لاٹری کا ٹکٹ

شیدے نے زندگی میں دو عورتوں سے دل سے محبّت کی تھی- ایک تو اس کی ماں جو اب اس دنیا میں نہیں رہی تھی اور دوسری اس کی بیوی ریشماں، جس سے وہ بے حد محبت کرتا تھا-
اس کی شادی ریشماں سے گزشتہ برس ہی ہوئی تھی- وہ بائیس تئیس سال کی لڑکی تھی اور شیدے کے گاؤں میں ہی رہتی تھی- اس کا تعلق ایک نہایت غریب گھرانے سے تھا- اس کا باپ دریا کے کنارے سے چکنی مٹی گدھے پر لاد کر کمہاروں کو بیچتا تھا مگر اس کام میں زیادہ آمدنی نہیں ہوتی تھی بس گزارہ ہو جاتا تھا-
ریشماں سے شیدے کی شادی کی داستان بھی عجیب تھی- ریشماں کی شادی کسی اور سے ہو رہی تھی مگر عین نکاح کے وقت لڑکے والوں نے جہیز میں ٹریکٹر دینے کا مطالبہ کردیا-
ریشماں کے گھر والے بہت غریب تھے اور یہ مطالبہ پورا کرنے کی سکت نہیں رکھتے تھے- ریشماں کے بوڑھے باپ نے اس ڈر سے کہ کہیں بارات واپس نہ چلی جائے، اپنی پگڑی تک دولہا کے باپ کے قدموں میں رکھ دی- مگر حرص و ہوس میں مبتلا لوگ ایسی باتوں کی کب پرواہ کرتے ہیں- وہ بھی اپنے مطالبے سے دستبردار نہیں ہوےٴ-
شیدا پنڈال میں بیٹھا یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا اور دل ہی دل میں غصے سے کھول رہا تھا- جب اس نے ریشماں کے باپ کو روتا دیکھا تو اس سے ضبط نہ ہوا- وہ اٹھ کر ان لوگوں کے قریب آیا- اس کا ڈیل ڈول اچھا تھا اور کسی زمانے میں وہ پہلوانی بھی کرتا تھا- اس نے لڑکے کے باپ سے کہا "بابا کیوں کسی کی عزت خراب کرتے ہو- یہ غریب لوگ ہیں- تمہیں ٹریکٹر کہاں سے دیں گے؟"-
اس کی یہ مداخلت دولہا کو بری لگی وہ سہرے کے پیچھے سے بولا "دور ہٹو- یہ ہمارے گھر کا معاملہ ہے"-
اس کے باپ نے اس ڈر سے کہ بات بڑھ نہ جائے، لڑکی کے باپ سے کہا "زیادہ تماشہ بنانے کی ضرورت نہیں ہے- اگر تم ہمارا مطالبہ پورا نہیں کر سکتے تو بات ختم- ہم واپس جا رہے ہیں- ہمیں شادی نہیں کرنی"-
مطالبہ تو تھا ہی ایسا کہ جو کسی حال میں بھی پورا نہیں کیا جاسکتا تھا- لڑکے والے واپس چلے گئے- پل بھر میں شادی والا گھر غم میں ڈوب گیا- لڑکی کی ماں کو غشی کے دورے پڑنے لگے- اس کا باپ ایک کونے میں بیٹھ کر رونے لگا-
لڑکے والوں کے ساتھ آئے ہوےٴ مہمان تو چلے گئے تھے مگر وہ مہمان جو لڑکی والوں کی طرف سے تھے ابھی وہیں موجود تھے اور افسوس کر رہے تھے-
یہ منظر دیکھ کر شیدے کے خون نے جوش مارا اور وہ بلند آواز میں ریشماں کے باپ سے بولا "بابا تم فکر نہ کرو- میں تمھاری بیٹی سے شادی کروں گا- ابھی- اسی وقت"-
