رئیس التحریر علامہ ارشد القادری
کی کتاب ’ زلف و زنجیر ‘ سے ایک انتخاب
آج ہجرت کی رات تھی۔ کئی قبیلوں کے کافر نمائندے تیغِ بے نیام لیے انتظار
میں کھڑے تھے۔ اسی رسولِ رحمت کے انتظار میں جو انہیں ہلاکت و تباہی کے
دھانے سے آسائشِ دوام کی ٹھنڈی چھاؤں میں واپس لانا چاہتا تھا۔ اچانک رات
کے پچھلے پہر کا شانہ نبوت کا دروازہ کھلا۔ ایک کرن چمکی، اور آنکھیں خیرہ
ہوکر رہ گئیں۔ خدا کا حبیب مسکراتا ہوا باہر نکلا اور تلواروں کے سائے سے
گزر گیا۔ سحر کے اجالے میں صحرائے کفر کے خونخوار درندے جب دیوار پھاند کر
اندر داخل ہوئے تو یہ معلو م کر کے حیرت سے وہ ایک دوسرے کا منہ تکتے رہ
گئے کہ پیغمبر ان کی پلکوں کے نیچے سے گزر گیا اور انہیں خبر تک نہ ہوئی۔۔۔۔۔۔!؟
ہزار تیاریوں کے باوجود زہر میں بجھی ہوئی تلواروں کا مصرف حاصل نہیں ہوسکا۔
قبائلِ عرب کے مشترکہ محاذ پر آج کی شکستِ فاش سے رہبرانِ کفر تلملا کر رہ
گئے۔ فوراً ہی '' دارالندوہ '' میں مشاورت کی مجلس منعقد ہوئی اور طے پایا
کہ ابھی محمد (ﷺ) زیادہ دور نہیں گئے ہوں گے، اگر تعاقب کیا جائے تو آسانی
سے انہیں پکڑا جاسکتا ہے۔ کچھ ہی لمحے کے بعد مکے کی گلیوں میں اعلان ہورہا
تھا کہ محمد(ﷺ) کو جو بھی گرفتار کر کے لائے گا۔ اسے انعام میں سرخ اونٹ
دیئے جائیں گے۔ عرب کے مانے ہوئے شہسوار سراقہ کے کان میں جونہی اس اعلان
کی خبر پہنچی وہ انعام کے لالچ میں اس مہم کو سر کرنے کے لیے تیار ہوگئے۔
فوراً ہی ایک تیز رفتار گھوڑے پر سوارہوئے، باگ سنبھالی اور دم کے دم میں
نگاہوںسے اوجھل ہوگئے۔
کچھ دور چلنے کے بعد انہیں مدینے کے راستے پر دو جھلملاتے ہوئے سائے نظر
آئے خوشی سے چہرہ دمک اٹھا۔ سرخ اونٹوں کی قطار تصور میں رینگنے لگی۔ فرطِ
مسرت میں گھوڑے کو مہمیز لگائی اور ہوا سے باتیں کرتے ہوئے آن کی آن میں
قریب پہنچ گئے۔ خدا کا آخری پیغمبر صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اپنے رفیق خاص
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ ناقہ پر سوار مدینے کی طرف تیز تیز
بڑھتا جا رہا تھا۔
سراقہ نے کمند ڈالنے کے لیے جونہی قدم آگے بڑھایا۔ ایک پُر جلال آواز فضا
میں گونجی '' یَا اَرْضُ خُذِیْہِ '' اے زمین اسے پکڑ لے۔ فرماں روائے
کونین کا حکم تھا، گیتی کا کلیجہ ہل گیا۔ فوراً زمین شق ہوئی اور سراقہ کے
گھوڑے کا پاؤں گھٹنے تک زمین میں دھنس گیا۔ سراقہ نے ہزار کوشش کی۔ لیکن
زمین کی گرفت سے چھٹکارا حاصل نہ کرسکے۔ جب عاجزو مجبور ہوگئے تو دو عالم
