تعلیم اور علم

لفظ "تعلیم" اور "علم" کے درمیان فرق کوسمجھے۔ تعلیم ایک مکمل با ضابطہ تدریس کا عمل ہے جس میں استاد اپنے شاگردوں کو کتابوں کی روشنی میں درس دیتا ہے۔ علم کا مطلب ہے جاننا۔ علم کسی مدرسے یا سکول کا محتاج نہیں۔ علم توہر جگہ سے حاصل کیا جا سکتا ہے حتی کہ انسان اپنے آپ سے سیکھ سکتا ہے۔ علم کی کوئی حدنہیں جبکہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے بیشمار شرائط ہیں۔ ہمارے آباواجداد تعلیم یافتہ نہیں تھے لیکن با علم اور سمجھدار تھے۔ وہ انپڑھ ضرور تھے لیکن جاحل ہرگز نہیں تھے۔ تعلیم یافتہ ہونا کوئی بْری بات نہیں لیکن جاہل ہونا کسی ذلت سے کم نہیں۔تعلیم اور علم کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔لیکن اس کے باوجود ان میں ایک فرق نمایاں پایا جاتا ہے۔تعلیم ہم سکولوں،کالجوں،اور یونیورسٹیوں سے حاصل کرتے ہیں ہمارے تعلیم حاصل کرنے کا اصل مقصد کیا ہے۔جو آج کل نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ تعلیم حاصل کرنے کا مقصد ڈگری حاصل کرنا ہے تاکہ ایک اچھا روزگار میسر آ سکے۔اور یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ دور میں ایک باعزت روزگار حاصل کرنے کیلئے ایک اچھی ڈگری کا ہونا لازمی عمل ہے۔اس کے بغیر ایک اچھا روزگار ملنا مشکل ہے۔موجودہ دور میں اپنی بقاء کیلئے سائنس اور ٹیکنالوجی یعنی ٹیکنکل تعلیم کا ہونا بہت ضروری ہے۔ موجودہ دور کی جو جدید تعلم ہے اس کی افادیت سے ہرگز انکار نہیں کیا جا سکتا، آج دینا میں جو ترقی ہورہی ہیں سائنس اور ٹیکنالوجی ہی وجہ سے ہے۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ اخلاقی و دینی تعلیم کا حصول بہت اہمیت کا حامل ہے اخلاقی و دینی تعلیم ایک مہذب بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ مشہور کہاوت ہے کہ علم بہت بڑی دولت ہے علم ایک ایسا انمول خزانہ ہے۔جس کا نہ توچرائے جانے کا ڈر ہے اور نہ ہی کہیں کھونے کا ڈر ہے بلکہ علم ایک ایسی لازوال دولت ہے جس نے تمام انسانوں کو اپنی دولت سے مالا مال کر دیا ہے آج وہ انسان جس کو اوڑھنے بچھونے کاپتہ نہیں تھا آج علم جیسی دولت سے مالامال ہے۔آج علم ہی کی بدولت انسان نے سمندر کی تہہ میں چھپے خزانوں کو ڈھونڈ نکالا ہے۔آج انسان نے علم کی بدولت ہی ستاروں پر کمند ڈال رکھی ہے دینا میں آج جتنی بھی ترقی ہورہی ہے سب علم کی بدولت ہی ممکن ہے علم ہی کی بدولت سائنسی ترقی اور ایجادات و تجربات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ وجود میں آیا،آج انسان نے علمی ترقی کی بنیاد پر خلاء کو اپنے مسخر کرلیا ہے ایک دور تھا کہ کسی سے رابطہ کرنا بہت مشکل ہوتا تھا۔ لیکن آج علمی ترقی نے اس مشکل کو آسانی میں بدل دیا ہے ہزاروں میل بیٹھے اپنے عزیز و اقارب سے آسانی سے بات کر سکتے ہیں۔ یہ علم ہی ہے جو کی ایک انسان کو با شعور بناتا ہے انسان کے کردار کو نکھارتا ہے اور انسان کو اخلاقی لحاظ سے دوسروں میں ممتاز کرتا ہے۔علم انسان میں برداشت اور رواداری پیدا کرتا ہے علم انسان کو جہالت کے اندھروں نکال کر دانائی کی روشنی سے منور کرنے میں بہت اہم کردار اداکرتا ہے۔انسان میں حسن اخلاق اور بْردباری کا جذبہ ہی کی بدولت ابھرتا ہے۔ علم انسان کو اچھائی اور برائی کی تمیز سکھاتا ہے۔ اور علم ہی جس کی بدولت ہم ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔آج اگر ہم ترقی یافتہ ممالک پر ایک نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ صرف علم ہی ہے جس کی وجہ سے ترقی ممکن ہوئی ہے اور غیر ترقی یافتہ قوموں پر ایک نظر ڈالیں تو یہ بات واضع ہوگی کہ ان کو میں علم کی شدید کمی ہے جس کی وجہ سے یہ قومیں ترقی نہ کرسکی۔علم ایک ایسی چادر ہے جو اسے اوڑھ لیتا ہے ترقی کی منازل طے کرتا چلا جاتا ہے۔تعلیم کا حصول مرد اور عورت دونوں پر فرض ہیں ۔گزرے برسوں میں والدین صرف اور صرف اپنی اولاد نرینہ کو اعلیٰ تعلیم سے بہرہ ور کرواتے تھے ۔ جب کے لڑکیوں کو محض پرائمری یا مڈل تک تعلیم دلواتے تھے ۔ رفتہ رفتہ زمانہ ترقی کرتا گیا تو والدین کی سوچ میں بھی تبدیلی آئی اور انہوں نے لڑکیوں کو بھی اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کرنا شروع کر دیا۔خواتین کا تعلیمی میدان میں لڑکوں کے شانہ بشانہ کامیابیاں حاصل کرنا اور ملازمت میں آگے آنا ایک خوش آئند پیش رفت ہے،کیوں کہ ماضی میں پاکستان میں لڑکوں کے مقابلے لڑکیاں کافی پیچھے رہی ہیں۔ملک کی تقریبا 52فیصد آبادی کو غیر فعال رکھنا اور معاشی سر گرمیوں میں شریک نہ کرنا کسی لحاظ سے بھی فائدہ مند نہیں ہے ۔گزشتہ چند برسوں سے خواتین چند ایسے شعبہ جات میں بھی آگے آ رہی ہیں ، جن میں پہلے صرف مردوں کی اجار ہ د اری تھی۔قانون اور زراعت کے شعبے میں چند برس پہلے لڑکیوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی ۔لڑکیاں ان شعبوں میں بہت کم تعلیم حاصل کرتی تھیں،لیکن گزشتہ چند برسوں میں ان شعبوں میں بڑی تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا ہے۔ملک کے زرعی کالجوں اور یونیورسیٹوں میں لڑکیوں کی تعداد لڑکوں کی تعداد کے مساوی ہو چکی ہے۔اس کے علاوہ سائنس اور آرٹس کے دیگر شعبہ جات میں مختلف کالجوں اوریونیورسٹیوں میں لڑکیوں کی تعداد روز بروز اضافہ بڑھ رہا ہیں ،جو کچھ عرصہ پہلے مردوں کے لیے مخصوص تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد
 

Sajjad Ali Shakir
About the Author: Sajjad Ali Shakir Read More Articles by Sajjad Ali Shakir: 132 Articles with 129301 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.