شور ہے اوجِ فلک پر آمد ِرمضان کا

رمضان المبارک کابرکتوں والا مہینہ ہم پرسایہ فگن ہواچاہتاہے یہ روزے کی عبادت اورنزول قرآن کریم کامہینہ ہے ۔قرآن مقدس میں روزے کی عبادت کا تفصیلی ذکرسورۂ بقرہ میں پارہ نمبر۲کے چھٹے رکوع میں آیاہے۔اس رکوع میں روزے کی فرضیت ،حکمت،قرآن کریم کے ساتھ تعلق اوراعتکاف جیسے موضوعات کوجمع کردیاگیاہے۔ایک ہی مقام پرکم وبیش تمام مسائل کاذکرروزہ کامنفردمعاملہ ہے۔ رمضان المبارک کاشایان شان استقبال کرنے کے لئے شعبان المعظم سے ہی ذہن کوتیارکریں اورشعبان المعظم کے مہینے سے ہی کثرت سے روزے رکھیں۔حضرت عائشہ صدیقہ بیان کرتی ہیں کہ حضورنبی اکرم ، نور مجسم ،سید عالمﷺسب مہینوں سے زیادہ شعبان المعظم کے روزے رکھاکرتے تھے۔پورے اہتمام واشتیاق کے ساتھ رمضان المبارک کاچاند دیکھنے کی کوشش کریں اورچانددیکھ کریہ دعاء پڑھیں’’اللھم اھلّہ علینابالیُمن والایمان والسلامۃ والاسلام ربی وربک اللّٰہ یاھلال‘‘ائے اﷲ! اس چاندکوہمارے لئے ظاہرکربرکت وایمان کے ساتھ اورسلامتی وایمان کے ساتھ ائے چاند ہمارااَورتیرارب اﷲ ہے (اوران کاموں کی توفیق کے ساتھ جو تجھے محبوب اورپسندہیں)‘‘۔(ترمذی شریف)

رمضان المبارک کی قدرہم کس طرح کریں؟: ہماراشیڈول اورنظام الاوقات کیاہو؟ہم کس طرح رمضان المبارک کی رحمتوں اوربرکتوں کے مہینہ میں نیکیاں ڈبل کمائیں۔اس کے لئے ہم نے کیاتیاری کی ہے اورکس طرح اس کی تیاری کرنی چاہئے ۔سب سے پہلے ہمیں یہ کام کرناہے کہ ہم صدق دل سے توبہ کریں کہ اس سے پہلے جوبھی کوتاہیاں سرزدہوئی ہوں ان سے اپنے پروردگارکے حضورصدق دل سے توبہ واستغفارکریں اورآئندہ اس سے بچنے کاپختہ عہدکریں۔

توبہ کرنا:ایک مسلمان کے لئے زیادہ لائق ہے کہ وہ اپنے ان جملہ گناہوں سے جلدازجلدتوبہ کرلیں جوصرف اس کے اوراس کے رب العٰلمین کے درمیان صیغۂ رازمیں خفا ہیں اوران گناہوں سے بھی جن کاتعلق حقوق العبادسے ہے،تاکہ جب اس ماہ مبارک کی ابتداء ہوتووہ صحیح اورشرح صدرکے ساتھ خدائے رب ذوالجلال کی اطاعت وفرمانبرداری میں مشغول ہوجائے اوراس کے قلب کواطمینان وسکون میسرہو۔اﷲ تعالیٰ ارشادفرماتاہے کہ:’’یاایھاالذین اٰمنواتوبواالی اللّٰہ توبۃ نّصوحاالخ‘‘ائے ایمان والوں اﷲ کی طرف ایسی توبہ کروجوآگے کونصیحت ہوجائے۔‘‘(ترجمہ:کنزالایما۔،سورۃ التحریم،پارہ۲۸،آیت نمبر۸)اورحدیث پاک میں آقائے دوجہاں ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ :اﷲ تعالیٰ گناہ پرندامت کرنے والے کوبھی مغفرت سے نوازتاہے اس سے پہلے کہ وہ توبہ کرلے کیونکہ الندامۃ توبۃ اوکماقال صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم(رواہ الحاکم)ایک اورمقام پرآپ نے ارشادفرمایاکہ :ائے لوگوں اﷲ کی طرف توبہ کرو،میں تودن میں سوبارتوبہ کرتاہوں۔(مسلم شریف،۴۷۰۴)