کے تاجدار سے رحم کی درخواست کی۔ سرکار (ﷺ) نے ان کی درخواست کو شرفِ
قبولیت بخشا اور زمین سے خطاب فرمایا۔ '' اُتْرِکِیْہ '' اچھا اب اسے چھوڑ
دے۔ ابھی یہ الفاظ فضا میں گونج ہی رہے تھے کہ اچانک زمین کی گرفت ڈھیلی پڑ
گئی اور گھوڑے کا پاؤں باہر نکل آیا۔
مال کا طمع بھی کیا چیز ہوتی ہے کہ بنی نوعِ انسان کو دیدہ و دانستہ فریب
کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ رہائی پاکر جب سراقہ واپس لوٹ رہے تھے تو تقصیر کی
ندامت کے خوف سے دل ڈوبا جا رہا تھا۔ ابھی یہی کوئی میل دومیل کی مسافت طے
کی ہوگی کہ حرص کا شیطان پھر دل پر مسلط ہوگیا، اور فریب کی راہ سے تلقین
شروع کی کہ ''یہ واقعہ یونہی اتفاقاً پیش آگیا تھا، اس کے پیچھے محمد (ﷺ)
کی پیغمبرانہ توانائی کا قطعاً کوئی کرشمہ نہیں تھا، چلو واپس چلو، سرخ
اونٹوں کے انعام کا زریں موقع ہاتھ سے نہ جانے دو، محمد (ﷺ)کی گرفتاری کوئی
انہونی چیز نہیں ہے''
دل کی آواز پر پھر سراقہ نے گھوڑے کی باگ موڑ دی اور تعاقب کرتے ہوئے
دوبارہ سرکار کے قریب پہنچ گئے۔ اس بار بھی لبوں کو جنبش ہوئی، دھرتی کا
کلیجہ شق ہوا اور سراقہ اپنے گھوڑے سمیت گھٹنوں تک زمین میں دھنس گئے۔
سراقہ نے پھر رحمتِ اکرم کو آواز دی، پھر بخشش و درگزر کو پکارا۔ اور رحمتِ
مجسم (ﷺ) نے پھر احسان کی بارش فرمائی۔ زمین کو اشارہ کیا اور کائنات گیر
اقتدار کی گرفت میں سسکتا ہوا دشمن پھر آزاد ہوگیا۔
اس بار دل کی گہرائی میں پیغمبر کی توانائی کا یقین پیدا ہو چلا تھا۔ بار
بار سراقہ سوچ رہے تھے کہ ایک نیاز مند کی طرح زمین کی فرمانبرداری بلاوجہ
نہیں ہے، کائنات کے خدا کے ساتھ محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی معنوی
تعلق ضرور ہے۔ لیکن نفس کا شیطان بڑا ہی چابکدست اور سحر طراز دشمن ہے۔ یہ
ظالم ایک ہی لمحے میں دل کی ساری بسا ط الٹ کر رکھ دیتا ہے۔ سراقہ کچھ ہی
دور چلے ہوں گے کہ شیطان نے پھر سر گوشی شروع کی ''محمد (ﷺ) اتنے ہی بڑے
صاحبِ اقتدار ہوتے تو ایک تھکے ہوئے مجبور کی طرح مکے سے مدینے کی طرف ہجرت
نہ کرتے۔۔۔۔۔۔! خیالی ہیبت کے آگے ہتھیار ڈال دینا بہادروں کا شیوہ نہیں
ہے، سرخ اونٹوں کا انعام تمہاری زندگی کا نقشہ بدل دے گا، چلو واپس لوٹو،
اس سے زیادہ زریں لمحہ تمہیں پھر کبھی میسر نہیں آئے گا''
بالآخر سراقہ پھر شیطان کے فریب کا شکار ہوگئے ۔ پھر تیزی کے ساتھ واپس
لوٹے۔ پھر پیغمبر کے لبوں کو جنبش ہوئی۔ پھر زمین کا دھانہ کھلا اور سراقہ
