دنیا بھر میں پچیس اپریل کو منائے جانے والے ورلڈ ملیریا
ڈے کے حوالے سے وطن عزیز پاکستان میں بھی محکمہ صحت، سرکاری ،غیر سرکاری
تنظیمیں تمام شہروں میں خصوصی اسٹالز لگاتے اور سیمینارز کا اہتمام کرتے
ہیں عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں ہر سال پانچ لاکھ سے زائد افراد
اس بیماری کا شکار ہو تے ہیں، جبکہ ہزاروں اس مرض کے باعث موت کا شکار ہو
جاتے ہیں ،اگر دنیا بھر میں دیکھا جائے تو رپورٹ کے مطابق ہر سال کم و بیش
بیس کروڑ افراد ملیریا کا شکار ہوتے ہیں جن میں سے زیادہ تعداد افریقہ اور
صحرائی علاقوں میں بسنے والے لوگوں کی ہوتی ہے،اس بیماری کی تاریخ بہت
پرانی کہا جاتا ہے کہ 2700 قبل مسیح میں بھی اس بیماری کے اثرات پائے جاتے
تھے ،ملیریا اطالوی لفظ mal،ariaسے ماخوذ ہے جسکا مطلب ہے "برُی ہوا" ۔
اٹھارھویں صدی تک بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ یہ بیماری بدبودار بخارات یا
آلودہ ہوا کے ذریعہ منتقل ہوتی ہے، 1897 برطانوی ماہر طب رونالڈ روس نے
دریافت کیا کہ مچھر ہی ایسا ذریعہ ہے جو یہ بیماری منتقل کرتاہے سائنسدانوں
نے بعد ازاں پتا لگایا کہ صرف مادہ اینوفیلز مچھر ہی پیراسائٹس منتقل کرتے
ہیں انوفلیز مچھر کی 60 مختلف مادہ قسمیں ہیں، ماہرین طب کا کہنا ہے کہ
ملیریا کی بیماری ایک خاص قسم کے اینوفلیز کی مادہ کے کاٹنے سے پھیلتی ہے
یہ مادہ مچھر کسی ملیریا سے متاثرہ شخص کو کاٹتا ہے تو اس شخص کے خون سے
ملیریا کے جرثومے اس مچھر میں منتقل ہو جاتے ہیں یہ جرثومے پھر مچھر کے جسم
ہی میں نمو پاتے ہیں اور تقریبا ایک ہفتے بعد جب یہ مادہ مچھر کسی تندرست
شخص کو کاٹتی ہے، تو پلازموڈیم یا ملیریا کا جر ثومہ اس صحت مند شخص کے خون
میں شامل ہو جاتا ہے جب یہ جرثومے ایک خاص تعداد میں پیدا ہو جاتے ہیں
تومریض پر اس بیماری کا حملہ ہو جاتا ہے ،سنکونا درخت کی چھال سے حاصل کردہ
کونین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ 1600 کی دہائی سے ملیریا کے خلاف مؤثر
رہا ہے، ماہرین طب کا کہنا ہے کہ ملیریا کی علامات یہ ہیں کہ مریض کو پہلے
سردی لگتی ہے، متلی ہوتی ہے، قے آتی ہے پھر اسہال، شدید جسمانی کمزوری،
پٹھوں کا دُکھنا، پیٹ، کمر اور جوڑوں میں درد، کھانسی گھبراہٹ اور سر درد
جیسی علامات واضح ہوتی ہیں ملیریا کی علامات عموماََ انفیکشن ہونے کے 6 سے
30 دن کے بعد نظر آتی ہیں اسکی علامات نظر آنے میں بارہ مہینے بھی لگ سکتے
ہیں،یہ بیماری مریض کے لیے جان لیوا بھی ہو سکتی ہے،سانچ کے قارئین کرام !ایک
معتبر زرائع کے مطابق وزارت صحت کے زیر انتظام کام کرنے والے ڈائریکٹوریٹ
آف ملیریا کنٹرول یا ڈی ایم سی کی طرف سے تیار کردہ سالانہ ملیریا رپورٹ
میں بتایا گیا ہے کہ پورے ملک میں اس بیماری کے ہر سال قریب ایک ملین کیسز
ریکارڈ کیے جاتے ہیں پاکستان کے اٹھائیس اضلاع ایسے ہیں، جو اس بیماری سے
