سری لنکا میں خودکش حملوں کے ذمہ دار کون۰۰۰؟

سری لنکا میں خودکش حملوں کے ذریعہ تین سوپچاس سے زائد افراد کو ہلاک کردیا گیا، ان حملوں کے سرغنہ کون ہیں اور کس نے ان خطرناک کارروائیوں کو انجام دیا ہے اس کا ابھی کوئی واضح ثبوت فراہم نہیں ہوا ہے لیکن ابتدائی تحقیقات کے بعدمقامی مسلم گروہ کو موردِ الزام ٹھہرایا جارہا ہے اور اس بڑی کارروائی کے پیچھے غیر ملکی ہاتھ بھی بتایا جارہا ہے۔ سری لنکا میں گذشتہ ایک دہے سے امن وآمان بحال تھا ۔ عوام دہشت گردانہ کارروائیوں کو بھلاچکے تھے لیکن اچانک پھر ایک مرتبہ یہاں پرخوف و دہشت کا ماحول پیدا کردیا گیا ہے ، لوگ سکتے اور خوف کے عالم میں ہیں۔ نہیں معلوم کس نے اتنی بڑی کارروائی انجام دینے کیلئے خودکش بمبار تیار کئے ۔ اور یہ کارروائی صرف ایک خودکش بمبار نے نہیں بلکہ 9خودکش حملہ آوروں نے انجام دیں ہیں ۔ ان دہشت گردانہ کارروائیوں کو دیکھتے ہوئے صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ اس کے پیچھے کوئی ایسا درندہ صفت ہاتھ ہے جو مسلمانوں کو عالمی سطح پر بدنام کرنا چاہتا ہے۔ اگر واقعی نام نہاد مسلم گروہ ان حملوں میں ملوث ہے تو اس کی عالمی سطح پر مسلمان سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں کیونکہ اسلام نے امن و سلامتی کی تعلیم دی ہے اور ناحق کسی بھی شخص کو ہلاک کرنے یا تکلیف پہنچانے سے منع کیا ہے ۔ اور پھر سری لنکا میں ایسے خراب حالات بھی نہیں بتائے جارہے ہیں کہ وہاں کے مسلمان کسی قسم کا مسیحی برادری سے بدلہ لیں۔ ان دنوں جس قسم کے بھی حالات سری لنکا میں ہیں اس سے وہاں کے مسلمانوں کیلئے صبر آزما ہیں کیونکہ اگر خودکش حملے کرنے والے واقعی کسی مسلم گروہ سے تعلق رکھنے کے ثبوت ملتے ہیں تو اس سے سری لنکا کے مسلمانوں کے لئے نئے مسائل و مصائب پیدا ہونگے۔تفصیلات کے مطابق سری لنکا میں دہشت گردانہ کارروائیوں کے بعد عوام میں ڈرو خوف کا سایہ منڈلانے لگا ہے ۔ 20؍ اپریل بروز اتوارسری لنکا میں مسیحی تہوار ایسٹر (عید الفصح) کے موقع پر دارالحکومت کولمبو اور اس کے نواح میں تین گرجا گھروں اور تین لگزری ہوٹلوں میں بیک وقت دھماکے کئے گئے جس کے چند گھنٹوں کے بعد ملک کے دیگر شہروں میں مزیدتین دھماکے کئے گئے ،گذشتہ دس سال کے دوران سری لنکا کی تاریخ کے یہ سب سے پرتشدد اور بھیانک واقعات بتائے جارہے ہیں۔ گرجا گھروں اور ہوٹلوں میں کئے گئے ان خودکش حملوں میں 359افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ مزید حملوں کا خطرہ اب بھی بتایا جارہا ہے ۔ذرائع ابلاغ کے مطابق سری لنکا میں مزید دہشت گرد حملوں کا خطرہ برقرار ہے جس کے باعث کولمبو میں سیکیورٹی ہائی الرٹ کردی گئی ہے، رات کے اوقات میں کرفیو نافذ اور ہنگامی حالت برقرار ہے۔ڈپٹی وزیر دفاع رووان وجے وردانے کا کہنا ہے کہ تحقیقات کے مطابق دھماکوں میں 9خودکش حملہ آور ملوث تھے جن میں ایک خاتون بھی شامل تھی جب کہ 8حملہ آوروں کی شناخت کی جاچکی ہے۔ رووان وجے وردانے کے مطابق دھماکوں کے الزام میں 60افراد گرفتار کیے جاچکے ہیں جب کہ دھماکوں میں ملوث مقامی گروہ کے لیڈر نے شنگریلا ہوٹل میں خودکشی کرلی ہے۔ڈپٹی وزیر دفاع کا مزید کہنا تھا کہ دھماکوں میں ملوث ایک بمبار نے برطانیہ اور آسٹریلیا سے تعلیم حاصل کی۔