الله رب العالمین نے حضور نبی
کریم رحمتہ اللعالمین صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو امام الانبیا اور اپنا
محبوب بندہ ہونے کا شرف بخشا ہے اور خاتم النبیین صلی الله علیہ وآلہ وسلم
اور خاص الخاص بندہ ہونے کے ناتے سے آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو ہر طرح
کے علوم جو کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو
عطا کیے گئے تھے اپنی جامعیت اور اکملیت کے ساتھ آپ صلی الله علیہ وآلہ
وسلم کو عطا ہوئے۔ لہٰذا علم شریعت اور علم حقیقت (طریقت یا تصوف) بھی حد
درجہ کمال تک آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کو عطا کیے گئے۔
لہٰذا یہ کہنا یا سوچنا بھی عبس ہے کہ فلاں علم تو نعوذبالله قرآن پاک میں
سے نہیں ہے یا نعوذبالله نبی کریم رحمتہ اللعالمین صلی الله علیہ وآلہ وسلم
کو عطا نہیں ہوا یا نبی کریم رحمتہ اللعالمین صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے
تو یہ علم نہیں سکھایا یا نہ بتایا ۔ حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ نبی کریم صلی
الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مفہوم: “ فقر میرا فخر ہے “
قرآن مجید میں بھی سورہ رحمن میں میں دو دریاؤں کا ذکر ہے کہ دونوں کا پانی
ایک ساتھ بہہ رہا ہے، دونوں کے رنگ جدا جدا ہیں، دونوں ایک دوسرے میں گڈ مڈ
نہیں ہوتے۔ دونوں کے درمیان ایک برزخ (پردہ) ہے۔
جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے الله رب العالمین کی ذات اقدس ہی ہر علم کا
محور و مرکز ہے اور نبی کریم رحمتہ اللعالمین صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو
ہر طرح کے علوم اپنی جامعیت و اکملیت کے ساتھ عطا ہوئے ہیں تو الله کریم کی
عطا سے نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ بھی ہر قسم کے علوم
کا مرکز و محور ہیں اور آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے توسل یا وسیلہ خاص
سے آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے ہر دور میں آنے والے تمام اولیاء الله کو
اپنے اپنے دور میں کبھی اکٹھے اور کبھی الگ الگ عطا ہوتے رہیں گے۔
سلسلہ عالیہ قادریہ ۔۔ چشتیہ (پاکستان)
سلسلہ پاک قادریہ ۔۔ چشتیہ اس کائنات کی ہر جاندار مخلوق پر الله رب
العالمین کا لازوال احسان عظیم ہے جو کہ اس دنیائے فانی کے ہر فرد یا بنی
نوع انسان کے لئے ایک عظیم دینی درسگاہ کے فرائض انجام دے رہا ہے تا کہ رب
تعالیٰ کی مخلوق نبی آخرالزماں رحمتہ اللعالمین صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی
ذات اقدس سے شروع ہونے والے اس سلسلہ عالیہ کی روحانی تعلیمات سے ہر دور
میں فیضیاب ہوتی رہے اور انسان اپنے نفس یا شیطان کا غلام بننے کی بجائے
الله تعالیٰ کا غلام بن جائے اور انسان کی عبادات ریاکاری سے پاک ہو کر
الله تعالیٰ کے دربار میں شرف قبولیت حاصل کر سکیں اور انسان رحمتہ
اللعلمین صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت سے بہرہ مند ہو کر آخرت میں
کامیاب و کامران ہو جائے۔
نبی آخرالزماں رحمتہ اللعالمین صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کے اذن
خاص اور نگاہ رحمت سے یہ سلسلہ کریمیہ حضرت علی کرم الله وجہ کو منتقل ہوا
جیسا کہ احادیث پاک میں ہے نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
١- میں (محمد صلی الله علیہ وآلہ وسلم) علم کا شہر ہوں اور حضرت علی (کرم
الله وجہ) اس کا دروازہ ہیں۔
٢- جس نے مجھے (محمد صلی الله علیہ وآلہ وسلم) اپنا آقا مانا ، حضرت علی
(کرم الله وجہ) کو بھی اپنا آقا مانے یا جس کا میں (محمد صلی الله علیہ
وآلہ وسلم) مولا (آقا) ہوں ، حضرت علی (کرم الله وجہ) اسکے مولا (آقا) ہیں۔
درج بالا حدیث پاک(١) سے صاف واضح ہے کہ اہل بیت میں سے اول مقام حضرت علی
کرم الله وجہ کو عطا ہوا اور نبی کریم رحمتہ اللعالمین صلی الله علیہ وآلہ
وسلم کو الله رب اللعالمین سے حد درجہ علم عطا ہوا وہ اپنی مکمل جامعیت و
اکملیت کے ساتھ حضرت علی کرم الله وجہ کو چشمئہ نبوت صلی الله علیہ وآلہ
وسلم سے نصیب ہوا (والله اعلم) اور بار امانت (امامت) اور نور ہدایت سر
چشمہ ولایت کے سپرد ہوا۔
حدیث پاک(٢) یہ پیغام دے رہی ہے کہ الله تعالیٰ اور رسول کریم صلی الله
علیہ وآلہ وسلم کو سب سے زیادہ محبت حضرت علی کرم الله وجہہ سے ہے اور
سیدنا حضرت علی کرم الله وجہہ بھی الله تعالیٰ اور رسول کریم صلی الله علیہ
وآلہ وسلم کو سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ لہٰذا حضرت علی کرم الله وجہہ،
اور تمام اولیاء الله کا ادب کرنا ہر ایک پر لازم ہے اور حضرت علی کرم الله
وجہہ اور تمام اولیاء الله سے بغض رکھنے والا الله اور اس کے رسول صلی الله
علیہ وآلہ وسلم کا دشمن ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہوا:“جو کوئی الله تعالیٰ کے ولی
سے بغض رکھے گا، الله تعالیٰ اس کے ساتھ اعلان جنگ کرتا ہے“ (حدیث
قدسی)
بعض کم فہم اور حسد و بغض میں گھرے ہوے لوگ یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ
اصل خلافت راشدہ تو حضرت عمر رضی الله تعالیٰ عنہ کے دور حکومت تک تھی، بعد
میں تو صرف جنگ و جدل ہی رہی۔ شاید انہیں حضرت عمر رضی الله تعالیٰ عنہ کا
یہ قول یاد نہیں کہ “اگر ابوالحسن (کرم الله وجہہ) نہ ہوتے تو عمر (رضی
الله تعالیٰ عنہ) ہلاک ہو جاتا“۔
یہ محبت تھی حضرت فاروق اعظم رضی الله تعالیٰ عنہ کی نبی کریم صلی الله
علیہ وآلہ وسلم سے اور آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی آل سے اور خصوصاً
حضرت علی کرم الله وجہہ سے۔ |