ایک گرفتار پنچھی کی طرح سسکنے لگے۔ رحمتِ یزدانی نے دوبارہ سراقہ کو موقع
دیا تھا کہ وہ سنبھل جائیں لیکن جب بار بار کی تنبیہ کے بعد بھی ان کی
آنکھیں نہ کھلیں تو پیغمبر نے خود حقیقت کے چہرے سے نقاب اٹھایا اور دلنواز
تبسم کے ساتھ سراقہ کو مخاطب کیا ''سرخ اونٹوں کے فریب میں اپنے نوشتہ
تقدیر سے کیوں جنگ کر رہے ہو؟ تمہارا مستقبل میری نگاہوں سے اوجھل نہیں ہے،
جن کی زلفوں کا اسیر ہونا مقدر ہے، اسی کو گرفتار کرنے آئے ہو؟ کیا اب بھی
تمہیں کفر کی شبِ دیجور کا سویرا نظر نہیں آیا؟ میں کھلی آنکھوں سے دیکھ
رہا ہوں کہ کسریٰ کے سونے کے کنگن تمہاری کلائیوں میں چمک رہے ہیں، وہ دن
زیادہ دور نہیں ہے کہ نصیب کی ارجمندی تمہیں ایک وارفتہ حال دیوانے کی طرح
میرے سامنے لاکھڑا کرے گی، اور تمہارا سینہ اسلام وایمان کی دولتِ لازوال
کا گنجینہ بن جائے گا''
پیغمبر صادق کی زبانِ حق ترجمان کے نکلے ہوئے یہ الفاظ سراقہ کہ دل میں
ترازو ہوگئے۔ تاریخ میں عالمی تسخیر کی یہ پہلی خوشخبری تھی، جس کے پیچھے
کوئی مادی سامان نہیں تھا۔حیرت ہے کہ سراقہ کے ہاتھوں میں کسریٰ جیسے جابر
وعظیم فرمانروا کے کنگن دیکھنے والا آج وطن سے بھی شہر بدر کردیا گیا۔
حضرت سراقہ پر جلد ہی صبحِ سعادت طلوع ہوئی اور وہ مدینے کے دارالامان میں
پہنچ گئے اور پروانے کی طرح شمع رسالت (ﷺ) کے جلوؤں میں نہاتے رہے۔ کلائیوں
میں کسریٰ کے سونے کے کنگن پہننے کا یقین ان کے دل کی دھڑکنوں سے منسلک
ہوگیا تھا۔ جس رسول نے جبرائیل و میکائیل، عرش و کرسی، لوح و قلم، جنت و
دوزخ اور حشر ونشر کی خبر دی تھی، اسی رسول نے کنگن پہننے کی خوشخبری بھی
سنائی تھی۔
زندگی کے دن اسی انتظار میں گزرتے گئے یہاں تک کہ خلافت فاروقی کے عہدِ
زریں میں حضرت سراقہ سخت بیمار پڑ گئے، علالت سنگین ہوئی، صورتِ حال شہادت
دے رہی تھی کہ اب چند سانسوں کے مہمان رہ گئے ہیں، اکابر صحابہ کرام بالیں
کے قریب جمع ہوگئے، عالم برزخ کی طرف منتقل ہونے والوں کے نام کچھ لوگ اپنا
پیام و سلام کہنا ہی چاہتے تھے کہ حضرت سراقہ نے اپنی آنکھیں کھول دیں اور
مسکراتے ہوئے کہا ''آپ حضرات اطمینان رکھیں،یہ میرا آخری وقت نہیں ہے، اس
وقت تک موت میرے قریب بھی نہیں آئے گی، جب تک میں اپنے ہاتھوں میں کسریٰ کے
کنگن نہ پہن لوں۔ ہر چیز اپنی جگہ سے ٹل سکتی ہے لیکن سرکار رسالت (ﷺ) کا
فرمان نہیں ٹل سکتا'' چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ حضرت سراقہ موت کے چنگل سے نکل
