اقوامِ متحدہ نے پاکستانی شدت پسند تنظیم جیشِ محمد کے
سربراہ مسعود اظہر کا نام عالمی دہشتگردوں کی فہرست میں شامل کر دیا ہے۔
|
|
اقوام متحدہ کی القاعدہ اور داعش پر پابندیاں لگانے والی کمیٹی نے سنہ 2008
کی قرارداد نمبر 1822 اور دیگر متعلقہ قراردادوں پر عملدرآمد کرتے ہوئے آج
یعنی یکم مئی کو مسعود اظہر کا نام دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کردیا ہے۔
اب مسعود اظہر کے تمام اثاثے منجمد کیے جائیں گے، ان کے سفر پر پابندی ہو
گی اور وہ کسی قسم کا اسلحہ بھی حاصل نہیں کر سکیں گے۔
مسعود اظہر کے بارے میں اقوامِ متحدہ نے مندرجہ ذیل تفصیلات جاری کی ہیں:
اس فہرست میں ان کا نمبر 422 ہے (جس کا مطلب ہے کہ اب تک اس فہرست میں 421
افراد کے نام شامل تھے اور مسعود اظہر کا نام حال ہی میں شامل ہوا ہے)
پورا نام: محمد مسعود اظہر علوی
ٹائیٹل: نامعلوم
عہدہ: نامعلوم
تاریخِ پیدائش: 10 جولائی، 1968
جائے پیدائش: بہاولپور، صوبہ پنجاب، پاکستان
دیگر نام: مسعود اظہر، ولی آدم عیسیٰ
قومیت: پاکستانی
قومی شناختی کارڈ نمبر: نامعلوم
پتہ: نامعلوم
فہرست میں شامل کیے جانے کی وجوہات
مسعود اظہر پر الزام ہے کہ ان کے القاعدہ کے ساتھ تعلقات ہیں اور وہ جیشِ
محمد کے لیے مالی امداد حاصل کرتے رہے ہیں، منصوبہ بندی کرتے رہے ہیں،
سہولتیں فراہم کرتے رہے ہیں، ایسی کارروائیں کرتے رہے ہیں جن کے ذریعے
انھوں نے اسلحہ اور دیگر متعقلہ مواد حاصل کیا، خریدا اور جیشِ محمد کو
سپلائی کیا اور اس کے لیے بھرتیاں کیں۔
اقوام متحدہ نے 17 اکتوبر سنہ 2001 کو القاعدہ اور طالبان کی مدد کرنے کی
وجہ سے جیش محمد کو بھی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا تھا۔ ان کے
متعلق یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ القاعدہ اور طالبان کے لیے مالی امداد جمع
کرتے رہے ہیں اور انہیں اسلحہ فراہم کرتے رہے ہیں۔
پاکستان کا ردِ عمل
پاکستان نے کہا ہے کہ اُس نے مسعود اظہر کو دہشتگرد قرار دینے کی مخالفت
نہیں کی کیونکہ قرارداد کو پلوامہ حملے سے نہیں جوڑا گیا تھا۔
پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے بدھ کو بریفنگ کے
دوران کہا کہ اِس سے پہلے پیش کی جانے والی تجاویز کا مقصد پاکستان کو
بدنام اور کشمیریوں کی تحریک میں رکاوٹ پیدا کرنا تھا اِسی لیے پاکستان نے
انھیں مسترد کر دیا تھا۔
وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ پاکستان سمجھتا ہے کہ دہشتگردی پوری دنیا
کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے۔
اِس سے پہلے امریکہ نے مسعود اظہر کا نام عالمی دہشتگردوں کی فہرست میں
ڈلوانے کے لیے قرارداد کا مسودہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے ممبران
میں تقسیم کیا تھا۔
پلوامہ میں چودہ فروری کو انڈین سکیورٹی فورسز پر حملے کے بعد فرانس اور
برطانیہ نے بھی ایسی ہی قرارداد پیش کی تھی جسے چین نے تکنیکی بنیادوں پر
روک دیا تھا۔
لیکن منگل کو چین سے متعلق یہ اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ اقوامِ متحدہ کی
سینکشنز کمیٹی 1267 میں مسعود اظہر کو دہشتگرد قرار دینے کے بارے میں پیش
رفت ہوئی ہے۔
یاد رہے کہ انڈیا 2016 سے مسعود اظہر کو اس فہرست میں شامل کرنے کا خواہاں
رہا ہے تاہم چین اِس کی مخالفت کرتا رہا ہے۔
|
|
بی بی سی نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی
جانب سے مسعود اظہر کو القاعدہ اور طالبان جیسے دہشتگردوں کی فہرست میں
ڈالنے کے کیا نتائج نکلیں گے؟
بین الاقوامی قوانین کے ماہر کیا کہتے ہیں؟
ماہر قانون احمر بلال صوفی
’اقوام متحدہ کی قرارداد 1267 کے تحت القاعدہ اور طالبان سے تعلق رکھنے
والے افراد کے نام ایک فہرست میں شامل کیے جاتے ہیں۔ اس فہرست میں کسی شخص