دُعاء کااہتمام کرنا: حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ جب رجب کامہینہ آجاتاتوحضوراکرم ﷺ خدائے رب ذوالجلال سے عرض ودعااس طرح کرتے ’’اﷲم بارک لنافی رجب وشعبان وبلغنارمضان‘‘ یعنی ائے اﷲ !ہمارے لئے رجب اورشعبان کے مہینے میں برکت عطافرمااورہمیں رمضان کامقدس مہینہ عطافرما۔(درمنثور،ج۱،ص۳۳۴-مجمع الزوائد،ج۳،ص۲۵۵)

بعض اسلاف کرام کے متعلق آتاہے کہ وہ چھ ماہ تک یہ دعاکرتے ائے اﷲ!ہمیں رمضان کامبارک مہینہ عطافرما،اورپھروہ رمضان کے بعدپانچ ماہ تک یہ دعاکرتے رہتے ائے اﷲ!ہمارے رمضان المبارک کے روزے کوقبول فرما۔چنانچہ ہرمسلمان بھائی کوچاہئے کہ وہ اپنے پروردگارسے دعاکرتارہے کہ اﷲ ! ہمیں رمضان شریف کے آنے تک جسمانی اوردینی طورپرصحیح رکھ،اوریہ دعاکرنی چاہئے کہ اﷲ تعالیٰ اپنی اطاعت کے کاموں میں اس کی معاونت فرمائے اوراس کے عمل کوقبول ومنظورفرمالے۔اس عظیم ماہ مبارک کے قریب آنے کی خوشی اورفرحت ہو،کیوں کہ رمضان شریف کے مہینہ تک صحیح سلامت پہنچ جانااﷲ تعالیٰ کی جانب سے تمام مسلمانوں پربہت عظیم نعمت ہے،اس لئے کہ رمضان المبارک خیروبرکت کاموسم ہے جس میں جنتوں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ،اورجہنم کے دروازے بندکردیئے جاتے ہیں اوریہ قرآن کریم کے نزول ا ورغزوات ومعرکوں کامہینہ ہے جس نے ہمارے اورکفرکے درمیان فرق پیدا کیا۔
رمضان شریف کے احکام ومسائل کاعلم حاصل کرنا: ہمارے لئے ضروری ہے کہ روزوں کے احکام ومسائل کاعلم سیکھیں،تاکہ رمضان شریف کی فضیلت واہمیت کاکامل طورپرہمیں پتہ چل سکے۔ایسے اعمال جورمضان شریف میں ہم مسلمانوں کوعبادت کرنے میں رکاوٹ یامشغول ہونے کاباعث بننے والے ہوں انہیں رمضان شریف سے قبل ہی نپٹانے میں جلدی کرنی چاہئے۔گھر میں اہل وعیال اوربچوں کے ساتھ بیٹھ کراُنہیں روزوں کی فضیلت وحکمت اوراس کے احکام بتائیں نیزچھوٹے بچوں کوروزے رکھنے کی ترغیب وتشویق بھی دلائیں۔کچھ دینی کتابیں لائی جائیں اوراسے گھر میں پڑھنے اورپڑھانے کامکمل اہتمام کیاجائے یاپھرامام مسجدکوہدیہ کی جائیں تاکہ وہ رمضان شریف میں بعدنمازلوگوں کوپڑھ کرسنائیں۔

رمضان المبارک کے عبادات : رمضان المبارک میں عبادات سے خصوصی شغف پیداکریں فرض نمازوں کے علاوہ نوافل کابھی خصوصی اہتمام کریں اورزیادہ سے زیادہ نیکی کمانے کے لئے کمربستہ ہوجائیں۔کیونکہ یہ عظمت وبرکت والامہینہ خدائے وحدہ لاشریک کی خصوصی عنایت اوررحمت کامہینہ ہے۔شعبان المعظم کی آخری تاریخ کوحضوراکرم،نورمجسم ،سیدعالم ﷺ نے رمضان المبارک کی خوشخبری دیتے ہوئے فرمایاکہ:لوگوں تم پرایک بہت ہی عظمت وبرکت والا مہینہ سایہ فگن ہونے والاہے،یہ وہ مہینہ ہے جس میں ایک رات ہزارمہینوں سے بہترہے۔اﷲ تبارک و تعالیٰ نے اس مبارک مہینے کے روزے کوفرض قراردیاہے اورقیام اللیل (مسنون تراویح)کو نفل قراردیاہے۔جو شخص اس مہینے میں دل کی خوشی سے بطورخود کوئی نیک کام کرے گاوہ دوسرے مہینوں کے فرض کے برابراَجرعظیم پائے گااورجوشخص اس مہینے میں ایک فرض اداکرے گا ،اﷲ تبارک و تعالیٰ اس کودوسرے مہینوں کے سترفرضوں کے برابرثواب عنایت فرمائے گا۔