سب سے زیادہ متاثر ہیں اگر ہم ملیریا رپورٹ دو ہزار سولہ کا ذکر کریں تو اس
میں کہا گیا کہ اٹھانوے فیصد پاکستانیوں کو ملیریا کا شکار ہو جانے کا خطرہ
ہے، تیس فیصد یا ساٹھ ملین کے قریب پاکستانیوں کو ملیریا کے شدید خطرے کا
سامنا ہے یہ بیماری ان اضلاع میں بہت زیادہ پھیلی ہوئی ہے، جو پاکستان کی
افغانستان اور ایران کے ساتھ قومی سرحدوں پر واقع ہیں،ملیریا کی بیماری کی
روک تھام کے لئے موثر دوائیاں اگرچہ موجود ہیں لیکن ملیریا کو روکنے کے لیے
کچھ اہم اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے سب سے پہلے گھروں میں مچھروں کی
افزائش اورآمد کو روکنے کے لئے ضروری ہے کہ صفائی کا مناسب انتظام کیا جائے
مچھر کی افزائش میں معاون ثابت ہونے میں کھڑا پانی اہم کردار ادا کرتا ہے
جہاں کہیں پانی اکٹھا ہو گا، چاہے تالاب ہو یا کوئی گڑھا، وہاں مچھر نظر
آئیں گے یہاں ان کے انڈے، لاروے وغیرہ عموماً پائے جاتے ہیں غیرضروری طور
پر پانی کو کھڑا ہونے سے روکیں ضرورت پڑنے پر ادویات سے مچھروں اوراُنکے
انڈوں وغیرہ کو تلف کیا جا سکتا ہے کھڑے پانی کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ
مچھر مار سپرے ،لوشن یا دیگر انتظامات گھروں میں کیے جائیں خاص طور سوتے
ہوئے مچھر دانی کا استعمال ضروری ہے ،پنجاب میں ماہ مارچ کے وسط میں حکومت
کی جانب سے ہفتہ صفائی کا اعلان کیا گیا لیکن افسوس کہ اسکا حال بھی گزشتہ
صفائی مہم کی طرح ہوا چند مقامات پر صفائی اور بڑے بڑے پرگراموں پر لاکھوں
خرچ کر دیے گئے جبکہ شہر سے ملحقہ علاقوں اور سڑکوں کے کنارے گندگی کے ڈھیر
صفائی مہم اور انتظامیہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان چھوڑ گئے نہر وں میں
کچڑے اور صفائی پر کوئی توجہ نہ دی گئی بلدیہ کے عملے کا کردار بھی چند
شاہراؤں تک محدود رہا پارکوں ،گلی محلوں کی صفائی پر توجہ نہ دی گئی بلکہ
اخباری بیانات اور رپورٹس میں صفائی مہم میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے کی خوشی
میں لاکھوں روپے خرچ کر کے تقریبات کا انعقاد کیا گیا جبکہ انہی دنوں میں
گندگی پر مچھروں کی افزئش وسیع پیمانے ہورہی تھی جو مختلف بیماریوں کے ساتھ
ساتھ ملیریا کے پھیلنے کا سبب بھی بن رہے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ملیریا
اور اس جیسی دیگر بیماریاں جو مچھر کی وجہ سے ہو سکتی ہیں کے خاتمے اور ان
سے بچاؤ کے لیے اپنے گلی محلوں ،شہروں ،دیہاتوں کو صاف ستھرا رکھیں اور
انتظامیہ خاص طور پر بلدیہ کا عملہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرے افسران
بالا سب اچھا کی رپورٹس پر خوش ہونے کی بجائے شہر سے ملحقہ علاقوں،سڑکوں کے
کناروں پر پھیلے گندگی کے ڈھیروں کو ختم کرنے کے لئے واضح پالیسیاں بناتے
ہوئے اُن علاقوں کا سرپرائز وزٹ کریں ٭٭٭ |