میں نوشہرہ میں ایک قبر کے کنارے کھڑا تھا۔یہ قبر دوسری
قبروں سے اس لیے مختلف تھی کہ اس میں میت تھی ہی نہیں۔ اس سے قبل ہم نوشہرہ
کے قریب ہی ایک بستی سے ہو کر آئے تھے جس کے باسی افغانستان سے آ کر یہاں
بس گئے تھے۔ گفتگو میں دھماکوں کا ذکر آیا۔ جنگ کی باتیں ہوئیں اور ایک
صاحب نے دعا کے انداز میں کہا، خدا اس قبر بنانے والے کو اس قبر میں دفن
ہونا نصیب کرے۔ ایک عمر رسیدہ شخص کا کہنا تھا
قبر بھی نصیب والوں ہی کو نصیب ہوتی ہے
یہ بات سن کر میرے ذہن میں سری نگر کے مزار شہداء میں بنی دو قبریں ابھریں۔
ایک قبرکشمیری رہنماء مقبول بٹ کی ہے اور دوسری افضل گرو کی۔ یہ دونوں
قبریں فی الحال اپنی میتوں کی منتظر ہیں حالانکہ دونوں کو تہاڑ کی جیل میں
پھانسی دی جا چکی ہے۔
ایک قبر بنگلہ دیش میں میں کھودی گئی تھی۔بتایا گیا تھا کہ اس قبر میں پاک
فضائیہ کے ایک سابق پائلٹ مطیع الرحمان کی میت د فنائی جائے گی۔ مطیع
الرحمان نے پاک فضائیہ کے ہیرو فلائٹ لیفٹیننٹ راشد منہاس نشان حیدر کا
طیارہ اغوا کر کے بھارت لے جانے کی کوشش کی تھی مگر نوجوان منہاس نے اپنی
جان کی قربانی دے کر اس سازش کو ناکام بنا دیاتھا۔ پاکستانی قوم نے سب سے
معززعسکری ایوارڈ دے کر اپنے شہید کو خراج پیش کیا تھاتو بنگالی بھی اپنے
ہیرو کو بھولے نہیں۔
مطیع الرحمان کی بیٹی نے 1990 میں کراچی میں اپنے والد کی قبر پر حاضری دی
اور واپس جا کر قبر کھدوائی۔قبر کھودنے کا مقصد یہی تھا کہ خالی قبر ان کو
یاد دلاتی رہے کہ مطیع الرحمان کی میت جو کراچی میں دفن ہے اسے ڈھاکہ لا کر
اس قبر میں دفن کرنا ہے۔ 2006 میں سابقہ صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں
بنگالی اپنے ہیرو کی میت لے جانے میں کامیاب ہو گئے۔ اس کو بنگلہ دیش کا سب
سے بڑا عسکری ایوارڈ دیا گیا، جیسور ائر بیس کو اس کے نام سے منسوب کیا
گیا۔اور میت کو سرکاری پروٹول کے ساتھ منتظر قبر میں دفن کر دیا گیا۔
پاکستان کے ایک مایہ ناز، بہادر، شہید، نشان حیدر کے حامل سپوت کا جسد خاکی
بنگلہ دیش کے ضلع دیناج پور میں موجودہے۔ جہلم کے شہر میں ایک یادگار قوم
کو ان کی یاد دلاتی ہے۔ البتہ ہماری نئی نسل کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ
میجر محمد اکرم شہید نشان حیدر کا جسد خاکی پاکستان میں نہیں ہے۔ جنرل مشرف
جب مطیع الرحمان کی میت بنگالیوں کے حوالے کر رہا تھا تو کچھ لوگوں نے دبے
لفظوں میں میجر شہید نشان حیدر کا نام لیا تھا مگر جنرل مشرف نے یہ زبانیں
خاموش کرا دیں تھیں۔اس کا سبب یہ تھا کہ گجرات والوں نے کبھی میجر شہید کے
لیے کوئی قبر کھودی ہی نہیں تھی۔ کشمیریوں کے بس میں قبر یں کھودنا ہی تھا۔
مگر انھیں یقین ہے قبر کی موجودگی میں ان کی آنے والی نسلیں یہ رکھیں گی کہ
انھوں نے تہاڑ جیل میں مدفوں دو میتوں کو مزار شہداء میں لا کر دفن کرنا ہے
اور یہ بھی حقیقت ہے خالی قبر زیادہ دیر اپنی میت کو انتظار نہیں کراتی۔
محکوم ہو کر کشمیریوں نے وہ کام کرلیا جو آزاد ہو کر پاکستانی نہ کر سکے کہ
اپنے شہید ہیرو کے لیے قبر ہی کھود لیں۔ |