اس کے اس اعلان نے وہاں موجود تمام لوگوں کو حیران کردیا- ان کی حیرانی ختم ہوئی تو اس کی جگہ خوشی نے لے لی- شیدا گاؤں کا ایک بہت ہی محنتی اور شریف نوجوان تھا- نہ کسی سے لڑائی جھگڑا، نہ کسی برے فعل میں- وہ اسی گاؤں میں پیدا ہوا تھا- یہیں بڑا ہوا تھا اور سب جانتے تھے کہ وہ ایک نیک اور دوسروں کے کام آنے والا نوجوان ہے- اس کے پاس ذاتی گھر تھا اور زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا جس پر وہ کاشتکاری کر کے اپنا خرچہ چلایا کرتا تھا-
اس کی بات سن کر چند بزرگ جمع ہوےٴ- انہوں نے آپس میں کچھ صلاح مشورے کیے- تھوڑی دیر میں نکاح ہوگیا- شیدا دل ہی دل میں خوش ہو رہا تھا کہ اس کے بروقت فیصلے نے لڑکی والوں کی پریشانی کو ختم کردیا تھا-
شیدے کے بچپن کے دوستوں کو اس کی شادی کی اطلاع ملی تو وہ بھی بھاگے بھاگے نکاح کی تقریب میں شامل ہوگئے- کسی بھی لڑکی کا اس طرح کا معاملہ ہوجائے تو اس کے حل ہوجانے پر سب خوش ہو جاتے ہیں- گاؤں کے بھی سب لوگ خوش ہو گئے تھے- بوڑھے اور بوڑھیاں تو شیدے کو دعائیں دے رہی تھیں- باقی دوسرے لوگ اسے تحسین آمیز نظروں سے دیکھ رہے تھے اور اس کے اس فیصلے کی دل کھول کر تعریف کررہے تھے-
نکاح کے بعد وہاں پر موجود مہمانوں کو کھانا پیش کیا گیا- کھانے سے فارغ ہو کر ریشماں کی رخصتی ہوگئی- ایک سجے سجائے تانگے میں شیدا دلہن کو گھر لے آیا-
اس کا گھر پھیلا پڑا تھا اور کوئ چیز قرینے سے رکھی نظر نہ آتی تھی- وہ ریشماں کو لے کر اندر آیا تو بولا "ریشماں تو بھی سوچے گی کہ شیدا کیسا ہے- گھر کا کیا حال کر رکھا ہے"-
ریشماں نے گھونگٹ اٹھا دیا- اس نے گھر کی حالت کی طرف ایک نظر بھی نہیں ڈالی- اس نے شیدے کے دونوں ہاتھ پکڑ کر اپنی آنکھوں سے لگائے اور روتے ہوۓ بولی "شیدے میں تو بس ایک ہی بات سوچ رہی ہوں- میں کتنی خوش قسمت ہوں کہ مجھے اتنا اچھا مرد مل گیا ہے- تو جانتا ہے ہم کتنے غریب لوگ ہیں- ان کا مطالبہ مر کر بھی پورا نہیں کر سکتے تھے- تو کتنا اچھا ہے- تیرے دل میں ذرا سا بھی لالچ نہیں ہے- اگر تو اتنا بڑا فیصلہ نہیں کرتا تو میری ماں صدمے سے آج ہی مرجاتی- شیدے میں تیرا یہ احسان زندگی بھر نہیں اتار سکوں گی"-
ریشماں کی باتیں سن کر شیدے کا دل خوش ہوگیا- اس سے آج تک کسی نے ایسی باتیں نہیں کی تھیں- اس نے ریشماں کو غور سے دیکھا تو وہ اس کو بہت اچھی لگی- اس نے اس کی آنکھوں سے آنسو پونچھے اور بولا "رو مت- یہ تو خوشی کا موقعہ ہے"-
یہ باتیں ختم ہوئیں تو ریشماں نے گھر کا جائزہ لیا- اس نے فوراً ہی صفائی ستھرائی کا کام شروع کر دیا اور گھنٹہ بھر میں ہی گھر کی شکل بدل کر رکھ دی- تھوڑی دیر بعد ریشماں کے گھر سے ایک بیل گاڑی میں اس کے جہیز کا سامان آگیا- یہ سامان اس کی چند رشتے دار عورتیں لے کر آئ تھیں- وہ اس کو قرینے سے لگوانے میں ریشماں کی مدد کرنے لگیں-