حصولِ تقویٰ: روزہ کااصل مقصدتقویٰ کاحصول ہے۔روزہ کی حالت میں بندۂ مومن اﷲ تبارک وتعالیٰ کے حکم پراپنے آپ کوکھانے ،پینے اورجائزطریقے پراپنی جنسی خواہش پوراکرنے سے روکے رکھتاہے،جس کی بدولت اس کے دل میں ہروقت اﷲ تعالیٰ کے موجودہونے اورنگرانی کرنے کااحساس پروان چڑھتاہے،اس طرح وہ اپنے آپ کوزندگی بھران کاموں سے بچائے رکھنے کے قابل بنتاہے،جن سے اﷲ تعالیٰ نے منع فرمایاہے۔اگرروزہ کی حالت میں ہم اپنے آپ کوبرائیوں اورگناہوں سے نہ بچاپائیں تورمضان کے بعدسال بھرکیسے روک پائیں گے؟محض بھوکااورپیاسارہنے سے روزہ کامقصدہرگزحاصل نہ ہوگا۔

فضائل روزہ احادیث کی روشنی میں: پورے مہینے کے روزے نہایت ذوق وشوق اوراہتمام کے ساتھ رکھیں اوراگرکبھی مرض کی شدت یاشرعی عذرکی بناء پرروزے نہ رکھ سکیں تب بھی احترام رمضان میں اعلانیہ طورپرکھانے سے سختی کے ساتھ پرہیز کریں اوراس طرح رہیں کہ گویاآپ روزے سے ہیں ۔
(۱)حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا:اﷲ تبارک و تعالیٰ فرماتاہے آدمی کاہر نیک عمل خود اسی کے لئے ہے مگرروزہ خاص میرے لئے ہے اورمیں ہی اس کابدلہ دونگااورروزہ گناہوں کی ڈھال ہے اورجب تم میں کوئی روزہ رکھے توفحش باتیں نہ کرے،نہ شورمچائے اگرکوئی اس کوگالی دے یااس سے لڑے تووہ یہ کہ دے کہ میں روزے سے ہوں،قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں محمدﷺ کی جان ہے روزہ دار کے منہ کی بواﷲ تبارک و تعالیٰ کوکستوری کی خوشبوسے بھی زیادہ پسندیدہ ہے،روزہ دارکے لئے دوخوشیاں ہیں(۱)روزہ کھولتے وقت خوش ہوتاہے،(۲)جب وہ اپنے رب سے ملے گاتوروزے کاثواب دیکھ کرخوش ہوگا(صحیح البخاری،کتاب الصوم)
(۲)دوسری روایت حضرت سہل بن سعد رضی اﷲ عنہ سے ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:جنت میں ایک دروازہ ہے جس کو رَیَّان کہتے ہیں روزہ دارجنت میں اس دروازہ سے جائیں گے روزہ داروں کے سوااورکوئی اس میں نہیں جائے گا،اعلان کیاجائے گاکہ روزہ دارکہاں ہیں وہ اُٹھ کھڑے ہوں گے ان کے سوااس میں کوئی نہیں جائے گاجب یہ لوگ اندرچلے جائیں گے تودروازہ بندہوجائے گاکوئی اوراس میں نہیں جاسکے گا(صحیح البخاری،کتاب الصوم)
تلاوت قرآن کریم کاخاص اہتمام کرنا: رمضان شریف میں تلاوت قرآ ن کاخصوصی اہتمام کریں کیونکہ اس مبارک مہینے کوقرآن کریم سے خصوصی مناسبت وتعلق ہے۔قرآن کریم اسی ماہ مقدس میں لوح محفوظ سے آسمان دنیاپرنازل کیاگیااوردوسری آسمانی کتابیں بھی اسی مبارک مہینے میں نازل کی گئیں(۱)حضرت ابراہیم خلیل اﷲ علیہ السلام کواسی مہینے کی پہلی یاتیسری تاریخ کوصحیفے عطاکئے گئے(۲)حضرت داؤد علیہ السلام کواسی مہینے کی ۱۲؍یا۱۸ ؍تاریخ کوزبورعطاکی گئی(۳)حضرت موسیٰ کلیم اﷲ علیہ السلام کواسی مبارک مہینے کی ۶؍تاریخ کوتوریت شریف عطاکی گئی(۴)اورحضرت عیسیٰ روح اﷲ علیہ السلام کوبھی اسی مبارک مہینے کی ۱۲؍یا۱۳؍تاریخ کوانجیل عطاکی گئی۔
