تحریر:ام محمد عبداﷲ
’’شاباش سائرہ صبح بہت اچھے سے باورچی خانہ صاف کیا تم نے۔ اب دادی جان کو
اچھی سی چائے بھی پلا دو‘‘، امی جان نے سائرہ کو سراہتے ہوئے دادی جان کی
جانب دیکھا۔ ’’ماشاء اﷲ آپ کی پوتی بہت سلیقے والی ہے۔ ابھی تو چھوٹے چھوٹے
کام ہی کرواتی ہوں اس سے لیکن کمال خوبی سے کرتی ہے‘‘،, امی جان دادی جان
کی جانب دیکھ رہی تھیں جب کہ دادی جان کی نگاہیں مسلسل کرن کے چہرے کے بنتے
بگڑتے تاثرات پر تھیں۔
سائرہ چائے بنا کر لائی تو کرن نے یکدم اونچی آواز میں اس کو مخاطب کیا،
’’سائرہ آپی کل آپ سے دودھ گر گیا تھا ناں آج تو دھیان سے بنائی نہ چائے
دودھ تو نہیں گرایا‘‘۔ بظاہر معصومیت سے بولتی کرن جہاں امی جان کی باتوں
کی نفی کر کے انہیں شرمندہ کر گئی تھی وہیں سائرہ بھی اس بے محل غلطی
آشکارہ ہونے پر پریشان ہو گئی تھی۔ کرن کے چہرے پر دھیمی سی مسکراہٹ آ گئی
تھی۔ جسے دادی جان کے سوا کسی نے محسوس نہیں کیا اور بات آئی گئی ہو گئی۔
’’ارے دادی جان سنائیں ناں کہانی‘‘، رات کو سب بچے دادی جان کے گرد جمع تھے۔
’’اچھا بھئی سنو کہانی‘‘، سب بچے یکدم خاموش ہو کر جیسے فقط کان بن گئے۔
’’ایک خوبصورت وادی تھی۔ بلند و بالا پہاڑوں کے درمیان سر سبز و شاداب وادی۔
سبزے سے لہلاتی، جھرنوں سے گنگناتی، رنگا رنگ پھولوں کی خوشبووں سے ہواؤں
کو مہکاتی اس وادی میں ایک چھوٹا سا گھر تھا۔ اس گھر میں دو بہنیں رہتی
تھیں۔ ندا اور ردا۔ دونوں بہت پیاری اور اچھی بچیاں تھیں۔ خوب دوستی اور
محبت تھی دونوں بہنوں میں۔ دوڑ دوڑ کر سارے گھر کا کام کرتیں اور امی ابو
کی ہر بات مانتیں۔ لیکن پھر اچانک‘‘، دادی جان سانس لینے کو رکیں تو بچوں
کے تو گویا سانس ہی اٹک گئے۔ ’’کیا ہوا اچانک؟‘‘ کاشف نے بے قرار ہو کر
پوچھا۔ ’’ندا بیمار پڑ گئی اور بیماری بھی ایسی ویسی نہیں تھی۔ بڑی خطرناک
بیماری تھی‘‘، کمرے کی مدھم روشنی اور دادی جان کے لہجے کے اتار چڑھاؤ نے
بچوں کو اپنے سحر میں لے لیا تھا۔ ’’کون سی بیماری لگ گئی اسے؟‘‘ کرن کی
آواز میں پریشانی نمایاں تھی۔ ’’کیا کینسر؟‘‘ ’’نہیں بھئی کینسر سے بھی
خطرناک بیماری۔ اس کے دل میں ایک سیاہ نقطہ لگ گیا جو کہ بے احتیاطی کی وجہ
سے پھیلتا جا رہا تھا اور تو اور اس کی بیماری کے اثرات ردا پر بھی پڑ رہے
تھے‘‘۔ ’’ردا بھی متاثر ہو رہی تھی ندا کی بیماری سے پھر تو واقعی میں یہ
بہت خطرناک بیماری تھی‘‘، سائرہ نے تبصرہ کیا۔
’’بھئی بچو! تم لوگ بولتے بہت ہو۔ اب اگر کوئی کہانی کے درمیان بولا تو میں
کہانی نہیں سناؤں گی‘‘، دادی جان نے بچوں کو دھمکی دی۔ سب بچے ایک بار پھر
دم سادھے خاموش ہو گئے۔ ندا اور ردا کے والد حکیم صاحب تھے۔ ایک دن انہوں
نے ردا اور ندا کو کھیل، پڑھائی اور گھر کے کاموں کے درمیان لڑتے دیکھا تو
سمجھ گئے کہ ندا بیمار ہے اور ردا اس کی وجہ سے بیمار پڑ رہی ہے۔ وہ جلدی
سے اپنے مطب میں گئے اور ایک سنہرا اور ایک نقرئی کیپسول اٹھا لائے۔ سنہرا
کیپسول انہوں نے ندا جب کہ نقرئی ردا کو کھلا دیا۔ رات ہو چکی تھی اس لیے
دونوں بہنیں جلد ہی سو گئیں۔
اگلی صبح نہایت روشن اور پاکیزہ تھی۔ دوا اثر کرنے لگی تھی۔ ندا نے ردا کی
جانب دیکھا جس نے شوخ رنگ کا دوپٹہ اوڑھ رکھا تھا۔ ردا کو جب بھی ندا اس
دوپٹے میں دیکھتی تھی تو اسے دل میں بہت گھٹن محسوس ہوتی تھی اور اس کا جی
چاہتا تھا کہ یہ دوپٹہ وہ اس سے چھین کر خود اوڑھ لے۔ لیکن آج جیسے ہی اسے
گھٹن محسوس ہوئی ساتھ ہی اس کی نظریں اپنے دوپٹے پر آ کر ٹھہر گئیں اور وہ
خود بخود اپنے دوپٹے کے لیے اﷲ کا شکر ادا کرنے لگی۔ اﷲ سے اپنے لیے فضل