شیدے کے یار دوست بھی آگئے تھے اور سب ایک دوسرے سے ہنسی مذاق کر رہے تھے- مدتوں بعد شیدے کے گھر میں چہل پہل نظر آئ تھی- شیدے نے سوچا اگر ماں زندہ ہوتی تو یہ سب کچھ دیکھ کر کتنا خوش ہوتی- ماں کا خیال آیا تو اس کی آنکھیں بھیگ گئیں- ریشماں کام کرتے کرتے اس پر بھی نظر ڈال لیتی تھی- اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو جلدی سے اس کے پاس آئ-
'کیا بات ہے شیدے- تو رو کیوں رہا ہے؟"- اس نے گھبرا کر پوچھا-
"ریشماں- مجھے........مجھے اپنی ماں یاد آ رہی ہے"- شیدے کا دکھ محسوس کر کے ریشماں کی بھی آنکھوں میں آنسو آگئے- وہ اس کو تسلی دینے لگی-
ریشماں بہت ہی اچھی بیوی ثابت ہوئی تھی- وہ شیدے کی ایک ایک چیز کا دھیان رکھتی تھی اور ہر وقت اسی کے کسی نہ کسی کام میں مصروف رہتی-
ایک ہفتے بعد ہی شیدے کو اندازہ ہو گیا کہ وہ ریشماں کے بغیر نہیں رہ سکتا- وہ ریشماں کے سامنے ہوتا تو وہ اس کے سامنے بچھی بچھی جاتی- اس کی اتنی خدمت کرتی کہ شیدا شرمندگی محسوس کرنے لگتا- ریشماں کی اس محبّت کا جواب وہ محبّت سے دیا کرتا تھا- ایک روز جب اس نے جذبات میں آکر ریشماں سے کہا کہ وہ اس کے بغیر مر جائے گا تو وہ بہت ہنسی تھی- بولی "موت تو بیماری ویماری سے سے آتی ہے"-
ایک روز اچانک ریشماں کی ماں بہت بیمار پڑ گئی- ریشماں کے علاوہ اس کی کوئی اولاد بھی نہیں تھی جو اس موقعہ پر اس کی خدمت کرتی- اس لیے اس کی دیکھ بھال کے لیے ریشماں کو اپنے گھر جانا پر گیا-
ریشماں گھر سے کیا گئی شیدے کا سکون ہی غارت ہوگیا- اس کا دل نہ کام پر لگتا اور نہ گھر میں- اس کی نیند بھی غائب ہو گئی تھی- وہ دل سے دعا کرتا کہ ریشماں کی ماں جلد اچھی ہوجائے تاکہ ریشماں واپس آجائے-
وہ ساس کی تیمار داری کے بہانے دن میں دس پندرہ منٹ کے لیے ریشماں سے مل تو آتا تھا مگر اس مختصر سی ملاقات میں اسے بالکل مزہ نہیں آتا تھا- اسے ریشماں سے باتیں کرنے کی عادت پڑ گئی تھی-
ایک روز جب اسے ریشماں بہت ہی یاد آ رہی تھی تو اس نے سوچا کہ دل بہلانے کے لیے شہر کی سیر کو نکل جائے- اس نے کلف لگے کپڑے پہنے، کچھ پیسے جیب میں ڈالے اور شہر جانے والے تانگے میں آ کر بیٹھ گیا-
شہر پہنچ کر تانگے والے نے جہاں اسے اتارا، سامنے میدان میں ایک نمائش لگی ہوئی تھی- میلے ٹھیلے دیکھنے کا تو اسے بچپن ہی سے شوق تھا- وہ خوش ہوگیا اور جلدی جلدی سڑک پار کر کے نمائش والے میدان میں داخل ہوگیا-
اندر گیا تو وہاں اسے ایک نئی دنیا نظر آئ- ہر طرف ایک عجیب ہنگامہ تھا- چاروں طرف لوگ ہی لوگ نظر آرہے تھے- مختلف چیزوں کے اسٹال تھے، ایک طرف سرکس تھا تو دوسری طرف موت کا کنواں- جگہ جگہ بڑے بڑے لاوڈ اسپیکروں پر فلمی گانے بج رہے تھے- سرکس اور موت کے کنویں کے باہر بارہ چودہ فٹ کی اونچائی پر اسٹیجوں پر عورتیں ناچ رہی تھیں-
