انسان جب پیدا ہوتا ہے تو والدین کی اس کے مستقبل کے
حوالہ سے بہت سی خواہشات ہوتی ہیں کہ میرا بیٹا بڑا ہوکر سیاستدان بنے
گا،بزنس مین بنے گا، فوجی آفیسربنے گا، پولیس آفیسر بنے گا، زیادہ والدین
کی خواہش ہوتی ہے کہ ہمارا بیٹاڈاکٹر بن کر دکھی انسانیت کی خدمت کرے گا
اور پھر اسے ڈاکٹر بنانے کیلئے محنت کی جاتی ہے۔ اور جب وہ کئی سالوں کی
محنت کے بعدڈاکٹر بن جاتا ہے تو پھروالدین کو اس کی نوکری کی فکر لاحق
ہوجاتی ہے اور جب وہ سرکاری نوکر ہوجاتا ہے اور تحصیل ہیڈ کوارٹر ، بنیادی
مرکزصحت یا رورل ہیلتھ سنٹر میں اس کو جاب مل جاتی ہے اور جب وہ نوکری کے
پہلے روز سیٹ پر بیٹھتا ہے تو اس کے اندر انسانیت کی خدمت کا جذبہ موجزن
ہوتا ہے اور وہ بڑی دلجمعی سے انسانیت کی خدمت کرنا شروع کردیتا ہے اور اس
کی توجہ اور لگن سے مریض اس کے گرویدہ ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور پھر آہستہ
آہستہ اس کی پہچان بننا شروع ہوجاتی ہے اور جوں جوں اس کی پہچان بننا شروع
ہوتی ہے توں توں اس کی قیمت لگنا بھی شروع ہوجاتی ہے میڈیسن فروخت کرنے
والی کمپنیاں اپنی میڈیسن لکھوانے کیلئے اس کو طرح طرح کے لالچ دینا شروع
کردیتے ہیں ڈاکٹر کی پہچان اوراس کے مریضوں کے مطابق اس کی قیمت لگائی جاتی
ہے اور پھر یہاں سے ہی ڈاکٹر کے کاروبار کا آغاز ہوتا ہے جوں جوں ڈاکٹر ان
کمپنیوں کے جال میں پھنستا جاتا ہے انسانیت کی خدمت سے دور ہوتا چلا جاتا
ہے ۔یہ تو ہوگئی سرکاری ہسپتالوں کے عام ڈاکٹروں کی بات اب ذرا ذکر کرتے
ہیں کنسلٹنٹس(اسپیشلسٹ ڈاکٹرز)کا تحصیل لیول کے ہسپتال میں تعینات کنسلٹنٹ
کی ماہانہ تنخواہ 2لاکھ کے قریب ہوتی ہے اور میڈیسن کمپنیاں اس کی
اسپیشلائزیشن کے مطابق اس کی قیمت لگاتی ہیں جہاں عام ڈاکٹر زپر میڈیسن
کمپنیوں کی انویسٹمنٹ ہزاروں میں ہوتی ہے تو کنسلٹنٹ پر لاکھوں میں ہوتی ہے
جس میں بہترین گاڑی، بیرون ممالک کی سیر، کلینک یاگھر پر ایئر کنڈیشنر
ودیگر کے علاوہ نقد کیش اور یہی سے ڈاکٹر کے بزنس کا آغاز ہوتا ہے جب ڈاکٹر
کی کوشش ہوتی ہے کہ میڈیسن کمپنی سے جو میں نے ایڈوانس لیا ہے اس کے مطابق
ان کو رسپانس بھی دوں اس موقع پر ڈاکٹر کے دل ودماغ پر مسیحیت کی بجائے
کاروبار کی اہمیت بڑھنا شروع ہوجاتی ہے اور ڈاکٹر کو مریض کے مرض کے برعکس
کمپنی کی ادویات نکلوانے کی زیادہ فکر ہوتی ہے ۔غرض کہ ڈاکٹرز کی اکثریت
میڈیسن کمپنیوں کی طرف سے مرعات ملنے کی صورت میں اپنا قلم ان کے پاس گروی
رکھ دیتے ہیں اور محض چند فیصد ہی ایسے ہیں جن کو ان کمپنیوں کی فکر نہیں
ہوتی بلکہ وہ اﷲ کی رضا ور خوشنودی کیلئے مرض کے مطابق نسخہ لکھنے کو ترجیح
دیتے ہیں۔
ڈاکٹرز کا ایک روپ تو آپ کو دکھا دیا دوسرا روپ یہ ہے کہ وہ سرکاری
ہسپتالوں میں صرف دکھاوے کیلئے ہی جاتے ہیں جبکہ ان کو زیادہ فکر اپنے
پرائیویٹ کلینک یا ہسپتال کی ہوتی ہے کہ سرکاری ہسپتال سے بک کئے گئے
مریضوں کو بھی جاکے چیک کرنا ہے اور یہی سوچ کر وہ اپنی نشست سے غائب
ہوجاتے ہیں اور ان کی جگہ ایک جونیئر میڈیکل آفیسر ان کی جگہ فرائض سرنجام
دیتا ہے آپ میری اس بات
سے اتفاق کریں گے کہ سرکاری ہسپتالوں میں عرصہ دراز سے تعینات ڈاکٹرز کے
سرکاری ہسپتال کے قریب ترین ہی اپنے پرائیویٹ ہسپتال یا کلینک ہوتے ہیں اور
سرکاری ہسپتال میں ان کے ساتھ ان کا پرائیویٹ ہسپتال کا اسسٹنٹ بھی موجود
ہوتا ہے جو مریضوں کو تسلی کے ساتھ چیک اپ کروانے کیلئے پرائیویٹ طور پر
چیک اپ کروانے کا مشورہ اور وقت دیتا ہے ان سب باتوں کا ایم ایس کو بھی علم
ہوتا ہے مگر چونکہ وہ بھی ایک ڈاکٹر ہی ہے اس لئے وہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی
خاموش رہنے پر ہی اکتفا کرتا ہے اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت وقت
کو اس اہم اور نازک مسئلہ کی طرف فوری طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ |