جاوید ملک /شب وروز
زاہد ملک مرحوم بڑے باکمال صحافی تھے جملوں سے کھیلنے کا ہنر جانتے تھے
اکثر اُن کے بے ساختہ جملے محفل لوٹ لیا کرتے تھے ، جن دنوں میں اُنکی
ادارت میں چلنے والے ایک اخبار میں ملازمت کررہا تھا تو ہمارے ساتھ پراچہ
نامی ایک رپورٹر بھی تھا رپورٹر کا پورا نام دانستہ نہیں لکھ رہا کیونکہ وہ
ہمارے بڑے پیارے دوست ہیں اور جلد ناراض ہوجاتے ہیں زاہد ملک اُس رپورٹر کی
حرکتوں سے اکثر پریشان رہا کرتے تھے ایک دن میٹنگ کے دوران زاہد ملک مرحوم
کو اچانک چھینک آگئی تو انہوں نے بے ساختہ کہا کہ چھینک اور پراچہ کبھی بھی
کہیں بھی نازل ہوکر آپ کو شرمندہ کراسکتے ہیں ۔یہ تو ازراہ تفنن میں نے
ماضی کی ایک یاد بیان کردی ورنہ چھینک کے بارے میں مشہور عام یہ ہی تھا کہ
اس کی وجہ نزلہ زکام یا کسی کا یاد کرنا ہوسکتا ہے اکثر جب کسی کو چھینک
آتی ہے تو بڑے بوڑھے یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ تمہیں کسی نے یاد کیا ہے
چھینک کی ڈاکٹر شاہد عباس سے ملاقات سے قبل اتنی ہی اقسام سے ہم واقف تھے
لیکن اُس روز الرجی سیمینار میں وفاقی دار الحکومت کے ممتاز طبیب ڈاکٹر
شاہد عباس کی مدلل گفتگو نے ہمیں انگشت بدنداں کردیا ۔
عالمی ہفتہ الرجی کی مناسبت سے ورلڈ الرجی آرگنائزیشن اور پاکستان الرجی
استہماامنالوجی نے گزشتہ دنوں ایک معلوماتی سیمینار کا انعقاد کیا اس
سیمینار میں کئی پرانے دوستوں سے بھی ملاقات ہوگئی ۔ڈاکٹر انعام ، ڈاکٹر
ربابہ حامد،ڈاکٹر حسن عروج، ڈاکٹر سہیل ،ڈاکٹر رشید اور ڈاکٹر اسماعیل سے
سیر حاصل بحث رہی۔ سیمینار کے انتظامات قابل قدر تھے اس قدر نظم اور وقت کی
پابندی اب پروگرامات میں کم کم دیکھنے میں آتی ہے اس حوالہ سے انتظامی
کمیٹی مس زرتاشہ ،ڈاکٹر اقصیٰ اور نبیلہ یقینا مبارکباد کی مستحق ہیں ۔
ڈاکٹر شاہد عباس نے دوران سیمینار خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ اگر چہ
اسلام آباد پولن الرجی کے حوالے سے مشہور ہے اور زیادہ تر لوگوں کی الرجی
کے بارے میں معلومات بھی پولن الرجی تک ہی محدود ہیں لیکن پاکستان میں
الرجی متاثرین کی بڑی تعداد خوراک سے الرجی کا شکار ہوتی ہے اور خوراک کی
الرجی سے متاثرہ لوگوں میں بڑی تعداد ان کی ہے کہ جو گندم کی الرجی کا شکا
ر ہیں ۔ گندم چونکہ ہماری خوراک کا بنیادی جزوہے اس لیئے وہ بے پناہ نقصان
کرجاتی ہے ۔ گندم کے علاوہ دودھ ، انڈے ،چاول اور دیگر خوراک کے ضروری
اجزاء سے بھی الرجی ممکن ہے ۔ آگاہی نہ ہونے کے سبب بعض اوقات یہ قابل علاج
مرض بگڑ جاتا ہے غلط ادویات کا استعمال مریض کو موت کے منہ میں بھی لے
جاتاہے ۔ اس موقعہ پر ڈی جی ہلیتھ اسلام آباد نے بھی الرجی سے متعلق آگاہی
مہم کی ضرورت پر زور دیا اور پائیز سوسائٹی کے کردار کو سراہتے ہوئے انہوں
نے ہر طرح کی محکمانہ مدد کا یقین دلایا۔
اس سیمینار سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقعہ ملا ، پاکستان کی بدقسمتی یہ
ہے کہ ہم تعلیم اور صحت جیسی بنیادی ضروریات کو ہمیشہ آخری ترجیحات میں
شامل کرتے ہیں اور اس مسئلہ کا تعلق وسائل سے زیادہ ارباب اختیار کی غیر
سنجیدگی ہے، انسانی جان سے قیمتی روئے زمین پر کوئی چیز نہیں ہے اور صحت کی
مناسب سہولیات آئین پاکستان کی رو سے ہر پاکستانی کا بنیادی حق ہے مگر اس
ملک کی بدقسمتی ہے کہ یہاں بنیادی حق صرف قانون کی کتابوں میں ہی درج ہے
عملاً کسی کو حاصل نہیں ہے ۔
ڈاکٹر شاہد عباس اور پائیز سوسائٹی کے دیگر ارکان دن رات ایک کرکے الرجی کے
خاتمہ کیلئے جو جہاد کررہے ہیں وہ لائق تحسین ہے تبدیلی سرکار کو ایسے اہل
لوگوں کی سرپرستی کرنی چاہیے اور ریسرچ کیلئے زیادہ سے زیادہ وسائل فراہم
کرنے چاہیں تاکہ اس مرض کے حوالہ سے عالمی معیار کا کام ممکن ہوسکے ۔ مجھے
یہ جان کر از حد مسرت ہوئی کہ یہ سوسائٹی تحقیق کے ذریعے انتہائی سستی
ویکسین تیار کررہی ہے جس ملک کی نصف سے زائد آبادی خط غربت کی آخری لکیر سے
بھی نیچے زندگی بسر کررہی ہو وہاں یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ ادویات کی قیمت ان
کی قوت خرید سے زیادہ نہ ہو اور یقینا ویکسین اگر بیرون ممالک سے منگوائی
جائے گی تو وہ انتہائی مہنگی ہوگی لیکن مقامی اور باہمت افراد پر دست شفقت
رکھ کر حکومت لوگوں کیلئے سہولت پیدا کرسکتی ہے ۔ ہم اہل قلم تو حکمرانوں
سے گزارش ہی کرسکتے ہیں ان کی ترجیحات بدلنا تو ہمارے لیئے ممکن نہیں ہے ۔ڈاکٹر
شاہد عباس جیسے قابل لوگوں کی سرپرستی کرکے حکومت صحت سے انصاف کرسکتی ہے ۔
|