھااورتبدیل کے نعرے پرلبیک کہا۔مدینہ کی
فلاحی ریاست کے خواب دیکھنے والے یہ غریب لوگ آج بھی انتظار میں ہے کہ
وزیراعظم صاحب اپنے وعدے ایفاکرے اورتبدیلی کے اثاراس مفلوک الحال طبقے میں
بھی نظرآئے۔عمربن عبدالعزیزنے خلافت کی ذمہ داری سنبھالتے ہوئے چندماہ میں
اپنے ملک کانقشہ بدل ڈالاتھاکیونکہ انہوں نے زمین کو عدل دیا اوراﷲ تعالیٰ
نے انکے عوام کو ایسی خوشحالی دی، جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ موجودہ
حکومت کو تقریباً ایک سال کاعرصہ ہوگیاہے اورشاید اگلے ماہ حکومت نئے مالی
سال کابجٹ پیش کرے۔اب دیکھتے ہیں کہ حکومت کااونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔
اس وقت ملک میں سب سے زیادہ اذیت ناک زندگی مزدورطبقہ کی ہے، جن کی یومیہ
اجرت تقریباً پانچ سوروپے ہے۔یہ لوگ صبح سے شام تک تپتی دھوپ میں اپناخون
پسینہ ایک کرکے مشکل سے پانچ سوروپے کماتے ہیں وہ بھی اس شرط پہ کہ انہیں
کام ملے۔ اب سوچنے کی بات ہے کہ پانچ سوروپے میں وہ بچوں کے لئے کھانے پینے
کابندوبست کرے، انہیں تعلیم دلوائے یابیماربچوں کاعلاج کروائے۔دوسری طرف
پانی، بجلی، گیس کابل اورمکان کاکرایہ اداکرنابھی انکے ذمے ہوتاہے۔اتنے
محدودآمدن میں اتنے اخراجات پوری کرناناممکن امرہے۔ستم بالائے ستم یہ ہے کہ
آئے دن مہنگائی اورنئے نئے ٹیکس ان سے جینے کاحق چھینتے جارہے ہیں۔
اسی طرح سرمایہ دارطبقے کے زیراثرکام کرنے والے بے شمارمزدورایسے بھی ہیں ،جو
پانچ ہزارروپے سے لیکر دس ہزارروپے تک ماہانہ تنخواہ پر کام کرتے ہیں۔
موجودہ دورکے اخراجات کااگراس آمدن کے ساتھ موازنہ کیاجائے توبہت آسانی سے
یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ یہی تنخواہ ایک معمولی خاندان کے لئے پانچ دن کے
اخراجات بھی پورے نہیں کرسکتی۔ہمارے ملک میں تعلیم یافتہ افرادکاایک طبقہ
ایسابھی ہے، جو پرائیویٹ سکولوں میں ، جہاں سکول مالکان کو ماہوارلاکھوں کی
آمدنی ہوتی ہے، لیکن وہاں بچوں کو پڑھانے والے اساتذہ کرام کو چھ ہزارروپے
سے لیکر پندرہ ہزارروپے تک تنخواہ دی جاتی ہے۔اس ملک کے اندراکثریت ایسے
لوگوں کی ہے، جن کی اوسط ماہوارآمدنی بیس ہزارروپے سے کم ہے جبکہ آئے دن
انکے اخراجات میں اضافہ ہوتاجارہاہے۔ہردورمیں حکومت عوام کامعیارزندگی بلند
کرنے کے لئے حکمت عملی بناتی ہے ،جس کے تحت وزراء، ارکان پارلیمنٹ، صوبائی
اسمبلیوں کے ممبران، بیوروکریٹس اورمختلف محکموں میں کام کرنے والے بڑے بڑے
افسروں کو نئے نئے الاونسزدئے جاتے ہیں تاکہ وہ معاشی بدحالی کے اس دور میں
خوشحال زندگی گزارسکے اوران کے بچوں کو پاکستان جیسے غریب ملک میں جنت جیسی
زندگی نصیب ہولیکن دوسری طرف ملک کایہی مفلوک الحال طبقہ زندگی کی بنیادی
ضروریات کو ترستاہے لیکن ان کاپرسان حال کوئی نہیں ہے۔ان لوگوں کی آنکھیں
حکومت کی طرف ہے کہ اقتدارمیں آنے سے پہلے موجودہ حکومت نے عوام کو
جوسبزباغ دکھائے تھے ، شایدان باغوں کاپھل پکنے کے قریب ہے ،بس حکومت کے
حکم کاانتظارہے۔گذشتہ ایک سال سے عوام جن مشکلات سے گزرے ہیں اور حکومت کے
مخالف طبقے کے جو طعنے برداشت کئے ہیں، اب وقت ہے کہ حکومت ایسے فیصلے کرے،
جس سے ملک کے مفلوک الحال لوگوں کی زندگی سنورجائے۔ مہنگائی میں کچھ کمی
آئے۔ کم آمدنی والے لوگوں کو خصوصی پیکجزدئے جائے۔ بجٹ میں کم آمدنی والے
ملازموں کو ریلیف دیاجائے اورجن کی آمدنی زیادہ ہے، ان پر مزیدٹیکسز لگادئے
جائے تاکہ ملک کے وسائل کی تقسیم مساوی بنیادوں پر ہو۔بجلی، گیس، تیل
اوردیگرضروریات زندگی میں عوام کو خصوصی ریلیف پیکجز دئے جائے ۔تعلیم
اورصحت کو زیادہ سے زیادہ بجٹ دیاجائے تاکہ ان شعبوں میں مزید بہتری لائی
جاسکے۔ |