یہ رونق دیکھ کر شیدے کو بہت مزہ آیا- وہ انہیں دیکھتے ہوۓ گھومتا پھرتا رہا- بھوک لگی تو ایک ٹھیلے سے اس نے انڈہ چھولے اور نان کھائے- وہ دل میں سوچ رہا تھا کہ اگر اس کے ساتھ ریشماں بھی ہوتی تو اور مزہ آتا-
ایک جگہ اس نے ایک خوبصورت سا اسٹال دیکھا- اس پر لاٹری کے ٹکٹ فروخت کئے جا رہے تھے- ٹکٹ بیچنے والا شخص ہاتھ میں مائیک پکڑے چیخ چیخ کر اعلان کر رہا تھا "پچاس روپے کے ٹکٹ میں ایک لاکھ روپے کا انعام- قسمت آزمالو- پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی"-
پچاس روپے کے ٹکٹ پر ایک لاکھ روپے ملیں گے- شیدے کی سمجھ میں یہ بات بالکل نہ آسکی- وہ وہیں کھڑا ہوگیا اور غور سے دوبارہ اعلان سننے لگا- جب مزید تین چار مرتبہ تک سننے کے باوجود اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا تو وہ ٹکٹ بیچنے والے کے پاس پہنچ گیا-
اسے دیکھ کر اس شخص نے اعلان کرنا بند کردیا اور اس سے بولا "ہاں پہلوان- پچاس روپے ڈھیلے کرو اور ایک لاکھ کا انعام پالو"-
"مجھے ایک لاکھ روپے انعام میں مل جائیں گے؟"- شیدے نے بے یقینی سے پوچھا-
صبح سے اب تک ٹکٹوں کی کم بکری ہوئی تھی- ٹکٹ نہیں بکتے تھے تو کمیشن بھی نہیں ملتا تھا- شیدے کو ٹکٹ میں دلچسپی لیتے دیکھا تو اس نے اسے متاثر کرنے کے لیے کہا "پہلوان جی دیر کیوں کرتے ہو- میں تو کہتا ہوں اپنی ماں کے نام سے ایک ٹکٹ لے لو- فائدے میں رہو گے"-
ماں تو اس کی تھی نہیں- اس نے سوچا کہ ریشماں کے نام سے ایک ٹکٹ لے لے- پچاس روپے دے کر ایک لاکھ روپے مل جائیں گے، سودا برا نہیں ہے-
اس نے انٹی سے پچاس روپے کا نوٹ نکالا اور ٹکٹ بیچنے والے کے حوالے کرتے ہوۓ بولا "ایک ٹکٹ ریشماں کے نام کا دے دو"- اس نے گڈی میں سے ایک ٹکٹ پھاڑ کر اس کے حوالے کردیا-
"انعام کب اور کہاں سے ملے گا؟"- شیدے نے ٹکٹ کو احتیاط سے کرتے کی جیب میں رکھتے ہوۓ پوچھا- اس آدمی نے ایک لمحے کے لیے شیدے کو غور سے دیکھا اور بولا "اگلے مہینے کی پہلی تاریخ کو انعامات کا اعلان ہوگا- اور انعام کہاں سے ملے گا، وہ جگہ ٹکٹ پر لکھی ہے"-
ان تمام باتوں میں شیدے کی سمجھ میں جو باتیں آئ تھیں وہ یہ تھیں کہ پہلی تاریخ کو ٹکٹ پر دئیے گئے پتے سے ایک لاکھ روپے کا انعام مل جائے گا-
وہ خوش خوش وہاں سے لوٹا- تھوڑی دیر میں شام ہونے والی تھی- اس نے واپسی کا ارادہ کیا- جب سے اس نے ٹکٹ خریدا تھا، اس کا نمائش کی چہل پہل اور کھیل تماشوں سے دل اچاٹ ہوگیا تھا- وہ سوچ رہا تھا کہ کسی طرح جلد سے جلد یہ خوش خبری ریشماں کو سنا دے- ریشماں کا خیال آیا تو وہ اداس ہوگیا- وہ تو گھر پر ہی نہیں تھی- اس نے دل سے دعا کی کہ اس کی ماں جلد صحت یاب ہو جائے، تاکہ ریشماں واپس آ کر اپنا گھر بار سنبھالے-
گھر پہنچتے پہنچتے اندھیرا ہوگیا تھا- اسے دور سے اپنی گھر کی کھڑکی میں روشنی نظر آئ- اس کا دل خوشی سے بلیوں اچھلنے لگا- "شائد ریشماں واپس آگئی ہے"- اس نے جلدی جلدی قدم اٹھاتے ہوےٴ سوچا-
گھر پہنچا تو ریشماں اس کا انتظار کر رہی تھی- اسے دیکھا تو حیرانی سے بولی "شیدے تو کہاں چلا گیا تھا- میں کب سے تیرا انتظار کر رہی ہوں"-
"تو کب آئ؟ تیری ماں کی طبیعت اب کیسی ہے؟"- شیدے نے اس کی بات نظر انداز کر کے پوچھا-
"وہ اب ٹھیک ہے- میرا تو دل تجھ میں ہی پڑا ہوا تھا- تیرے کھانے پینے کی مجھے بہت فکر رہتی تھی- تو وہاں چکر کیوں نہیں لگاتا تھا- میں تو ہر وقت تیری راہ دیکھتی رہتی تھی"- ریشماں نے شکایتی انداز میں کہا-
"سسرال میں زیادہ آنا جانا مجھے اچھا نہیں لگتا- بس یہ ٹھیک ہے کہ تجھے وہاں چھوڑنے چلا جایا کروں اور واپس لے آیا کروں- سسرال میں زیادہ آنے جانے سے عزت کم ہوجاتی ہے"- شیدے نے کہا پھر کچھ یاد کر کے بولا "تو نے تو پوچھا ہی نہیں کہ میں کہاں سے آرہا ہوں"-
"یہ تو میں بھول ہی گئی تھی" ریشماں نے ماتھے پر ہاتھ مار کر کہا- "چل اب بتا دے تو کہاں گیا تھا؟"-
شیدے نے اسے پورے دن کی روداد سنا دی اور آخر میں کہا "ہم گاؤں والے تو شہر والوں کو بہت برا سمجھتے ہیں- مگر دیکھ تو سہی وہ ہیں کیسے- نمائش میں ایک جگہ لاٹری کے ٹکٹ مل رہے تھے- بیچنے والے آدمی نے مجھے بتایا تھا کہ پچاس روپے کا ٹکٹ لے لو، پہلی تاریخ کو ایک لاکھ روپے ٹکٹ پر لکھے ہوۓ پتے پر آ کر لے جانا- میں نے ٹکٹ تیرے نام سے خرید لیا"-
ریشماں تو شیدے کی ہر بات پر آنکھیں بند کر کے یقین کر لیتی تھی- انعام کی بات سن کر نہ صرف اسے یقین آگیا بلکہ وہ خوش بھی ہوگئی اور بولی "چل اسی بہانے ہمارے پاس کچھ پیسے ہوجائیں گے- ان پیسوں سے ہم اچھی کھاد اور بیج بھی خرید لیں گے"-
شیدے نے کرتے کی جیب سے لاٹری کا ٹکٹ نکال کر ریشماں کے حوالے کیا اور بولا "اسے سنبھال کر رکھ- پہلی تاریخ کو لے کر جاؤں گا"-
اگلے روز شیدا اپنے کھیتوں پر گیا- وہ مختلف سبزیوں کی کاشت کرتا تھا اور یہ سبزیاں گلی محلوں میں پھیری لگانے والے خرید کر لے جایا کرتے تھے-
دس بجے کے قریب چچا خیرو اپنا ٹھیلا لے کر وہاں پہنچا- شیدے نے سبزیاں نکال کر اس کو دیں- وہ شیدے کا پرانا گاہک تھا- باتوں کے دوران اس نے بتایا کہ بارشوں کی وجہ سے اس کے گھر کی چھت گر پڑی تھی- شکر یہ ہوا کہ اس کے بیوی بچے باہر تھے اس لیے محفوظ رہے مگر اب انھیں کھلے آسمان کے نیچے گزارہ کرنا پڑ رہا ہے- اس کے پاس اتنے پیسے ہی نہیں ہیں کہ دوبارہ چھت تعمیر کروا سکے-
اس کی بپتا سن کر شیدے کو بہت افسوس ہوا- اس نے سوچا کہ پہلی تاریخ کو جب ایک لاکھ روپے مل جائیں گے تو وہ چچا خیرو کی چھت بنوا دے گا-