حضرت ا بوہریرہر ہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہاکہ میں نے رسول اﷲ ﷺ سے سناکہ آپ ﷺ فرماتے تھے کہ جوشخص اﷲ تعالیٰ کی ملاقا ت کی امید رکھتاہے اسے چاہئے کہ وہ اﷲ کے’’ اہل‘‘کی عزت کرے صحابۂ کرام نے پوچھا یارسول اﷲ ﷺ کیا اﷲ عزوجل کابھی کوئی اہل ہے؟توآپ ﷺ نے فرمایاہاں!پوچھاگیاوہ کون ہے توآپ ﷺ نے فرمایا دنیامیں اﷲ تعالیٰ کے وہ اہل ہیں جوقرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں۔ ‘‘(درۃ الناصحین،ضیاء الواعظین،ص۳۸،حصہ دوم) اسی لئے اس مبارک مہینے میں زیادہ سے زیادہ تلاوت قرآن مجید کریں۔قرآن کریم کوٹھہرٹھہرکراورسمجھ کرپڑھنے کی حتی المقدورکوشش کریں،کثرتِ تلاوت کے ساتھ ساتھ سمجھنے اوراس کے جملہ احکامات ومسائل پرمکمل عمل کرنے کابھی خاص خیال رکھیں۔
تراویح کی نماز پورے ذوق وشوق سے اداکرنا:اس ماہ مقدس میں تراویح کی نماز سے بھی خصوصی شغف رکھیں اورکاہلی وسستی سے ہرگزکام نہ لیں بلکہ اوقات تراویح سے قبل ہی اپنے تمام حوائج وضروریات سے فراغت حاصل کرلیں اورنماز تراویح کی ادائیگی کے لئے مکمل منتظررہیں۔’’عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من قام رمضان ایماناواحتساباغُفرلہ ماتقدم من ذنبہ ٖ‘‘حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے ارشادفرمایاکہ جوشخص صدق دل اوراعتقادصحیح کے ساتھ رمضان المبارک میں قیام کرے یعنی تراویح پڑھے تواس کے اگلے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔‘‘(مسلم شریف) اس حدیث پاک سے تراویح کے نماز کی فضیلت واضح طورپرثابت ہوتی ہے اس لئے ہمیں تراویح کی نمازکومکمل خشوع وخضوع اورذوق وشوق کے ساتھ پڑھنے کی کامل کوشش کرنی چاہئے اورجیسے تیسے بیس رکعت کی گنتی صرف پوری ہرگزنہ کریں بلکہ نماز کوپورے اطمینان وسکون اوروقارکے ساتھ اداکریں تاکہ آپ کی زندگی پراس کابہترین اثرمرتب ہو اورخدائے وحدہ لاشریک سے قرب وتعلق مضبوط ہوجائے اورآپ کے لئے ذریعۂ نجات بن سکے۔خداتوفیق دے تونمازِتہجد کابھی ضرور اہتمام کریں۔

صدقہ اورصلہ رحمی پرخصوصی توجہ دینا: اس بابرکت مہینے میں صدقہ اورصلہ رحمی پربھی خاص توجہ دیں جومسلمان بھائی حاجت مندہوں ان کی ضرورتوں کوپوری کریں اورکمزوروں ،مسکینوں،فقیروں،یتیموں اوربیواؤں کے ساتھ صلہ رحمی بھی کریں(۱)’’ عن ابی سعید قال قال رسول اﷲ ﷺ لان یتصدق المرء فی حیٰوتہٖ بدرھم خیرلہ من ان یتصدق بمأۃ عندموتہ‘‘ حضرت ابوسعیدخدری کہتے ہیں کہ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایاکہ انسان کااپنی زندگی کے ایام میں ایک درہم صدقہ کرنامرنے کے وقت سودرہم صدقہ کرنے سے بہترہے۔‘‘(ابوداؤد شریف)