آئے اور دیکھتے دیکھتے کچھ دنوں میں بالکل صحت یاب ہوگئے۔
آج مدینے میں ہر طرف مسرتوں کی بارش ہورہی تھی۔ سجدہ شکر کے اضطراب سے سب
کی نشانیاں بوجھل ہوگئی تھیں۔ سپیدہ سحر نمودار ہوتے ہی لشکر اسلامی کا
قاصد فتح ایران کی خوشخبری لے کر آیا تھا۔ محمد عربی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
کے غلاموں نے دنیا کی سب سے بڑی طاقت کو اپنے قدموں تلے روند ڈالا تھا۔ آج
تاریخ میں پہلی بار کسریٰ کے ایوانوں پر عظمتِ اسلامی کا پرچم لہرا رہا
تھا۔ حق کی سطوت و جبروت کے آگے باطل اقتدار کا غرور چکنا چور ہوگیا تھا۔
چند ہی دنوں کے بعد ایران سے اموالِ غنیمت مدینے آیا، اور خلیفہ دوم خلیفہ
برحق حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے بکھیر دیا گیا۔
امیرالمومنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سب سے پہلے کسریٰ
کے کنگن دریافت کئے۔ تلاش کے بعد جب وہ مل گئے تو حضرت سراقہ کو آواز دی
گئی۔ اس وقت حضرت سراقہ کا عالم قابل دید تھا۔ ناز سے جھوم رہے تھے، فرطِ
مسرت سے چہرہ کھلا جارہا تھا، ارمانوں کے ہجوم میں مچلتے ہوئے اٹھے اور
فاروقِ اعظم کے سامنے جاکر کھڑے ہوگئے۔
آج حضرت سراقہ کے لیے زندگی کی محبوب ترین گھڑی آگئی تھی۔ جس چیز کی آرزو
کو ساری عمر ایمان کی طرح سینے سے لگا رکھا تھا، وہ آنکھوں کے سانے جلوہ گر
تھی۔ اہل مدینہ بھی کیف ومستی کے عالم میں اپنے آقا کا زندہ معجزہ دیکھ رہے
تھے۔ امڈتے ہوئے خوشی کے آنسوؤں میں حضرت سراقہ کی کلائیوں میں کسریٰ کے
کنگن پہنائے گئے، سر پہ تاج رکھا اور شاہی قبازیب تن کرائی۔ حضرت سراقہ کی
شاہانہ سج دھج دیکھ کر اہل مدینہ جذبات سے بے قابو ہوگئے، فرطِ شوق میں منہ
سے چیخ نکل گئی۔ فاروقِ اعظم بھی عشق وایمان کی رقت انگیز کیفیت دیکھ کر بے
خود ہوگئے، لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ''اس وقت کی بات ہے، جب اسلام بے
سرو سامانی کے عالم میں تھا، ایک یزدانی مسافر نے آج کی عظیم الشان فتح کی
خبر دی تھی، کل میدانِ قیامت میں آپ حضرات گواہ رہیے گا کہ سراقہ کے ہاتھوں
میں کسریٰ کے کنگن پہنا کر میں نے اپنے آقا کا فرمان پورا کر دیا''
سرکار ِرسالت (ﷺ) کی شوکت اقتدار کا یہ نظارہ تاریخ فاموش نہیں کرے گی کہ
ایک جنبش لب پر کائنات گیتی کا نقشہ بدل گیا اور عشق رسالت کے فیضان نے عرب
کے صحرا نشینوں کو چشم زدن میں ساری دنیا کا فرماں روا بنا دیا۔
آج بھی ہو جو ابراہیم کا ایمان پیدا
آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا |