اجیت‘ اپنے گھر کے باہر ایک گھنے درخت کے نیچے کاغذ قلم
لیے کسی شعر کی نوک پلک درست کرنے میں مگن تھا،اچانک کسی انجانی آوازنے اسے
چونکادیا، نظر اٹھائی تو سامنے بھارتی کھڑی مسکرارہی تھی۔ آو بھارتی، کیسے
آئیں، کوئی کام ہے، بھارتی کو اجیت سنگھ کا روکھا سوکھا پن ایک آنکھ نہ
بھایا، وہ واپس پلٹی تو اجیت نے ایک دم کھڑے ہوکر اُسے بازؤں سے پکڑ لیا،
بھارتی ایسا کیا ہوا، کچھ تو بتاؤ، میں نے تو بس یوں ہی تم سے پوچھا لیا،
میں اپنی ایک غزل کی نوک پلک درست کررہا تھا، یقین مانوں میں اس وقت یہاں
تھا ہی نہیں۔ تمہاری آہٹ نے مجھے سب کچھ بھلا دیا۔ اس بات پرتو بھارتی اور
غصہ میں آگئی، اچھا ٹھیک ہے، تم اپنی غزل کی نوک پلک سنواروں، میں چلتی ہوں،
اگر وقت ملے تو اپنی ظلفیں بھی درست کر لینا اور ہاں اپنا منہ بھی دھو
لینا،بارہ بج رہے ہیں۔بھارتی ضرورت سے زیادہ بپھرگئی۔ اپنے بازوں اجیب کے
ہاتھوں سے چھڑائے اور واپس کی راہ لی۔
بھارتی کے چلے جانے کے بعد اجیت بہت دیر خاموش گھنے درخت کے نیچے بیٹھا
تانے بانے بننے لگا، تیز ہوائیں چل رہی تھیں، کچھ فاصلے پر اکا دکا دیہاتی،
کوئی پیدل، کوئی سائیکل پر کوئی ریڑھے پر، کوئی بیل گاڑی پر ادھر سے ادھر
جاتے نظر آرہے تھے۔ درختوں پر پرندے بھی اپنی اپنی آوازوں میں محوِ گفتگو
تھے۔ اجیت کی سوچوں کا محور بھارتی کے چبھتے ہوئے جملے اور اس کا وہ رویہ
تھا، اجیت ایک شاعر تھا، جب کے بھارتی ایک افسانہ نگار، دونوں ہی تخلیق کار
تھے۔ اجیت سوچ میں پڑگیا کہ ایک افسانہ نگار کو اپنے دوست شاعر کے جذبات کا
خیال کرنا چاہیے تھا، اسے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ جب کوئی شاعر اپنے اشعار
کو حتمی شکل دے رہاہو، ان کی نوک پلک درست کررہا ہو تو وہ کس ذہنی کیفیت
میں ہوتا ہے۔ اس کی کیفیت ایک ایسے مریض کی ہوتی ہے کہ جس کے جسم میں
انجیکشن، ڈرپ لگائی جارہی ہوں،لیکن اسے تکلیف کا ذرہ برابر احساس بھی نہ ہو،
جیسے اس کے ساتھ کچھ ہو ہی نہیں رہا۔ دوائیں کام کر جائیں اور وہ اُس کیفیت
سے باہر آجائے تو تکلیف کا احساس کرنے لگتا ہے۔ شاعراور افسانہ نگار بلکہ
ہر تخلیق کار کی یہی کیفیت ہوتی ہے۔ تخلیق کار کوئی بھی ہو بہت حساس ہوتا
ہے۔ اجیت سنگھ یہ سب کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ اسے دور سے بھارتی آتی دکھائی
دی،وہ جوں ہی نذدیک آئی اجیت نے کھڑے ہوکر اس کا استقبال کیا، ہنس کر اُس
سے ملا، بھارتی نے اجیت کو گلے لگا یا، کہنے لگی اجیت مجھے معاف کردو، میں
اپنے عمل پر شرمندہ ہوں، مجھے بعد میں احساس ہوا کہ تم اس وقت عملِ تخلیق
میں تھے، میں غلط وقت پر تمہارے پاس چلی آئی بلکہ میں نے تمہارے ساتھ غیر
مناسب رویہ بھی اختیار کیا، آئی ایم سوری اجیت۔ اجیت نے ہنس کر بھارتی سے
کہا، کوئی بات نہیں بھارتی، ہم تخلیق کار بھی انجانے میں ایسی باتیں کر
جاتے ہیں جن کا احساس ہمیں بعد میں ہوتا ہے، غلطی کا احساس کرلینا بڑائی
ہے۔تم نے غلطی مان لی بس تم نے بڑے پن کا ثبوت دیا۔ |