(۲)’’حضرت عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنھمانے کہا کہ رسول کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے صدقۂ فطراس لئے مقررفرمایاتاکہ لغواوربے ہودہ کلام سے روزہ کی طہارت ہوجائے اوردوسری طرف مساکین کے لئے خوراک ہوجائے۔‘‘(ابوداؤد شریف)
(۳)’’عن ابی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ عن النبی ﷺ قال ان الرحم شجنۃ من الرحمٰن فقال اللّٰہ مَن وصلک وصلتہ ومن قطعک قطعتہ۔‘‘(مسلم شریف)’’حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرمﷺ نے ارشادفرمایا’’ رَحَمْ رحمٰن ہی کاایک شعبہ ہے پس اﷲ تعالیٰ فرماتاہے جس نے تجھے (یعنیرَحَمْ کو)ملایامیں نے بھی اُسے ملایااورجس نے تجھے کاٹامیں نے بھی اُسے کاٹا۔‘‘ ان احادیث طیبہ سے صدقہ وصلہ رحمی کی فضیلت روزروشن کی طرح ظاہرہوئی اس لئے اس ماہ مبارک میں صدقہ وخیرات کثرت کے ساتھ کریں،غریبوں،مسکینوں،یتیموں،بیواؤں کی خبرگیری کریں اورناداروں کی سحری وافطاری کااہتمام بھی کریں۔آقائے دوجہاں ﷺ ارشادفرماتے ہیں کہ:یہ غریبوں اورحاجت مندوں کے ساتھ اظہارہمدردی کامہینہ ہے،ہمدردی سے مرادمالی ہمدردی بھی ہے اورزبانی ہمدردی بھی،ان کے ساتھ رفتار،گفتار
اورسلوک میں نرمی برتیں،ملازمین کوسہولتیں دیں اورحتی المقدورمالی اعانت بھی کریں۔
(۴)حضرت عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہمافرماتے ہیں کہ:حضوراکرم ،نورمجسم ،سیدعالم ﷺسخی اورفیاض توتھے ہی مگررمضان المبارک میں توآپ ﷺ کی سخاوت بہت ہی زیادہ بڑھ جاتی تھی،جب حضرت جبریل امین علیہ السلام ہررات کوآپ ﷺکے پاس آتے اورقرآن کریم کی تلاوت کرتے اورسنتے تھے تواِن دِنوں میں آپ ﷺتیز چلنے والی ہواسے بھی زیادہ فیاض ہوتے تھے۔اس لئے ہمیں بھی حضورﷺ کی سنت پرعمل کرتے ہوئے اس ماہ مقدس میں کمزورطبقہ پر فیاضی سے کام لیناچاہئے ۔
شب قدرکااحترام اوراس کی عبادتیں: شب قدرگناہوں پرندامت ،طلبِ مغفرت اوردعاؤ ں کی قبولیت کے پُرنورلمحات ہیں اس لئے اس مقدس شب میں زیادہ سے زیادہ توبہ واستغفارکریں،نوافل کااہتمام کریں ،قرآن کریم کی تلاوت،تسبیحات وتہلیلات کاوِرداَوراَورادووَظائف وَدرودپاک کی کثرت کریں،اس مقدس رات کی اہمیت یہ ہے کہ اس مقدس رات میں اﷲ تبارک وتعالیٰ نے کلام مقدس کو نازل فرمایااوریہ مقدس شب ہزارمہینوں سے بہترہے۔چنانچہ خدائے وحدہٗ لاشریک قرآن کریم میں ارشادفرماتاہے کہ:’’اناانزلناہ فی لیلۃ القدروماادرٰک مالیلۃ القدرلیلۃ القدرخیرمن الف شھرتنزل الملٰئکۃ والروح فیھاباذن ربھم من کل امرسلٰم ھی حتیٰ مطلع الفجر‘‘بے شک ہم نے اسے (یعنی قرآن کریم کو)شب قدرمیں اتارااورتم نے کیا جاناکیاشب قدرشب قدرہزارمہینوں سے بہتراس میں فرشتے اورجبرئیل اترتے ہیں اپنے رب کے حکم سے ہرکام کے لئے وہ سلامتی ہے صبح چمکنے تک۔(ترجمہ:کنزالایمان، سورۃ القدر،عمّ۳۰)