سری لنکن وزیراعظم رانیل وکرما سنگھے کا کہنا تھا کہ حملوں میں غیر ملکی تعلق سے متعلق ثبوت ملے ہیں تاہم داعش میں شمولیت کے بعد ملک واپس لوٹنے والے شہریوں کو مانیٹر کیا جارہا ہے۔دوسری جانب سری لنکن حکومت نے سیکیورٹی اداروں کے سربراہان تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جب کہ انٹرپول نے دھماکوں کی تحقیقات کیلئے ماہرین کو سری لنکا بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔سعودی عرب، پاکستان اور دیگر کئی ممالک کے سربراہان نے سری لنکا کے دارالحکومت اور دیگر شہروں کے گرجا گھروں اور ہوٹلوں میں کئے گئے ان دہشت گردانہ کارروائیوں کو بزدلانہ حرکت قرار دیا ہے اور سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ حکومتی ترجمان وزیر صحت راجیتھا سینارتنے نے ایک مقامی شدت پسند مسلم گروہ نیشنل توحید جماعت کو ان حملوں کا ذمہ دار قرار دیا ہے تاہم انہوں نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ اس کے پیچھے کسی بین الاقوامی گروہ کارفرما ہوسکتا ہے جس کے بغیر اس قسم کے حملے کرنا ممکن نہیں تھا۔ سری لنکا کے وزیر اعظم نے شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے تعلق سے بھی کہا کہ وہ ان دھماکوں کے پیچھے ہوسکتی ہے ، دولت اسلامیہ نے منگل کو ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے لیکن اس کے شواہد فراہم نہیں کئے ۔دیکھنا ہے کہ تحقیقاتی ایجنسیاں کس نتیجہ پر پہنچ پاتی ہیں اور سفاک درندوں کو پکڑنے میں کس حد تک کامیاب ہوتی ہیں۔

پاکستانی کابینہ میں ردوبدل
وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے وفاقی کابینہ میں وزراء کے قلمدانوں میں ردوبدل کرتے ہوئے سیاسی قائدین و مبصرین کو چونکا دیا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق وزیر اطلاعات فواد چودھری کو وزیر برائے سائنس اینڈ ٹکنالوجی کا قلمدان دیاگیا ہے جبکہ وزارتوں میں ردوبدل سے چند گھنٹے قبل وزیر خزانہ اسد عمر وزیر خزانہ کی حیثیت سے مستعفی ہوگئے تھے کیونکہ انہیں وزیر خزانہ کے بجائے وزیر توانائی کا قلمدان سنبھالنے کیلئے کہا گیا تھا ، اسد عمر جنہیں وزیر خزانہ کے بجائے وزیر توانائی کی حیثیت سے عہدہ کا جائزہ لینے کیلئے کہا گیا تھا لیکن انہوں نے کابینہ سے ہی مستعفی ہونے کا فیصلہ کرلیا اور وزیر توانائی کا قلمدان لینے سے معذرت کرلی۔مستعفی ہونے کے بعد انہو ں نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ وزیراعظم عمران خان کابینہ میں رد و بدل چاہتے تھے اور انہیں وزارت خزانہ کے بجائے وزیر توانائی کا قلمدان سنبھالنے کیلئے کہا گیا تھا۔ اسد عمر نے کہا کہ انہوں نے وزیر اعظم کی مرضی سے فیصلہ کیا ہے کہ وہ کابینہ میں کوئی بھی عہدہ نہیں لینگے۔ اسد عمر عمران خان سے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ عمران خان پاکستان کی واحد امید ہیں اور انشاء اﷲ نیا پاکستان ضرور بنے گا ، انکا کہنا تھا کہ وہ پاکستان تحریک انصاف نہیں چھوڑ رہے ہیں بلکہ وہ عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اسد عمر کے مستعفی ہونے کے بعد تجزیہ نگاروں اور اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کی جانب سے انکی حمایت او ر مخالفت میں مختلف بیانات کا سلسلہ چل پڑا تھا ۔وزارتِ خزانہ کیلئے ڈاکٹر حفیظ شیخ کو مشیر مقرر کیا گیا ۔ وزیر اعظم عمران خان نے پاکستانی معیشت سے جڑے تمام تر امور سدھارنے کیلئے پانچ ماہرین پر مشتمل ایک بورڈ تشکیل دیا ہے جس میں شوکت ترین، شبر زیدی، سابق گورنر اسٹیٹ بینک سلیم رضا ، صادق سید اور شبیر اعظم مزاری شامل ہیں جبکہ پارٹی کے سینئر رہنماء جہانگیر ترین اس بورڈ کے کنوینئر ہونگے اور یہ بورڈ وزیر اعظم عمران خان کو رہنمائی فراہم کرے گا۔عمران خان کی جانب سے وزارتوں میں ردوبدل پر کئی تبصرے ہوئے ہیں ، اب دیکھنا ہے کہ پاکستانی وزیراعظم کا یہ فیصلہ ملک کی ترقی و خوشحالی میں کس قسم کی تبدیلی لاتا ہے اور ملک کی معیشت کس قدر مستحکم ہوپاتی ہے۔

عمران خان کا دورہ ایران اور پاکستان کیلئے سوغات
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے دورہِ ایران کے موقع پرانکی ایران کے صدر حسن روحانی سے خوشگوار ماحول میں ملاقات ہوئی اس موقع پرایرانی صدر حسن روحانی نے دونوں ممالک کے درمیان باہمی شراکت داری کیلئے مشترکہ تجارتی کمیٹی تشکیل دیئے جانے کی تجویز پیش کی تاکہ دو طرفہ تجارت کو فروغ دیا جاسکے۔پاکستان اور ایران نے سرحدی علاقوں میں شدت پسندی کی روک تھام کیلئے ایک مشترکہ سریع الحرکت ردعمل سکیوریٹی فورس بنانے کا فیصلہ کیا ہے جسکا اعلان ۲۲؍ اپریل کو تہران میں ایران کے صدر حسن روحانی نے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا۔اس موقع پرعمران خان نے صدر حسن روحانی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ سب سے زیادہ اہم وجہ میری یہاں موجودگی کی صدر صاحب یہ ہے کہ میں محسوس کرتا ہوں کہ دہشت گردی کا مسئلہ مشکلات کا باعث بن رہا تھا۔ میرے لئے یہ بہت ضروری ہے تھا کہ میں سکیوریٹی سربراہ کے ساتھ یہاں آؤں تاکہ یہ مسئلہ حل ہوسکے‘‘۔اس طرح ایران اور پاکستان کے درمیان دہشت گردی کی کارروائیوں کو ختم کرنے کے لئے دونوں سربراہوں کی ملاقات ایک مستحسن اقدام ہے ۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ہمیں یقین ہے کہ دونوں ملکوں کی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف دہشت گردی کے لئے استعمال نہیں ہونے دی جائے گی ،انہوں نے مزید کہا کہ ہم اپنی سرزمین سے آپ کو کوئی نقصان ہونے نہیں دیں گے۔ واضح رہے کہ چند روز قبل پاکستان کے صوبے بلوچستان میں اورماڑہ کی ساحلی شاہراہ پر شدت پسندوں نے ایک مسافر بس میں سوار چودہ سکیوریٹی اہلکاروں کو ہلاک کردیا تھا اس حملے میں پاکستانی بحریہ کے دس اہلکار وں کو ہلاک کردیا گیا تھا اس واقعہ کے بعد پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے دعویٰ کیا تھا کہ اس واردات میں ملوث دہشت گردوں کی کمین گاہیں ایران میں ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اپنے دورہ ایران کے موقع پر عمران خان نے اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ ایران کے اندر ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں ایسے عناصر ملوث رہے ہیں جو پاکستان کی سرزمین استعمال کرکے اپنی کارروائی منظم کرتے ہیں۔ عمران خان کے اس بیان کے بعد پاکستان میں اپوزیشن کی جانب سے ہنگامہ آرائی ہوئی ،مسلم لیگ ن کی رہنماء مریم نواز نے وزیراعظم عمران خان کے ایران کے خلاف پاکستانی سرزمین استعمال ہونے کے بیان پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ غیر ملکی سرزمین پر ملک کو رسوا کرنے کی قومی و سفارتی سطح پر نظیر نہیں ملتی مریم نواز کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کے اس بیان پر ایرانی قیادت پاکستان کے بارے میں کیا سوچ رہی ہوگی۔