کا نام ڈالنے کا ایک طریقہ کار ہے جس کے تحت کوئی ملک کسی شخص پر دہشتگردی
میں ملوث ہونے کا الزام لگا کر اس کا نام اس فہرست میں ڈالنے کی درخواست کر
سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے اسے شواہد پیش کرنے ہوتے ہیں اور ایک کمیٹی
شہادتوں کا جائزہ لے کر متفہ فیصلے کے ذریعے کسی شخص کا نام اس میں ڈال
سکتی ہے۔
’اگر یہ کام سکیورٹی کونسل کی قرارداد کے ذریعے کیا جاتا ہے تو یہ ضوابط کی
خلاف ورزی ہوگی۔
اگر کسی ملک کے شہری کا نام اس فہرست میں ڈال دیا جائے تو اس ملک کو اپنے
شہری کے بارے تین اہم اقدامات کرنے ہوتے ہیں:
اس شخص کی نقل و حمل خصوصاً غیر ملکی دوروں پر پابندیاں عائد کرنا ہوں گی
اس کے اثاثوں کو منجمد کرنا ہو گا
اور اس شخص پر اسلحہ کی نمائش پر پابندی عائد کرنا ہوگی۔
کسی کو رویہ تبدیل کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے؟
’رویہ تبدیل کرنے میں کسی حد تک مدد ملتی ہے۔ اقوام متحدہ نے ایسے طریقے
وضح کر رکھے ہیں کہ اگر کسی شخص کا نام اس فہرست میں آ جائے لیکن وہ
الزامات تسلیم کرنے سے انکاری ہو تو وہ ایک محتسب کے سامنے درخواست کر سکتا
ہے کہ اس کا نام غلط فہرست میں شامل کیا گیا ہے ۔اس کے لیے اسے شواہد پیش
کرنا ہوں گے۔ اس طریقہ کار کی وجہ کئی تنظیموں نے اپنےآپ کو القاعدہ اور
طالبان سے دور کیا ہے۔
’اقوام متحدہ نے اپنے ممبر ممالک پر یہ بھی لازم کیا ہے کہ وہ مؤثر بیانیے
کے ذریعے شدت پسندی سے چھٹکارا پانے کے اقدامات کریں گے۔ اس سلسلے میں
پاکستان نے اقدامات کرنے شروع کر دیئے ہیں۔ پاکستانی علما کی طرف 'پیغام
پاکستان' کےنام سے ایک جامع دستاویز جاری کی گئی ہے جس پر بڑے بڑے علما کے
دستخط ہیں۔ اس دستاویز میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ غیر ریاستی عناصر کے
پاس یہ اختیار نہیں ہے کہ کسی دوسرے ملک میں جہاد یا خلافت کے نام پر کوئی
ایسی کارروائی کریں جو دہشتگردی کے زمرے میں آتی ہو۔
شیو شنکر مینن، قومی سلامتی کے سابق مشیر، سابق سیکرٹری
خارجہ
|
|
شیو شنکر مینن نے اپنے ایک حالیہ ٹی وی انٹرویو میں کہا:
’انڈیا کی طرف سے ایک شخص کو عالمی دہشتگردوں کی فہرست میں ڈالنے پر اصرار
میری سمجھ سےبالاتر ہے۔ فرض کریں اگر ایسا ہو بھی گیا تو کیا اس سے جیش
محمد کے رویے میں تبدیل آ سکے گی؟
’ممبئی حملوں کے بعد حافظ محمد سعید کو اسی فہرست میں شامل کیا گیا تھا
لیکن حافظ سعید کو تنظیم کا نام تو شاید تبدیل کرنا پڑا ہو لیکن وہ اب بھی
وہی کچھ کر رہے ہیں جو دس سال پہلے کر رہے تھے۔
جیش محمد کے مسعود اظہر کا نام گلوبل لسٹ میں ڈالنا ایک بے معنی سی چیز ہے
اور انڈیا اس کی بھاری قیمت دے رہا ہے۔
مجھے نہیں سمجھ آتا کہ انڈیا اپنے قومی وقار کو مسعود اظہر کے ایک فہرست
میں شامل کرانے سے کیوں جوڑ رہا ہے۔
’انڈیا کی سفارتی اور اخلاقی فتح ہو گی‘
راہول بیدی، دفاعی تجزیہ کار
’اگر مسعود اظہر کو دہشتگرد تسلیم کیا جاتا ہے تو ہندوستان کے لیے ایک یہ
سفارتی، سیاسی اور اخلاقی فتح ہوگی مگر اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔
|
|
’جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید کو بھی دس برس پہلے اسی فہرست میں شامل
کیا تھا لیکن وہ اب بھی وہ ہی کام کر رہے ہیں اور ملک بھر کے دورے کر رہے
ہیں اور تقریریں کر رہے ہیں۔
’مسعود اظہر کے فہرست میں شامل ہونا نریندر مودی کی شہرت کے لیے اچھا ہو گا۔
مسعود اظہر کا نام دہشتگردوں کی فہرست میں ڈالنے سے کوئی مسئلہ حل و نہیں
ہو گا لیکن ہندوستان سوچتا ہے کہ اگر امریکہ، برطانیہ اور فرانس کی مدد سے
ایسا ہوگیا تو یہ شروعات ہو گی اور پھر انڈیا آگے بڑھ کر پاکستان پر مزید
معاشی دباو ڈال سکے گا۔
|