روزہ کی فرضیت: روزہ کی فرضیت کے بارے میں فرمایاکہ:’’یٰا یھاالذین اٰمنواکتب علیکم الصیام کماکتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون‘‘ ائے ایمان والو!تم پرروزے فرٖ ض کئے گئے جیسے اگلوں پرفرض ہوئے تھے کہ کہیں تمہیں پرہیز گاری ملے۔‘‘(ترجمہ : کنزالایمان ،سورۃ البقرہ،آیت نمبر۱۸۳)۔‘‘روزے کی فرضیت کے ذکرکے ساتھ ہی ترغیب وتشویق کے لئے فرمایاکہ روزہ صرف تمہیں پرفرض نہیں کیاگیابلکہ سابقہ اُمتوں پربھی فرض تھا۔روزہ کااصل اورحاصل تقویٰ وپرہیزگاری اختیارکرناہے۔تقویٰ آخرت کی کامیابی کی شرط ہے یہ حقیقی کامیابی کی ناگزیرضرورت ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآ ن اہل جنت کے تذکرہ میں باربارتقویٰ کاتذکرہ کرتاہے۔تقویٰ کی پونجی حاصل کرنے کے لئے دیگرعبادات کے ساتھ ساتھ روزے کی عبادت فرض کی گئی ہے۔اگلی آیت کریمہ میں ارشادفرمایاکہ:’’ایامامَّعدودٰت فمن کان منکم مریضااوعلیٰ سفرفعدۃُ من ایام اُخروعلی الذین یُطیقونہ فدیۃ طعامُ مسکین فمن تطوع خیرافھوخیرلہ واَن تصومواخیرلکم ان کنتم تعلون‘‘( روزے)گنتی کے دن ہیں توتم میں جوکوئی بیماریاسفرمیں ہوتواتنے روزے اوردنوں میں اورجنھیں اس کی طاقت نہ ہووہ بدلہ دیں ایک مسکین کاکھاناپھرجواپنی طرف سے نیکی زیادہ کرے تووہ اس کے لئے بہترہے اورروزہ رکھناتمہارے لئے زیادہ بھلاہے اگرتم جانو۔‘‘(ترجمہ:کنزالایمان،سورۃ البقرہ،آیت نمبر:۱۸۴)
اس رکوع کی متذکرہ دوآیات کے بارے میں ایک رائے جواسلاف کرام کے بہت سے لوگوں کی ہے کہ ان کاتعلق رمضان کے روزے سے نہیں بلکہ ایام بیض کے روزے سے ہے۔جورمضان کے روزوں سے پہلے فرض ہوئے تھے ۔یعنی ہرقمری مہینے کی ۱۳؍۱۴؍۱۵؍تاریخ کے روزے ۔ان روزوں کی غرض وغایت یہ تھی کہ لوگوں کوروزے کی عبادت سے مانوس کیاجائے،کیونکہ اہل عرب روزے سے مانوس نہیں تھے۔چنانچہ ان تین دِنوں کے حوالے سے یہ بات بڑی مناسب معلوم ہوتی ہے کہ تم پرروزے فرض کئے گئے ہیں’’جوگنتی کے چنددن ہیں۔‘‘حضورنبی اکرم،نورمجسم،سیدعالم ﷺنے ان تین دِنوں کے روزوں کی تاکید فرمائی ہے،اوربعدمیں جب رمضان المبارک کے روزے فرض کردئے گئے توان کی فرضیت ختم ہوگئی،مگراب بھی یہ سنت مؤکدہ کے درجے میں ہے۔
حضوراکرم،نورمجسم،سیدعالمﷺ نے دوران سفربعض اوقات روزہ کوترک بھی فرمایا ہے اوررکھابھی ہے۔اوردوسری رعایت یہ ہے کہ اگرکوئی روزہ نہیں رکھ سکتاتوایک مسکین کاکھاناکھلادے،یہ گویاایک روزہ کافدیہ ہے۔ جوکوئی اپنی آزادمرضی سے زیادہ نیکی کاکام کرے یعنی ایک مسکین کے بجائے دویاچارمساکین کوکھاناکھلادے تواس کے لئے اورربہترہے۔مگریہ بات یادرکھیں کہ اگرتم پریہ بات منکشف ہوجائے کہ روزہ رکھنے میں کتنی خیروبرکت اورثواب ہے توتم اُسے کبھی نہ چھوڑوگے۔
اب آگے ماہ رمضان المبارک اوراس کے روزوں کی فرضیت کے بارے میں اﷲ تبارک وتعالیٰ کلام مقدس میں ارشادفرماتاہے کہ:’’شھررمضان الذی انزل فیہ القرآن ھدی للناس وبیّنٰت من الھدیٰ والفرقان فمن شھدمنکم الشھرفلیصمہ ومن کان مریضااوعلیٰ سفرفعدۃ من ایام اخریرید اللّٰہ بکم الیسرولایریدبکم العسرولتکملوالعدۃ ولتکبروااللّٰہ علیٰ ما ھدٰکم ولعلکم تشکرون‘‘رمضام کامہینہ جس میں قرآن اترالوگوں کے لئے ہدایت اوررہنمائی اورفیصلہ کی روشن باتیں توتم میں جوکوئی یہ مہینہ پائے ضروراس کے روزے رکھے اورجوبیماریاسفرمیں ہوتواتنے روزے اوردنوں میں اﷲ تم پرآسانی چاہتاہے اورتم پردشواری نہیں چاہتااوراس لئے کہ تم گنتی پوری کرواوراﷲ کی بڑائی بولواس پرکہ اس نے تمہیں ہدایت کی اورکہیں تم حق گزارہو۔‘‘(ترجمہ:کنزالایمان،سورۃ البقرہ،آیت نمبر185)
قرآن کریم لوگوں کی رہنمائی کے لئے نازل ہوااَوراِس میں ہدایت کی کھلی نشانیاں ہیں اوروہ حق وباطل کے مابین امتیازپیداکرنے والی کتاب مقدس ہے۔یہ پوری نوع انسانی کے لئے رہنمائی ہے۔ہدایت ہرشخص کی شدیدضرورت ہے،اﷲ تعالیٰ نے ہمیں دنیامیں ایک بڑے امتحان میں ڈالاہے یہ دنیادارالامتحان اوردارالعمل ہے،دارالجزاء نہیں،کیونکہ دارالجزاء آخرت ہے،یہاں جس کوزیادہ دیاگیااس کی بھی آزمائش کی جارہی ہے اورجس کوکم عطاکیاگیااس کوبھی آزمایاجارہاہے۔کسی شخص کوخدائے وحدہ لاشریک اونچامقام ومرتبہ عطاکرتاہے تاکہ یہ دیکھے کہ وہ فرعون جیسی مذموم صفت اختیارکرتاہے یاپھرذوالقرنین جیسی صفات صالحہ یعنی تواضع،انکساری اوردرویشی اختیارکرتاہے۔تواب اس سے صاف طورپرظاہرہوگیاکہ اس فانی دنیامیں ہرشخص حالت ِامتحان میں ہے اوراس امتحان میں کامیابی کااصل راستہ یہی قرآن مقدس ہے۔یہ لوگوں کی فطری،علمی،عملی،انفرادی اوراجتماعی سطح کی رہنمائی کاسامان ہے پھریہ ہدایت مشکل اورپیچ درپیچ نہیں ہے کہ جس سے آدمی چکراجائے،بلکہ بہت واضح اورروشن ہے۔مولیٰ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعاگوہوں کہ ماہ رمضان المبارک کی برکتوں سے پوری دنیاکے مسلمانوں کومالامال فرما او ر مذکورہ تمام باتوں پر اُمت مسلمہ کوپوری ذمہ داری کے ساتھ عمل کرنے کی توفیق عطافرما۔ آمین بجاہ النبی الکریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم
قدسیوں میں ہے مسرت کی لہردوڑی ہوئی شورہے اوجِ فلک پرآمدِرمضان کا
قیدہوتے ہیں شیاطین اس مبارک ماہ میں گیت گاتے ہیں فرشتے عظمتِ سبحان کا

محمد صدرِعالم قادری مصباحیؔ
About the Author: محمد صدرِعالم قادری مصباحیؔ Read More Articles by محمد صدرِعالم قادری مصباحیؔ: 87 Articles with 77928 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.