عمران خان کے اس بیان اور اپوزیشن کے ردعمل کے بعد وزیراعظم ہاؤس سے وضاحتی بیان جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ ایران میں وزیر اعظم کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا ہے۔اس سے قبل سالِ گذشتہ بھی پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے ایک انٹرویو میں ممبئی حملوں میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے شدت پسندگروہوں کے ملوث ہونے کی بات کی تھی جس کے بعد ان پر غداری اور مودی کا دوست ہونے کے علاوہ کئی الزامات لگائے گئے تھے۔ایران کے دورے کے موقع پر عمران خان کا یہ بیان پاکستان میں موضوع ِ بحث بنا ہوا ہے۔ خیر عمران خان کا وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ایران کا یہ پہلا دورہ تھا۔اس موقع پر حسن روحانی نے عمران خان کے ساتھ انکی ملاقات کو کامیاب قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے ساتھ تعاون بڑھنے کیلئے یہ ایک اہم قدم ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق حسن روحانی نے کہا کہ پاکستانی حکام کے ساتھ امریکہ کی طرف سے کئے جانے والے ’’غلط اقدامات‘‘ پر بھی بات چیت کی گئی۔ حال ہی میں امریکہ نے ایران کے پاسداران انقلاب کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے ۔ایران کے صدر نے امریکہ کے اس اقدام کو تضحیک آمیز ٹھہرایا۔پاکستان اور ایران کے درمیان بہتر تعلقات پر امریکہ کا ردعمل کیا ہوگا یہ تو آنے والا وقت بتائے گا۰۰۰

اسرائیل میں حکومت سازی کیلئے بنجمن نیتن یاہو کیلئے شرائط
اسرائیل میں پھر ایک مرتبہ وزیر اعظم کی حیثیت سے بنجمن نتین یاہو کو کامیابی حاصل ہوچکی ہے وہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد نئی حکومت تشکیل دینے کیلئے کوشاں ہیں انہیں دیگر جماعتوں کی تائید و حمایت ضروری ہے اسی کے پیشِ نظر نتین یاہو سے کئی سیاسی جماعتوں کے قائدین ملاقات کررہے ہیں تاکہ وہ اپنی اپنی بات منواکر نیتن یاہو کی سربراہی میں حکومت تشکیل دے سکیں۔اسی سلسلہ میں اسرائیل کی دائیں بازو کی انتہا پسند مذہبی سیاسی جماعتوں نے حکومت میں شمولیت کیلئے وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کے سامنے اپنی شرائط پیش کیں ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیل کی دائیں بازو کی متعدد سیاسی جماعتوں نے نیتن یاھو کے سامنے حکومت میں شمولیت کے لئے جوشرائط عائد کی ہیں ان میں ایک اہم شرط یہ ہے کہ نیتن یاھو فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے لئے کسی قسم کا دباؤ قبول نہیں کرینگے۔اس کے علاوہ یہودی آباد کاروں کو تحفظ فراہم کرنے کے حوالے سے قانون میں ترمیم اور سنہ 2005 کومنسوخ ہونے والے اس قانون کی بحالی شامل ہے جس کے تحت کسی رکن کنیسٹ کا مواخذہ نہیں ہوسکتا۔رپورٹ کے مطابق انتہا پسند جماعتوں نے وزارت قانون اور تعلیم کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہودی آباد کاروں کو زیادہ سے زیادہ اختیارات دینے کیلئے قانون سازی پر زور دیا ہے۔