عظیم کا سوال کرنے لگی ساتھ ہی ساتھ خود بخود اس کے منہ سے ردا کے دوپٹے کے
رنگ ہمیشہ قائم رہنے کے لیے دعا بھی اس کے لبوں پر جاری ہو گئی۔
تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ دونوں بہنیں گھر کے کام میں ماں کا ہاتھ بٹانے
لگیں۔ ندا کی عادت تھی کہ کام کے دوران اگر ردا سے کچھ غلط ہو جاتا تو وہ
اس غلطی کا خوب اشتہار لگاتی اور اپنے آپ کو اس سے بہتر ثابت کرنے کی کوشش
کرتی لیکن آج جب ایسی صورتحال سامنے آئی تو اس کی بولتی زبان کو جیسے یکدم
کسی نے جکڑ لیا۔ اس کے سامنے ایک بڑا سا آئینہ کہیں سے آن نمودار ہوا جس
میں ایک کریہہ شکل شیطان حضرت آدمؑ کا نام لے کر نعرے لگا رہا تھا۔۔ میں اس
سے اعلی ہوں۔ ساتھ ہی ایک گروہ یہود کھڑا تھا جو اپنی افضلیت ثابت کرتے
کرتے نبی آخر الزماں کی نبوت کو جھٹلا رہے تھے۔ شیطان اور گروہ یہود کے گرد
آگ کے شعلے بلند ہونے لگے تھے اور ان شعلوں میں ندا کا عکس ابھرنے لگا تھا
جو کہہ رہی تھی میں ردا سے بہتر ہوں۔ ندا نے گھبراہٹ کے عالم میں آئینہ
توڑنا چاہا تو آئینہ کہیں غائب ہو گیا اور اس کے لبوں پر تعوذ جاری ہو گیا
اور ساتھ ہی اس کے دل و دماغ میں یہ احساس اجا گر ہونے لگا کہ اعلی و برتر
ذات صرف اﷲ ہی کی ہے۔ نیکی کی توفیق اور برائی سے بچاو اﷲ کی عطا ہے۔
دنیا کی مادی چیزوں اور مادی کامیابیوں میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرنا یا
آگے بڑھنے کی کوشش کرنا یا دوسرے کو شکست دینے کی ٹھان لینا کوئی کارنامہ
نہیں بلکہ اصل مقابلہ تو نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے کا مقابلہ
ہے۔ دن آہستہ آہستہ آگے بڑھتا رہا۔ ندا پر دوا اثر کرتی گئی اور اس کے دل
کی گھٹن کم ہوتی چلی گئی۔
دوسری جانب ردا صبح اٹھتے ہی سورہ فلق اور سورہ الناس کی تلاوت کرنے لگی۔
یہ تلاوت دن بھر جاری رہی۔ جب جب ردا کی جانب سے کوئی سخت سست بات آنے لگتی
ردا جو پہلے ایسی صورتحال میں لڑنے کو تیار ہو جایا کرتی تھی اب مسکرا کر
محبت سے ندا کو جواب دیتی اور ہر کام میں اس کی معاونت کے لیے خود سے آگے
بڑھتی۔ اس نے آج دن میں ندا کو موتیوں کے پھولوں کا گجرا بنا کر تحفتاً پیش
کیا۔ دن گیا اور رات آئی۔ دوا اپنا رنگ لائی۔ ندا کے دل سے سیاہ دھبہ دور
ہو گیا تھا۔ اس کا دل اب پہلے کی مانند نکھرا نکھرا شفاف ہو گیا تھا۔ ردا
بھی تازہ دم محسوس کر رہی تھی‘‘۔
کہانی ختم ہو چکی تھی۔ سب بچے مسکرا رہے تھے جب کہ کرن کسی سوچ میں ڈوبی
ہوئی تھی۔ ’’کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ ندا کو کون سی بیماری تھی؟‘‘ دادی جان
نے بچوں سے پوچھا۔ ’’جی دادی جان میں سمجھ گئی ندا کو حسد کی بیماری تھی‘‘،
سائرہ نے جلدی سے جواب دیا۔ ’’ہاں بچو! ندا کو حسد کی بیماری تھی۔ یہ ایک
بہت خطرناک بیماری ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی
کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’حسد سے بچتے رہو کیونکہ حسد
نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے آگ سوکھی لکڑیوں کو کھا جاتی ہے‘‘۔
(صحیح مسلم)
لہٰذا دنیا اور آخرت کی بھلائی کے لیے اس بیماری کو جاننا اور اس سے بچنے
کی تدابیر اختیا ر کرنا ضروری ہے۔ ’’جی دادی جان میں سمجھ گئی میں اس
بیماری سے بچاؤ کی مکمل کوشش کروں گی‘‘، کرن نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ ’’صرف
تم کیوں ہم سب اس خطرناک بیماری کے معاملے میں ہمیشہ خبردار ہوشیار رہیں گے
ان شاء اﷲ‘‘، سائرہ نے پرعزم لہجے میں کہا تو سب بچوں نے پختہ ارادے کے
ساتھ اس کی تائید کی۔
|