ایک روز وہ دوپہر کا کھانا کھانے کے لیے گھر آیا تو اس کی ماں کی ایک سہیلی خالہ رحمتے ریشماں کے پاس بیٹھی ہوئی تھی- شیدا بچپن میں اس کے گھر بہت آتا جاتا تھا- اس کے کئی بچے تھے اور ان سب سے شیدے کی دوستی تھی- شیدے کو دیکھ کر خالہ رحمتے نے اسے بہت سی دعائیں دیں اور تھوڑی دیر بعد چلی گئی-
اس کے جانے کے بعد ریشماں نے بتایا کہ خالہ رحمتے بہت پریشان ہے کیونکہ اس کی سب سے چھوٹی بیٹی کے رشتے کی بات پکی ہوگئی ہے- جہیز وغیرہ تو سب پہلے سے ہی تیار تھا، شادی کے کھانے اور دوسرے اخراجات کے پیسوں کا انتظام نہیں ہوا ہے-
رات کو جب شیدا سونے کے لیے بستر پر گیا تو اس کو خالہ رحمتے کی پریشانی کا خیال آیا- بہت سوچ سمجھ کر اس نے فیصلہ کر لیا کہ لاٹری کے پیسے ملتے ہی وہ اس کی لڑکی کی شادی کے کھانے پر ہونے والے اخراجات خود برداشت کرے گا-
اگلے روز جب وہ کھیتوں پر جانے کے لیے گھر سے نکلا تو اسے محلے کے ایک گھر سے رونے پیٹنے کی آوازیں آئیں- وہ ٹھٹک کر کھڑا ہوگیا- "خدا خیر کرے" اس کے منہ سے نکلا- معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ چاچی خیراں کی بھینس اچانک مر گئی ہے- چاچی خیراں ایک نہایت غریب عورت تھی- اس کا دنیا میں کوئی نہ تھا- اس کی گزر بسر اسی بھینس کے دودھ کو بیچ کر ہوتی تھی-
شیدا افسوس کرتا ہوا اپنے راستے روانہ ہوا- اس نے تہیہ کر لیا تھا کہ لاٹری سے ملنے والی رقم ملتے ہی وہ بیس بائیس ہزار کی ایک بھینس خرید کر چاچی خیراں کے حوالے کردے گا- اس کی دال روٹی تو چلتی رہے گی-
چلتے چلتے اس نے گھڑی پر نظر ڈالی- یہ گھڑی تاریخ بھی بتاتی تھی- آج اٹھائیس فروری تھی- کل پہلی تاریخ تھی- اس کو خالہ رحمتے، چا چا خیرو اور چا چی خیراں کی مدد کرنا تھی- اسے بےچینی ہو رہی تھی کہ پہلی تاریخ جلدی سے آجائے تو وہ انعام لے کر اپنے ان کاموں کو پایہ تکمیل تک پہنچائے-
رات کو دونوں میاں بیوی جب سونے کے لیے بستر پر لیٹے تو شیدے نے کہا "ریشماں ان کاموں پر کتنے پیسے لگ جائیں گے؟"-
ریشماں کے تو فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا کا شیدا کون سے کاموں کے بارے میں کہہ رہا ہے- اس نے تو اس سے کوئی تذکرہ ہی نہیں کیا تھا- جب اس نے ان کاموں کے متعلق پوچھا تو شیدے کو یاد آیا کہ اس بارے میں اس نے تو ریشماں کو کچھ بتایا ہی نہیں تھا- اسے نیند آرہی تھی، بولا "ریشماں ابھی تو سونے دے- صبح ویسے بھی جلدی اٹھ کر شہر جانا ہے- پہلی تاریخ ہے- ان کاموں کا بعد میں بتاؤں گا"-
اگلے روز وہ صبح سویرے ہی اٹھ گیا- ریشماں اس سے بھی پہلے کی اٹھی ہوئی تھی اور ناشتہ بنا رہی تھی- ناشتے کے بعد شیدا گھر سے نکلا اور گاؤں کے اسکول کے ماسٹر صاحب کے پاس پہنچا- کسی زمانے میں ان کی پوسٹنگ شہر کے ایک اسکول میں ہوگئی تھی اور انھیں وہاں کے بارے میں کافی معلومات تھیں-