اسرائیل کی دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں نے نسل پرستانہ قانون منسوخ کرنے کے مطالبے پر مبنی اسرائیلی سپریم کورٹ کا فیصلہ مسترد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ذرائع ابلاغ میں کہا گیا ہے کہ "لیکوڈ"کی طرف سے یہودی ارکان کنیسٹ کو تحفظ دینے کے قانون کی بحالی کے مطالبے کا مقدم کیا گیا ہے کیونکہ اس کا فائدہ بنجمن نیتن یاھو کو بھی ہوگا جو اس وقت کرپشن کے ایک سے زائد مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔گزشتہ روزلیکوڈ اور اسرائیل بیتنا کے وفود نے نجمن نتین یاہو سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں سابق اسرائیلی وزیر دفاع آوی گیڈورلائبرمین بھی موجود تھے۔

قبلہ اول کے تقدس کو پامال کرنے والے۰۰
قبلہ اول کے تقدس کو ہر آئے دن اسرائیلی سپاہی یا یہودی آباد کار پامال کرتے رہتے ہیں ۔فلسطینی مسئلہ کو حل کرنے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں لیکن مسئلہ فلسطین آج بھی جوں کا توں برقرار ہے۔ اسرائیلی فوج اور پولیس کی فول پروف سیکیورٹی میں دسیوں یہودی آباد کاروں نے مسجد اقصی میں گھس کر مقدس مقام کی بے حرمتی کی۔مقامی ذرائع نے بتایا کہ 266یہودی آباد کاروں نے مسجد اقصی میں گھس کر مقدس مقام کی بے حرمتی کی اور اشتعال انگیز حرکتیں کر کے فلسطینی نمازیوں کو مشتعل کرنے کی کوشش کی گئی۔ذرائع ابلاغ کے مطابق یہودی آباد کاروں کے دھاووں کے وقت صہیونی پولیس کی بھاری نفری مسجد کے دروازوں پر تعینات کی گئی تھی۔ اسرائیلی فوج کی طرف سے یہودی آباد کاروں کو فول پروف سیکیورٹی مہیا کی گئی۔خیال رہے کہ اسرائیلی فوج اور پولیس کی فول پروف سیکیورٹی میں یہودی آباد کاروں کا قبلہ اول پر دھاووں کا اشتعال انگیز سلسلہ روز کا معمول بن چکا ہے۔ سوموار کو بھی اسرائیل کے انتہا پسند وزیر اوری ارئیل کی قیادت میں دو سو سے زائد یہودی آباد کاروں نے قبلہ اول میں گھس کرمقدس مقام کی بے حرمتی کی۔اسرائیلیوں کی جانب سے کی جانے والی بے حرمتی کو عالمی سطح پر کچھ کہا نہیں جاتا اور اگر فلسطینی عوام اس مسئلہ پر آواز اٹھاتے ہیں تو انہیں گرفتار کرلیا جاتا ہے اور طرح طرح کے سزائیں دی جاتی ہیں۔

سعودی عرب میں37افراد کے سرقلم
گذشتہ دنوں سعودی عرب میں دہشت گردی سے متعلق جرائم کے کیسس میں ایک ہی روز میں 37افراد کے سرقلم کردیئے گئے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق بتایا گیا ہے کہ سزائے موت کی ان سزاؤں پر عمل درآمد سعودی عرب کے شیعہ اکثریتی علاقے میں کیا گیا جب کہ سزا پانے والے ایک سنی شدت پسند کا سر قلم کر کے ایک کھمبے سے بھی لٹکایا گیا۔ تاہم ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ سزائے موت پانے والے افراد میں سے زیادہ تر شیعہ افراد تھے۔ ایمسنٹی انٹرنیشل نے ان افراد پر چلائے جانے والے مقدمے کو بھی غیرشفاف قرار دیا ہے۔ سن 2016کے بعد ایک ہی دن میں سزائے موت دیے جانے کا یہ سب سے بڑا واقعہ ہے۔سعودی شاہی حکومت کی عدلیہ اسلامی قوانین کے تحت ملزمین پر عائد کئے گئے جرائم ثابت ہونے کی صورت میں پوری تحقیقات کے بعدسزائیں دے رہی ہیں تو اس کے خلاف کسی کو کچھ کہنے کا حق نہیں ورنہ الزام عائد کرنے والے عہدیدار، عدلیہ اور شاہی حکومت اس کی ذمہ دار ہوگی۔چاہے سزایافتہ سنی ہوں یا شیعہ یا کوئی اور۰۰۰
***

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 358 Articles with 257910 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.