شیدے کو صبح ہی صبح اپنے دروازے پر دیکھ کر ماسٹر صاحب کچھ حیران ھوے- "شیدے خیریت؟"- انہوں نے پوچھا-
"بس جناب خیریت ہی ہے- پھر اس نے لاٹری کا ٹکٹ نکال کر ان کو دیا اور بولا "ان لاٹری والوں کے دفتر کا راستہ معلوم کرنا تھا"-
ماسٹر صاحب نے غور سے ٹکٹ دیکھا اور پھر مسکراتے ہوۓ بولے "شیدے کیا انعام ونام نکل آیا ہے؟"-
"ہاں انہوں نے آج کی تاریخ بتائی تھی- اسی لیے میں ان کے دفتر جا رہا ہوں"-
"بھئی یہ لاٹری کمپنی بہت اچھی ساکھ والی ہے- یہ برسوں سے اپنا کاروبار کر رہے ہیں اور اپنی ایمانداری کی وجہ سے بہت مشہور ہیں- سینکڑوں لوگوں کو ان کی لاٹری اسکیم سے فائدہ پہنچا ہے- میرا ایک شاگرد بھی اسی کمپنی کے دفتر میں کام کرتا ہے- اس کا نام عثمان ہے- اس کمپنی کا پتہ میں بتاے دیتا ہوں- اگر وہاں عثمان سے ملاقات ہو جائے تو میری طرف سے اسے پوچھ لینا- اور ہاں اپنا شناختی کارڈ ضرور لے کر جانا- اسکی کاپی انھیں درکار ہوتی ہے"-
لاٹری کی کمپنی کا پتہ اچھی طرح ذہن نشین کر کے شیدا وہاں سے چل دیا- اس نے گاؤں کے ایک تانگہ بان کو رات سے ہی کہہ دیا تھا کہ اسے شہر جانا ہے اور واپس بھی آنا ہے- تھوڑی دیر میں تانگہ آگیا- شیدا تانگے میں بیٹھا اور تانگہ چل پڑا-
ماسٹر صاحب نے اس دفتر کے پتے سے متعلق جو جو بتایا تھا وہ سب اس نے تانگہ بان کو بتا دیا- وہ تو روز شہر آتا جاتا تھا، اس نے سیدھا لاٹری کے دفتر پر جا کر تانگہ کھڑا کردیا-
شیدا تانگے سے اترا اور آفس میں داخل ہوگیا- آفس ایک بہت ہی خوبصورت عمارت میں تھا- دروازے سے داخل ہوتے ہے اسے ایک نوجوان لڑکی ایک کھڑکی میں بیٹھی نظر آئ- شیدا اس کے پاس چلا گیا- ٹکٹ اس کی مٹھی میں دبا ہوا تھا- اس نے یہ مناسب سمجھا کہ پہلے ماسٹر صاحب کے شاگرد عثمان سے مل لے-
"یہاں پر ایک لڑکا عثمان کام کرتا ہے"- اس نے سوچتے سوچتے کہا-
"جی ہاں- وہ اس آفس میں ہی ہے مگر آج چھٹی پر ہے- میرے لائق اگر کوئی کام ہو تو بتائیے میں کوشش کروں گی کہ آپ کی مدد کر سکوں "-
"وہ جی- یہ میرا لاٹری کا ٹکٹ ہے"- یہ کہتے ہوۓ شیدے نے ٹکٹ اس لڑکی کو تھما دیا-
اس لڑکی نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ ٹکٹ کے نمبر اپنے کمپیوٹر میں فیڈ کر کے بٹن دبایا اور خوشی بھری آواز میں بولی "مبارک ہو جناب- آپ کا ایک لاکھ روپے کا انعام نکل آیا ہے "-
شیدے نے اس اطلاع پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا- یہ بات تو اسے پہلے سے ہی پتہ تھی-

...........

Mukhtar Ahmad
About the Author: Mukhtar Ahmad Read More Articles by Mukhtar Ahmad: 70 Articles with 132759 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.